کورونا کیساتھ احتسابی عمل میں تیزی بتا رہی صرف کرپشن مسئلہ نہیں
تجزیے
بعض حلقے اسے ن لیگ کو دباؤ میں لانے اور اٹھارہویں ترمیم پر بارگین کا شاخسانہ سمجھ رہےیہ بڑی حقیقت ہے کہ احتسابی عمل کو کسی طور پر آزادانہ اور شفاف قرار نہیں دیا جا سکتا
(تجزیہ:سلمان غنی)ایک طرف ملک بھر میں کورونا نے غیرمعمولی اور ہنگامی صورتحال طاری کر رکھی ہے تو دوسری جانب سیاسی محاذ پر کرپشن اور احتساب کا واویلا جاری ہے ،اپوزیشن خصوصی طور پر شریف خاندان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نیب کا ٹارگٹ ہیں اور احتساب کے حوالے سے حکومتی مشیر شہزاد اکبر پریس کانفرنس کے ذریعے ان کے خلاف فضا بناتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک جانب اپوزیشن کے خلاف ریفرنس ہے اور دوسری جانب احتساب کے قوانین میں ترمیم کیلئے حکومت اپوزیشن میں مشاورت ہے ،آخر اس کی کیا اہمیت ہے ، کیا عیدالفطر کے بعد کرپشن کی بنیاد پر گرفتاریوں کا ریلہ آئے گا اور گرفتاریوں کا یہ عمل کیا صرف اپوزیشن تک محدود رہے گا یا حکومتی ذمہ داران بھی گرفت میں آئیں گے ؟ احتسابی ادارے وجود میں آنے کے باوجود یہاں کرپشن اور لوٹ مار میں کمی نہیں آئی۔ خصوصاً سیاسی حکومتوں کے دور میں ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کے الزامات لگتے رہے مگر احتساب صرف سیاسی مخالفین کا ہوا جس کی وجہ سے احتساب کی کوئی ساکھ نہ بن سکی جہاں تک نیب کے کردار کا سوال ہے تو اس کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی اس کی ساکھ پر اس وقت سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا جب خود جنرل مشرف نے نیب کے چیئرمین جنرل امجد اور جنرل شاہد عزیز کو بعض لوگوں کے خلاف یہ کہہ کر روک دیا کہ ہم ایک سیاسی جماعت بنا رہے ہیں لہٰذا احتساب پر ہاتھ ہلکا کیا جائے ۔ جہاں تک سیاسی حکومتوں کا سوال ہے تو پہلے پہل تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اس احتسابی عمل کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا اور بعدازاں اپنے معاملات مل جل کر چلانے پر اتفاق کر لیا جس سے نیب کی اہمیت و حیثیت ختم ہو گئی۔ دوسری جانب ملک میں کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف موجودہ وزیراعظم عمران خان نے رائے عامہ کو منظم کیا اور وہ اپنی ہر تقریر میں کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیتے نظر آئے مگر حکومت میں آنے کے بعد آہستہ آہستہ انہیں یہ معلوم ہوا کہ کرپٹ عناصر صرف اپوزیشن میں ہی موجود نہیں بلکہ خود حکومتی ایوانوں اور اہم مناسب پر موجود ہیں مگر وہ خود اپنے کہے پر قائم نہ رہے ،خود ان کے وفاقی وزیر صحت پر کرپشن کے الزامات لگے تو انہیں نیب نے ہٹا دیا تو انہیں پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔ اب بہت سارے مقدمات نیب کے پاس موجود ہیں مگر نیب کی د سترس وہاں تک ممکن نہیں ہو پار ہی نہ تو ان کو نوٹس جاری ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف مقدمات بنتے ہیں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو مگر مالم جبہ بی آر ٹی سمیت کئی معاملات میں بعض وفاقی وزرا نیب کو مطلوب ہیں ان کے خلاف شواہد بھی ہیں مگر بات اس جانب نہیں جا پاتی۔ شہباز شریف کی وطن واپسی اور کورونا کے محاذ پر ان کی سرگرمیوں کو حکومت ہضم نہ کر پائی ، حکومتی ذمہ داران اور خصوصاً وزیراعظم ہاؤس میں قائم احتسابی سیل ان کے خلاف سرگرم ہو گیا جبکہ اس سے قبل شہباز شریف کے خلاف نیب کی جانب سے قائم ہونے والے مقدمات پر عدالتوں سے انہیں ضمانت مل گئی تھی لیکن یکدم کورونا کے ساتھ احتسابی عمل میں تیزی یہ بتا رہی ہے کہ یہ صرف کرپشن اور لوٹ مار کا مسئلہ نہیں کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔بعض ذمہ دار حلقے تو اسے ن لیگ کو دباؤ میں لانے اور بعض 18ویں آئینی ترمیم پر بارگین کا شاخسانہ سمجھ رہے ہیں۔ ان سب میں حقیقت کیا ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا مگر یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ احتسابی عمل کو کسی طور پر آزادانہ اور شفاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر احتسابی عمل آزادانہ اور شفاف ہوتا تو حکومتی وزرا اور ذمہ داران جن کے خلاف نیب کے مقدمات تھے ان کے خلاف بھی نیب کا شکنجہ اسی طرح کسا جاتا جس طرح اپوزیشن کے خلاف ہے ۔ احتسابی عمل کے حوالے سے حکومتی مشیر شہزاد اکبر کی پریس کانفرنس دیکھ کر احتساب بیورو والے سیف الرحمن یاد آتے ہیں۔ وہ بھی اس انداز میں مخالفین کے کچے چھٹے کھولتے نظر آتے تھے لیکن پھر وہی سیف الرحمن جیل میں روتے پائے گئے اور اب شہزاد اکبر کے لہجے اور الزامات کے انداز پر یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر اس ملک میں احتساب کے نام پر یہ ڈرامہ اور تماشا کب تک چلے گا۔ہو سکتا ہے کہ ایک دو بڑی گرفتاریوں کے ذریعہ حکومتی ذمہ داران اور خصوصاً آٹا،چینی، ادویات اور بجلی گھروں کے سکینڈل سے توجہ ہٹائی جا سکے لیکن حالات و واقعات یہ بتا رہے ہیں کہ جس کرپشن کے خلاف جس احتساب کو خود وزیراعظم عمران خان نے جن بنا کر پیش کیا تھا یہ جن صرف اپوزیشن ہی نہیں اور بہت سوں کی جان کے در پے بھی ہوگا اور بڑا سیاسی المیہ یہ ہے کہ نیب کی دسترس سے بیورو کریٹس بھی نکل چکے ہیں۔ جہاں تک اس ساری صورتحال کے عوام پر اثرات کا تعلق ہے تو عوام اس احتسابی عمل کو سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کرپشن میں ملوث افراد کے پیٹ چاک کر کے لوٹے جانے والے اربوں کھربوں کی قومی خزانہ میں واپسی کے خواب دکھائے گئے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کا تسلسل ہے ۔ البتہ اس حکومت سے قائم امیدیں اور توقعات ہوامیں تحلیل ہو چکی ہیں اور آج منتخب حکومت بنانے کے باوجود ملک بھر میں بے برکتی ہے ، بے چینی ہے ، بے یقینی ہے اور لوگوں کو اپنے روزگار کے لالے پڑے ہوئے ہیں مگر اس حوالہ سے کوئی جوابدہ نہیں۔