بھارت کی کرتار پور راہداری کھولنے پر بھی ہٹ دھرمی
تجزیے
بھارت کے انکار سے ظاہر ہواوہ اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھ پا رہا شدت پسندی کا راستہ نہ روکا گیا تو مودی بھارت کی وحدت کیلئے خطرناک ہونگے
(تجزیہ:سلمان غنی)پاکستان کی جانب سے رنجیت سنگھ کی برسی کے موقع پر کرتارپور کھولنے کا اعلان اور بھارت کی جانب سے اس پیشکش کومسترد کرنے کا پیغام ظاہر کرتا ہے کہ کون اپنی اقلیتوں کو اپنی رسومات کے حوالے سے سازگار فضا اور ضروری سہولتوں کی فراہمی اور کون اسے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھا کر صورتحال کو بدمزگی کی جانب لے جانے پر مصر ہے ۔ پاکستان بھارت کے درمیان ایشوز کے تناظر میں بھی ایک بڑا علاقائی تاثر یہ نمایاں ہوتا نظر آ رہا ہے کہ پاکستان ایک چھوٹا ملک ہونے کے باوجود باہمی تنازعات کے حل کیلئے مل جل کر بیٹھنے اور مذاکراتی عمل کے ذریعے آگے بڑھنے پر زور دیتے رہا ہے اور دے رہا ہے مگر بھارت ایک بڑا ملک ہونے کے باوجود دل بڑا کرنے کیلئے تیار نہیں اور ایشو کے حل کیلئے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی بجائے ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطہ میں محاذ آرائی’ کشمکش اور تناؤ پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کشمکش کے براہ راست اثرات عوام پر ظاہر ہو رہے ہیں اور ان کی فلاح و بہبود اور ترقی کا عمل آگے نہیں بڑھ پا رہا۔ جہاں تک کرتار پور راہداری اور سکھ برادری کیلئے اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کا تعلق ہے تو پاکستان نے اس عمل کے ذریعہ جہاں سکھ کمیونٹی کو ممکنہ سہولتیں فراہم کر کے اقلیتوں کے حوالے سے اپنے ایک اچھے جیسچر کا ثبوت دیا ہے وہاں دنیا بھر میں پاکستان کے اس کردار کو سراہا گیا ہے ۔ دنیا بھر میں بسنے والے سکھ کرتار پور راہداری کے عمل پر پاکستان کے کردار کو سراہتے نظر آتے ہیں اور ان کے جذبات دیدنی ہوتے ہیں جبکہ بھارت کی جانب سے مذکورہ عمل کو سراہنے اور اس پر پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے اسے بھی سیاست قرار دے کر تنگ نظری کا مظاہرہ کیا گیا ہے ، بھارت کی جانب سے رنجیت سنگھ کی برسی کے موقع پر کرتارپور کھولنے کے پاکستانی اعلان کے جواب میں بھارت کے انکار سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ اگر وہ خود اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھ پا رہا اور ان پر زندگیاں اجیرن کئے ہوئے ہے تو دوسری جانب پاکستان کی جانب سے اقلیتوں کے اچھے سلوک کو بھی وہ اپنے ذہن کے مطابق بدنیتی سے تعبیر کر رہا ہے جس کے اثرات خود بھارت’ اس کی انتہا پسند قیادت کیلئے اچھے نہیں لہٰذا اب اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جس بنا پر جنوبی ایشیا میں امن و استحکام قائم نہیں ہو پا رہا۔ کرتارپور کاریڈورکھول کر پاکستان نے کھلے دل اور ذہن کا مظاہرہ کیا اور بھارت کی جانب سے دل بڑا کرتے ہوئے اسے سراہنے کے بجائے روایتی ضد اور تنگ نظری کا ثبوت دیا گیا جس کے نتائج دنیا دیکھ رہی ہے ۔دوسری جانب نریندرا مودی اور ان کی انتہا پسندانہ حکومت کے اقدامات نے خود اپنے معاشرے کے اندر تقسیم در تقسیم کو ہوا دے کر بھارت کا سکیولر اور جمہوری تشخص مجروح کر کے رکھ دیا ہے اب یہ ایک اور موقع تھا کہ پاکستان کی جانب سے کورونا وائرس کی وبا کے باعث 16مارچ سے بند کرتارپور راہداری کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی 181 ویں برسی پر 29جون کو کھولنے کا اعلان کیا گیاتھا تاکہ سکھ برادری اس دن کے موقع پر یہاں آ کر اپنی رسومات ادا کر کے جذبات و احساسات کا اظہار کر سکے لیکن بھارت نے صحت ،تکنیکی مسائل، برسات میں یاتریوں کیلئے ناکافی سہولیات کا بہانہ بنا کر اسے مسترد کر دیا جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنی روایتی تنگ نظری سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور اس طرح سے اس نے ایک مرتبہ پھر سکھ کمیونٹی کو اپنی تنگ نظری کے ذریعہ اچھا پیغام نہیں دیا۔ دنیا کے اندر پیدا شدہ رجحانات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جوں جوں ترقی کا عمل تیز ہو رہا ہے ملک اور اقوام خود کو ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر کرتے جا رہے ہیں اور ایک دوسرے کے مذہب’ رسوم و رواج اور اقدار و روایات کا احترام کیا جاتا ہے مگر بھارت ہندوتوا کے فلسفہ پر گامزن ایک مرتبہ پھر بھارت کو ہندوستان بنانے پر مصر ہے اور خود بھارتی میڈیا بھارتی قیادت کی پالیسیوں اور اقدامات پر اپنے شدید تحفظات ظاہر کرتا یہ کہتا نظر آ رہا ہے کہ شائننگ انڈیا کے نام پر برسراقتدار آنے والے نریندرا مودی بھارت کے سکیولر تشخص اور تاریخ پر اثرانداز ہو کر دنیا بھر میں بھارت کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں اور اگر ان کی انتہا پسندی اور شدت پسندی کا راستہ نہ روکا گیا تو آنے والے حالات بھارت کی وحدت کیلئے خطرناک ہوں گے اور اقلیتوں میں پیدا شدہ نفرت یہاں انارکی کا باعث بن سکتی ہے ۔