"ABA" (space) message & send to 7575

اپوزیشن 5 سال پورے کرے گی!

جی ٹی روڈ جب راولپنڈی کو چھوڑتی ہوئی آئی سی ٹی میں داخل ہوتی ہے تو اس کی بائیں طرف کے علاقے کو کہوٹہ ٹرائی اینگل کہتے ہیں۔
یہاں سے کیپیٹل آف دی نیشن کا انڈسٹریل ایریا شروع ہوتا ہے‘ جو بے چارہ اَب کمرشل اور ریزیڈینشل ایریا زیادہ ہے جبکہ انڈسٹری صرف پائپ مینوفیکچرنگ اور گندے پلاسٹک کے زہریلے بیگ بنانے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ تقریباً 90 سال پہلے والے شیشم کے اونچے اور موٹے درخت تین عشرے میں لینڈ مافیا کے کبھی نہ بھرنے والے پیٹ میں جا چکے ہیں۔ تقریباً 2 میل کے اس علاقے میں قبل اَز مسیح کے زمانے سے بہنے والے دریا، دریائے سواں کے بَیڈ میں یا تو گندا نالا چل رہا ہے یا غیر قانونی تجاوزات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ یہاں سے ایک میل آگے، فیصل مسجد سے نئے ڈی ایچ اے کو دو رَویہ سڑک پھر جی ٹی روڈ سے ملا دیتی ہے۔ یہ علاقہ ڈیفنس تنصیبات کے لئے جانا جاتا ہے مگر اس سے بھی زیادہ، مختلف مارشل لائوں کے سیاسی قیدیو ں کی وجہ سے اس جیل کو بڑی مشہوری ملتی رہی۔ سہالہ میں ایک بہت پُرانا پولیس ٹریننگ کالج ہے، جس کے ریسٹ ہائوس کو سہالہ سَب جیل بنایا جاتا تھا۔
سہالہ سے گزرنے والی سڑک سب سے اہم ڈیفنس روڈ ہے اور پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بھی۔ کے آر ایل کو بائیں ہاتھ چھوڑتی ہوئی یہی سڑک آزاد پتن نامی گائوں جا پہنچتی ہے‘ جہاں دریائے جہلم بہتا ہے۔ پُل کے دوسری طرف ریاست آزاد جموں اور کشمیر کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔
سہالہ گائوں کے پیچھے سے دائیں جانب ڈی ایچ اے، میری یو سی ہوتھلہ میں پہنچ چکا ہے۔ آج ہفتے کی شام ہوتھلہ اور کہوٹہ کے لیے اس اعتبار سے بڑی اہم تھی کہ یہاں دیہی علاقے میں پنجاب گروپ آف کالجز کی پہلی برانچ کا افتتاح ہوا۔ علاقے کے سینکڑوں لوگ آئے ہوئے تھے، جہاں میرے والد صاحب نے تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور پنجاب گروپ آف کالجز کو علم کا مشعل بردار قرار دیا۔ میری بڑی خواہش تھی کہ میں بھی اس افتتاحی تقریب میں شرکت کرتا۔ چلیے پھر سہی۔
دوسری جانب F-8/2 میں ہمارے گھر والی گلی کے مشرقی کونے پر آج چھوٹی الائچی کے حلوے والی دیگیں شام سے کھڑک رہی ہیں۔ یار لوگوں نے اِسے آل پارٹیز کانفرنس بنا رکھا ہے۔ آئیے ذرا پہلے اس آل پارٹیز کی کمپوزیشن دیکھ لیں۔ اس اے پی سی کی میزبانی صوبہ سندھ کی حکومت کی جیب سے ہو رہی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ صوبائی حکومت کی جیب، سندھ کے ہاری، دیہاڑی دار، محنت کش، غریب مزدور کی جیبوں اور خون پسینے کی کمائی سے آباد رہتی ہے۔ سندھ حکومت پچھلے مسلسل 13 سال سے پی پی پی کے پاس ہے جو عوامی مال خرچ کرکے تھوڑ ے تھوڑے وقفے سے اپنے مفاد کی ایم پی سی کا سَوپ سیریل چلاتی رہتی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے، ایم پی سی کا مطلب کیا ہے؟ یہ ہے ملٹی پارٹیز کانفرنس۔ مگر، جی نہیں! میں اے پی سی کو ایم پی سی ہرگز نہیں کہہ رہا‘ بلکہ سوشل میڈیا اُٹھا کر دیکھ لیں، عوام اسے منی لانڈرنگ پارٹیز کانفرنس کہہ رہی ہے‘ جس کے میزبان کا سنگل پوائنٹ ایجنڈا حکومت کو نکال باہر کرنا ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق حکومت کا مطلب، 4 صوبوں اور وفاق میں قائم منتخب ایگزیکٹو اَتھارٹی بنتا ہے۔ اس لئے اگر صوبہ سندھ کی حکومت کے مالکان حکومت کو گھر بھجوانا چاہتے ہیں، تو ان کے لیے سب سے آسان نُسخہ سنگل پوائنٹ ایجنڈے کی شکل میں ہو سکتا ہے۔ ایسا جادو اثر اور 100 فیصد کامیاب نسخہ منی بیک گارنٹی سے بھی نہیں مل سکتا۔ نسخہ یہ ہے کہ صوبہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت فوری طور پر استعفیٰ دے دے۔ چیف منسٹر سندھ اپنے صوبے کی اسمبلی تحلیل کر دیں اور سندھ کو پیرس اور ملیر کو شانزے لیزے بنانے کے احسانات کی وصولی کے لئے الیکشن لڑنے کو اپنی عوام کے پاس واپس چلے جائیں۔ اس طرح وہ بڑی آسانی سے ایک ہی پتھر سے دو شکار کر سکتے ہیں۔ ایک نیا نویلا نوجوان مینڈیٹ لے کر، اور دوسرے یہ کہ ان کی پاپولیرٹی کو چیلنج کرنے والے اپنا منہ دیکھتے ہی رہ جائیں۔ اگر نہیں، تو پھر لوگ اصلی بات جانتے ہی ہیں کہ ایم سی پی، ڈالر گرلز اور کیش بوائز والی عدالتی کارروائیوں پر مٹی ڈالنے کے لئے این آر او کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
ایم سی پی کی دوسری بڑی فریق مسلم لیگ (ن) ہے‘ جس کے تازہ نعرے دو نکاتی ایجنڈے پر کھڑے ہیں۔ ایجنڈا آئٹم نمبر1 یہ ہے کہ ووٹ کو عزت دو۔ کون نہیں جانتاکہ ووٹ کا مطلب وہ پرچی ہے جو پاکستان کے لوگ پاکستان کے اندر کھڑے ہو کر‘ پاکستانی الیکشن کمیشن کے قائم کردہ پولنگ سٹیشنوں پر خود جاکر ڈبے میں ڈالتے ہیں۔ عزت والے ووٹ کی باغیرت پرچی اس وقت تک پولنگ سٹیشن کے اندر نہیں جاتی جب تک ووٹر اسے احترام سے ہاتھوں میں اُٹھا کر بیلٹ بکس والے کمرے کے اندر نہ لے کر جائے۔ مسلم لیگ (ن) کا یہ نعرہ بڑا جائز ہے۔ اس کا مخاطب یقینا نواز شریف صاحب ہی ہیں جو ووٹ اور ووٹر دونوں کو عزت دینے کے لئے پاکستان میں واپس آنے سے انکاری ہیں۔ اس انکار میں شامل دوسرے مردِ انکار کا نام اسحاق ڈار ہے۔ وہ بھی ووٹروں کے پاس پاکستان واپس آکر ان کے ووٹ کو عزت دینے کے لئے تیار نہیں ہو رہے۔ اسحاق ڈار کے ووٹرز خود بھی پنجاب اسمبلی کے نون لیگی ایم پی ایز ہیں‘ جن کے ووٹ سے اسحاق ڈار صاحب سینیٹ آف پاکستان کے رُکن منتخب ہوئے تھے۔ اب اسحاق ڈار کی ممبری کا تیسرا سال شروع ہو چکا ہے، لیکن ڈار صاحب اپنے ووٹروں اور اُن کے ووٹ کی مسلسل بے عزتی کیے چلے جا رہے ہیں۔ وہ اس ووٹ کو عزت دینے کے لیے ایوانِ بالا میں جاکر نہ تو پاکستان کے آئین سے حلفِ وفاداری اُٹھاتے ہیں اور نہ ہی خود اپنے ووٹ کو عزت دینے کے لئے ایم سی پی والی اپوزیشن کے حق میں اور ایف اے ٹی ایف قوانین کے خلاف ووٹ ڈالنے کے لئے پاکستان کے اندر واپس آتے ہیں۔
اس سلسلۂ انکاریہ کا تیسرا مردِ مفرور کوئی اور نہیں بلکہ سابق خادمِ اعلیٰ کی خدمتوں کا بھگایا ہوا اُن کا بھگوڑا صاحب زادہ سلمان شہباز ہے‘ جس کے ووٹر اپنے ووٹ کو عزت دینے کے لئے ان کی جلد واپسی کے منتظر لاہور انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کھڑے ہیں۔ سلمان شہباز صاحب کو یقین رکھنا چاہیے کہ اُن کا ووٹر، اُن کے ساتھ بالکل ویسا ہی استقبالی سُلوک کرے گا جیسا سلمان شہباز، ان کے بھائی حمزہ شہباز اور ان دونوں کے ابا جی شہباز شریف صاحب نے وڈّے بھا جی کا استقبال کیا تھا۔ 
ذرا سوچئے اس ایم پی سی میں موجود نون لیگ کے 11 میں سے 8 لوگ نیب کو مطلوب ہیں۔ اس سے اگلا سچ یہ ہے کہ پی ایم عمران خان صاحب نے صحیح کہا تھا: جب ان پر ہاتھ ڈالوں گا، سب اکٹھے ہو کر چیخیں گے۔ کیا ایم پی سی اسی دن کا ثبوت نہیں۔ آپس کی بات ہے، حکومت جو مرضی کر لے، موجودہ اپوزیشن اپنے پانچ سال ضرور پورے کرے گی۔
جماعت اسلامی نے پتے کی بات کہی، اب ہم کسی کے مطلب کے لئے استعمال ہونے کو تیار نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں