"ABA" (space) message & send to 7575

ہٹ مین اور کورونا بھارتی…(2)

محض اتفاق یا حُسن اتفاق ؟؟
جب پچھلی جمعرات کے دن وکالت نامہ کا ایکسٹرو لکھا جا رہا تھاتب تک ہمارے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان کے عدالتی مفرور وں کے جتھے کے سینئر رکن اسحاق ڈار بی بی سی کو دھماکا خیز انٹرویو دے رہے ہیں۔سٹیفن سیکر کو دیئے گئے اس انٹرویو کے بارے میں لندن کے باخبر لوگ کہتے ہیں کہ اسے مفروروں کی پی آر کے ذریعے عزت افزائی کا فریضہ سر انجام دینے والی ایک کمپنی نے ارینج کروایا تھا۔ باقی تفصیلات تو آپ سب دیکھ اور پڑھ ہی چکے ہیں مگر اس انٹرویو کے بعد تین نکات پر پبلک ڈسکورس چل نکلا ہے۔نواز شریف صاحب کے اپنے بنائے ہوئے احتسابی پھندے میں پھنسنے کے بعد ان کے سمدھی اسحاق ڈار نے ایک جوڈیشل اعترافِ جرم ریکارڈ کروایا تھا۔ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164کے تحت اس جوڈیشل کنسیشن میں کنفیشن کا ایک جملہ اسحاق ڈار نے بی بی سی کے انٹرویو میں ایک بار پھر دُہرایا ہے۔اپنے سمدھی نواز شریف پر کرپشن کیسز کے بارے میں فرماتے ہیں:مجھے اُن کی جائیدادوں کا کیا پتہ؟پھر پاکستان میں واقع اس گھر کو اپنی ملکیت ٹھہرایاجس کے بارے میں اُن کی اہلیہ صاحبہ پاکستانی عدالتوں میں لکھ لکھ کر کہہ رہی ہیں کہ وہ گھر اسحاق ڈار کا نہیں میرا (اُن کی بیوی) کا ہے۔آپ کو یاد ہوگا کہ احتساب عدالت کی طرف سے اس گھر کو ضبط کئے جانے کے فیصلے کے خلاف انہی خاتون نے اپیل میں موقف اختیار کر رکھا ہے کہ گھر اسحاق ڈار کا نہیں ‘بلکہ ان کاہے۔ پوٹھوہاری زبان کا ایک مقولہ ہے کہ ایک چپ اور سوسکھ۔باقی باتیں جانے دیتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ اب دنیا بھر میں ہٹ مین نشانے پر ہیں۔ مخالفوں کا نشانہ نہیں بلکہ عظیم عوامی آگاہی کے نشانے پر ۔آگاہی کی بات چل نکلی ہے تو آپ کو چینی سائنسدانوں پر مشتمل چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کی تازہ ریسرچ پتہ چل گئی ہوگی‘جس کا کہنا ہے کہ COVID-19وائرس کی شروعات انڈیا میں ہوئی ۔اس معتبر سائنسی تحقیق میں اکٹھے کئے گئے حقائق کے مطابق2019ء کی گرمیوں میں کورونا وائرس بھارت میں شروع ہوا۔تحقیق کہتی ہے کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں آلودہ پانی کے ذریعے داخل ہوا اور پھر بین الاقوامی سیاحتی روٹس سے ہوتا ہوا چین کے شہر ووہان پہنچ گیا۔انڈیا سویا رہایا اس وائرس کو چھپاتا رہا‘لیکن ووہان میں بہترین میڈیکل سہولتوں نے کورونا وائرس کا پتہ چلا لیا۔ چینی زبان میں اس وائرس کو کورونا بھارتی کہا گیا۔گلاسگو کے ایک میڈیکل ایکسپرٹ ‘ڈیوڈ رابرٹسن نے اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے ان کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔چائنا کے طبی سائنس دانوں کی ٹیم نے کورونا وائرس کے آغاز کا کھوج لگانے کے لیے ''Phylogenic Analysis‘‘کا فارمولا استعمال کیا ہے۔یہ ایک ایسی سٹڈی سکیم ہے جس سے پتہ چلایا جاتا ہے کہ وائرس Mutateکیسے ہوتا ہے۔اسی سٹڈی سے چائنا کے سائنسدانوں کو COVID-19کی شروعات تک پہنچنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔آسان لفظوں میں یہ سٹڈی بتاتی ہے کہ انسانی جسم میں ہر سیل کی طرح سے وائرس بھی تعداد میں بڑھتے ہوئے Mutateہوتے ہیں‘یعنی جب بھی وہ اپنے آپ کو دوسرے جنم میں دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے ڈی این اے میں کسی نہ کسی طرح کا بدلائو آجاتا ہے۔
بھارت میں انتہا پسند حکمران انسان بیزار لوگ ہیں‘اسی لیے کھلے عام سڑکوں پر جس طرح برچھے‘تلوار اور چھرے ‘مسلم اقلیت کے خلاف استعمال ہوتے ہیں ‘اس سے یہ بات صحیح ثابت ہوتی ہے کہ مودی راج میں انسانوں سے زیادہ گائے محفوظ ہے۔ چین کے اس انکشاف کے حق میں عالمی سطح پر ماہرین کئی دلائل اور بھی سامنے لا رہے ہیں‘مثال کے طور پر ‘پہلی دلیل یہ ہے کہ جب اٹلی میں 23فروری کے روز بریک ڈائون کا اعلان کیاگیا تو وہاں موجود کورونا وائرس کے رپورٹ شدہ پازٹیوکیسزکا تعلق چین کے شہر ووہان سے آنے والے مسافروں سے بالکل نہیں تھا۔دوسری دلیل یہ ہے کہ ستمبر کے مہینے میں میلان میں لیے گئے خون کے ٹیسٹ میں بھی COVIDاینٹی باڈیز کا پایا جانا ثابت ہوا ہے۔میلان کے قریب نمونیا کے مریضوں میں سینکڑوں کیسز کا تعلق اس وائرس سے ہوسکتا ہے۔اس پر علیحدہ سے سائنس دان تحقیق و تفتیش میں مصروف ہیں۔تیسری دلیل: برازیل کے شہر فلورینا پالس میں لیے گئے سیوریج کے پانی کے نمونوں سے یہ ثبوت ظاہر ہوا کہ کورونا وائرس یہاں موجود تھا اور اس بارے میں بھی ادارے تحقیقات کر رہے ہیں۔اسی تسلسل میں میلان اور ٹورن کے شہروں میں سے سیوریج کے جو نمونے لیے گئے ان سے بھی یہی علامات ظاہر ہوتی ہیں کہ COVID-19ان شہروں میں گردش کر رہا تھا۔چوتھی دلیل: بارسلونا میں بھی سیوریج کے نمونوں سے اس وائرس کے ثبو ت ملے ہیں۔
کورونا بھارتی والی تحقیق سامنے آنے کے بعد ابھی تک انڈیا اس کی کوئی تردید نہیں کرسکا‘کیونکہ عالمی سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ کورونا وائرس کے اصل ورژن کا کھوج ایسے سیل سے لگایا جا سکتا ہے جس میں سب سے کم Mutationsواقع ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کے استعمال سے ووہان میں پائے جانے والے وائرس کے اصل ہونے کا دعویٰ غلط ثابت ہوتا ہے۔ان غیر جانبدار سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وائرس کی شروعات ان آٹھ میں سے کسی ایک ملک سے ہو سکتی ہے۔یہ ملک ہیں انڈیا‘ بنگلہ دیش‘امریکہ ‘یونان‘آسٹریلیا ‘اٹلی‘چیک ریپبلک ‘روس اور سربیا۔ وائرس کے ریسرچرز اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ چونکہ انڈیا اور بنگلہ دیش میں پائے گئے وائرس کے نمونوں میں سب سے کم Mutations واقع ہوئی ہیں اور دونوں جغرافیائی پڑوسی ہیں اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ کورونا وائرس کی پہلی وائرل ٹرانسمیشن یہیں پر ہوئی ہو۔ان نمونوں کی کراس سٹڈی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وائرس سب سے پہلے جولائی یا اگست2018ئ میں یہاں اُبھرا تھا ‘لیکن اسے کارپٹ کے نیچے چھپادیا گیا۔
ریسرچرز کا مزید کہنا ہے کہ انڈیا کے انتہائی ناقص نظامِ صحت اور نوجوان آبادی‘جن میں وائرس کی علامات جلد ٹریس نہیں ہوتیں ‘ کی وجہ سے یہ وائرس کافی مہینوں تک پتہ چلائے بغیر پھیلتا چلا گیا۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ وائرس ان کی لسٹ کے دوسرے ممالک میں بھارت سے آکر پہلے پھیلا جس کے بعد پھر ممکنہ طور پر کورونا وائرس یورپ کے ذریعے چائنا میں جا پہنچا۔یو این ایجنسی نے بھی اس پر تبصرہ کیا ۔یواین اے نے ایک طرح سے خطرے کی گھنٹی بھی بجائی جس کے مطابق کسی بھی نئے Pathogenکو ٹریک کرناایک ایسی پہیلی ہے جس کو بوجھنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
آپ کہیں گے اعلیٰ ظرف ڈاکوؤں والی بات کہاں گئی؟یہ ڈکیتی اندرون سندھ رات گئے ایدھی صاحب اور ان کی بیگم بلقیس ایدھی صاحبہ کو پیش آئی تھی۔لوٹنے کے دوران ایک ڈاکو کی نظر ایدھی صاحب پر پڑگئی‘ وہ ایک جیپ کی طرف دوڑا اور ٹارچ لے کر روشنی عبدالستار ایدھی صاحب کے چہرے پر ڈالی۔کہا :آپ ایدھی صاحب ہیں؟جواب ہاں میں ملا تو ڈاکوؤں کا سردار پریشان ہوگیا۔فوری حکم دیا کہ ساری گاڑیوں کو لوٹ مار کا مال واپس دو ۔پھر ڈاکو نے ایدھی صاحب کے ہاتھ چوم کر معافی مانگی‘ جیپ سے 20لاکھ روپے کا چندہ ایدھی صاحب کے حوالے کیا۔انکار پر بولا :سر جب میرے جیسے گناہ گار پولیس مقابلے میں مارے جاتے ہیں‘ہمارا کوئی رشتہ دار ہماری لاش تک وصول نہیں کرتااور ایدھی ہی ہماری لاش کو کفناتا دفناتا ہے۔ایک وہ ہیں جو آل‘مال اور کھال بچانے کے لیے در بدر اور بے حال ہورہے ہیں۔ (ختم )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں