"ABA" (space) message & send to 7575

رائے وِنڈی یا نواب شاہی

محکمہ موسمیات نے بدھ کے علاوہ اس ہفتے کے باقی دنوں کیلئے اسلام آباد اور اس کے ارد گرد سخت گرمی کی لہر جاری رہنے کی پیش گوئی کر رکھی تھی لیکن موسم مستی کی لہر میں ہے۔ جمعرات‘ رات کے پچھلے پہر تیز ہوائوں کے ساتھ موٹے موٹے برفانی ژالے اور پرِی مون سون ٹوٹ کے برس گیا جس کے نتیجے میں بڑے بڑے پُرانے درخت طوفانِ باد و باراں کی زد میں آ کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔ آپ اس موسم کو شاعرانہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ چونکہ شاعری ایک انسانی صفت ہے اسی لئے شاعر نے موسم اور شاعری دونوں کو ملا جلا کر رکھ دیا۔ شاعرانہ خیال کہتا ہے:
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
اس موسمیاتی تبدیلی سے دو تین دن پہلے پرِی بجٹ ارینج شدہ تقریروں اور پریس کانفرنسز کا دور شروع ہوا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ بجٹ ابھی زیرِ ترتیب ہے‘ پھر تشکیل ہو گا اور پارلیمنٹ میں پیش بھی لیکن مالی سال 2021-22ء کے متوقع بجٹ کی آمد آمد نے نواب شاہ اور رائے ونڈ کے لیڈروں کے لئے ریڈ الرٹ جاری کر دیا جس کا ثبوت یہ سامنے آیا ہے کہ بجٹ کی اکا دُکا ''رپورٹرز لیک‘‘ کے ذریعے سامنے آنے والی خبروں نے نواب شاہ اور رائے ونڈ کو یک زبان بنا دیا تھا؛ چنانچہ رائے ونڈی خادم اعلیٰ نے نیا بجٹ آنے سے پہلے ہی اس کی تفصیل دیکھے بغیر فرمایا کہ وہ نئے سال کے عوام دشمن میزانیے کا راستہ روکیں گے۔
عین اسی وقت‘ عین انہی لفظوں میں نواب شاہی چیئرمین پی پی نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ میں آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے۔ یہ دونوں بیان سن کر دنیا کے بڑے بڑے معیشت دان اور طوطا فال نکالنے والے‘ دونوں ٹھنڈی آہیں بھرتے رہ گئے۔ وہ ایکسپرٹ جو بڑے معیشت دان بنے پھرتے تھے وہ سراغ نہ لگا سکے کہ پاکستان کے اس بجٹ میں کیا خرابی ہے جو ابھی تک پیش ہی نہیں ہوا‘ جبکہ طوطا فال نکالنے والے طوطے کا گلا گھونٹنے سے بال بال بچے کیونکہ اصلی والا طوطا‘ طوطا چشم اور چرب زبان سیاست کاروں سے ہار گیا۔ صرف طوطا ہی نہیں ہارا بلکہ اس طرح کی پیش گوئیوں کی وجہ سے نجومیوں کے کاروبار کا سٹاک ایکسچینج بھی کریش کر گیا۔
بدلتے موسم اگر آنا چاہیں تو ان کی کافر ادا ''انگڑائی‘‘ سے کون بچ سکتا ہے۔ ابھی یک زبان رائے ونڈی اور نواب شاہی بیانوں کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ مزاجِ شاہی میں تبدیلی آ گئی جس کا اظہار نامہ از جناب نواب شاہی بنام رائے ونڈی لیڈر سیاسی اطلاعات کے موسم پر اس طرح کے بادلوں سے بھر گیا۔
نمبر1: پہلا نواب شاہی فرمان یہ آیا کہ پی پی اقتدار میں آئی تو عوام کو روٹی‘ کپڑا‘ مکان اور روزگار ملے گا۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔
13 سال سے مسلسل صوبہ سندھ میں اقتدار۔ 1971ء تا 1977ء پہلی حکومت‘ 1988ء تا 1990ء دوسری حکومت‘ 1993ء تا 1997ء تیسری حکومت‘ 2008ء تا 2013ء چوتھی حکومت‘ 2013ء تا 2018ء پانچویں حکومت اور 2018ء تا 2021ء چھٹی حکومت۔ تو پھر عمران خان کی دو سال 10 ماہ کی حکومت کے مقابلے میں وہ اور کون سی حکومت آنے کی کسر باقی رہ گئی ہے جس میں آپ کو اور آپ کے نواب شاہی رشتہ داروں کے علاوہ پاکستان یا اندرون سندھ کے غریبوں کو روٹی‘ کپڑا‘ مکان اور روزگار ملے گا؟
نمبر2: عمران خان کیا دوبارہ عوام کو احتساب کے نام پر بے وقوف بنائیں گے کہ رائے ونڈ کے وزیر اعظم کو سزا کے باوجود بیرون ملک بھیجا جاتا ہے اور وہ لندن میں بیٹھے ہیں‘ لیکن اگر نواب شاہ کا صدر ہو تو تین سال طبی ضمانت پر رہتا ہے اور بیرون ملک نہیں جاتا۔
نمبر3: یہ پاکستان‘ آئین اور قانون کے ساتھ مذاق ہے کہ یہاں دوغلا نظام چلتا ہے۔ قائدِ حزبِ اختلاف پنجاب سے ہو تو ضمانت ہو جاتی ہے اور اگر قائدِ اختلاف سکھر کا ہو تو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں طلبی ہوتی رہتی ہے۔
آئیے ذرا بدلتے سیاسی موسم کے دوسرے فرمان پر ایک نظر ڈال لیں کیونکہ پہلا تو ایسا فرمان ہے جس پر نظر ڈالنے سے بے چارے کو نظر لگنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ ویسے بھی خوشاب کے الیکشن میں اگلی حکومت لانے کے لئے نواب شاہی امیدوار کو اس قدر ووٹ پڑے کہ 238 روٹی‘ کپڑا‘ مکان اور روزگار والے ان کی لگاتار گنتی میں مصروف ہیں لیکن ابھی تک گنتی کاری کرنے والوں کو سمجھ نہیں آئی کہ اتنے ووٹ آئے کہاں سے۔ اسی لئے رائے ونڈی سکول آف تھاٹ کے پیروکاروں نے نواب شاہی فرمان کو بلا مقابلہ جانے دیا‘ مگر ساتھ ہی دل جلانے والے یہ بیان بھی جاری کر دیے کہ ہم کسی نواب شاہی فرمان کا جواب دینا پسند نہیں کریں گے کیونکہ اب ہمارا مقابلہ صرف اور صرف پی ٹی آئی سے ہے‘ عمران خان سے ہے اور حکومت سے ہے۔ جس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ پنجاب کی سیاست کرنے والی پارٹی جان گئی ہے کہ پنجاب میں ان کی ٹکر تحریک انصاف سے ہے جبکہ نواب شاہی پارٹی کے چند ہرکارے ٹی وی پر تو پائے جاتے ہیں لیکن یہ ٹمٹماتے ہوئے تارے زمین پر نہیں‘ بالکل نہیں۔
اگر آپ تیسرے فرمان کی تاریخ دیکھیں تو وہ بھی بڑی دلچسپ ہے۔ کچھ یوں کہ جب رائے ونڈی وزیر اعظم زیر حراست تھے تو نواب شاہی چیئرمین صاحب جیل میں تا حیات نا اہل‘ انقلابی وزیر اعظم سے انقلاب کی اشیرباد لینے اور اپنی فرمانبرداری کا یقین دلانے کے لئے درِ زنداں پہ حاضر ہوئے۔ جیل کے اندر کا احوال تو کسی کو پتا نہ چل سکا‘ لیکن جیل کے دروازے سے باہر آ کر یہ نواب شاہی فرمان ضرور جاری ہوا کہ ''نواز شریف شدید بیمار ہیں ان کا پاکستان میں علاج بالکل نہیں ہو سکتا‘ ان کے پلیٹ لیٹس بہت خطرناک ہو چکے ہیں‘ نواز شریف کو کچھ ہوا تو اس کا ذمہ دار عمران خان اور اس کی حکومت والے ہوں گے‘ حکومت سے کہتا ہوں انسانی اخلاق کا مظاہرہ کرے اور ایک بیمار قیدی کو فوری طور پر لندن بھیجنے کے مطالبے پر عمل در آمد کرے‘‘۔
یہ سوال تو ہر کسی کے ذہن میں آتا ہے۔ ایسا کیا ہو گیا! پی ڈی ایم والے عمران خان کو گھر بھیجتے‘ استعفیٰ دیتے دیتے خود گھر جا کر بیٹھ گئے۔ اس سوال کے دو ممکنہ جوابوں میں سے پہلا یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے پاس پبلک کے لئے کوئی ایجنڈا تھا ہی نہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ پی ڈی ایم کے آزمائے ہوئے عشروں پرانے چہروں کی طرف متوجہ ہی نہ ہو سکے۔ دوسرے‘ بنیادی طور پر پی ڈی ایم کی پارلیمان میں بیٹھی جماعتوں کا خفیہ ایجنڈا ایک ہی نکلا! پہلے مجھے کرسی پر بٹھا دو تاکہ میں پہلے اپنے خلاف مقدمے ختم کر سکوں۔ بقول شاعر: ؎
جتنے ہیں سبھی بے مایہ ہیں
یہ زر کا ڈھلتا سایہ ہیں
بازارِ دغا میں گھومتے ہیں
سرکار کی چوکھٹ چومتے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں