"ABA" (space) message & send to 7575

قومی سلامتی بریفنگ

اس ہفتے پاکستان میں قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں نے قومی اسمبلی کے فلور پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں موجود چھوٹی بڑی دو درجن سیاسی جماعتوں کو اِن کیمرہ بریفنگ دی۔ اس بریفنگ سے پہلے کا ملکی منظر نامہ بھی دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔
پہلا منظر : (ن) لیگ قومی اداروں کا نام لے لے کر کبھی مے فیئر سے اور کبھی جلسوں اور پریس ٹاک سے للکارے مار مار کر ہلکان ہو رہی تھی۔
دوسرا منظر: پی پی پی کے نوجوان سربراہ سلیکٹڈ اور سلیکٹر کی قوالی نما تکرار میں گردن گردن تک پھنسے ہوئے تھے۔
تیسرا منظر: مغربی بارڈر کے پار سے آنے والی خبروں کو کچھ لوگ سیاسی ''چانس‘‘ سمجھ کر امریکہ میں اپنے لابیسٹ گروپس کو متحرک کرنے میں مصروف ہوگئے۔پیڈ ڈنر‘لنچ اور ناشتے کی بکنگ کروانے کے بعد اب سیاست کے جاب سیکر‘جلد تیسرے‘ چوتھے درجے کے امریکی لیڈروں اور پارلیمنٹیرینز سے ملاقاتیں کرتے نظر آئیں گے۔اسی پلاننگ کے تسلسل میں پنجاب میں پی پی پی کے شریک چیئر مین صاحب کا دورہ رکھا گیا۔دعویٰ یہ تھا کہ بڑی تعداد میں لوگ پی پی میں شامل ہورہے ہیں‘ جس کے بعد سیاسی طور پر صوبے میں' چینج آف گارڈز‘ کا مرحلہ لایاجائے گا۔یہ تو سب جانتے تھے کہ اس طرح کے دعوے زمینی حقائق کے 100فیصد خلاف ہیں‘ لیکن یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہے کہ ان دعووں کا مقصد امریکہ کیلئے یہ پیغام گھڑنا تھا کہ آپ ہاتھ رکھیں تو سیاسی منظر نامہ بدل کر آپ کی جھولی میں جا گرے گا۔
چوتھا منظر: کچھ آوازیں ایسی بھی تھیں جو کھاتے پاکستان کا ہیں مگر گُن پرشین گلف‘عریبین گلف اور واہگہ بارڈر کے اُس پار والوں کے گاتے چلے جاتے ہیں۔
اس ماحول میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر صاحب نے سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلالیاجس میں رپورٹ کے مطابق افغانستان کی تازہ ترین صورتحال پر حقائق پارلیمنٹ کو بتائے گئے۔اسلام آباد کے باخبر حلقے کہتے ہیں کہ پاکستان میں آدھی صدی سے مقیم افغان مہاجرین اور پڑوسی ملک ایران میں افغان مہاجرین کی مؤثر ہینڈلنگ کا معاملہ بھی زیر ِبحث آیا۔دوسری جانب پوسٹ امریکن پُل آئوٹ پر افغان سٹریٹیجی کے اہم اقدامات پر بھی پارلیمانی لیڈرز کو اعتماد میں لیا گیا‘ جس کے ساتھ ساتھ اُن سوالات کے جواب‘ جو پاکستان سے باہر سے اٹھائے جاتے ہیں‘کے پسِ پردہ محرکات‘افغان امن میں شراکت داری کی تفصیلات بھی شرکاکے سامنے رکھ دی گئیں۔ بھارت کے غیر قانونی قبضے میں وادیٔ جموں و کشمیر کی تازہ ترین صورتِ حال‘ بیک چینل ڈپلومیسی جیسے اہم سوال اور کشمیریوں کے ساتھ لازوال پاکستانی ریاست کی کمٹمنٹ کے تازہ ترین مرحلے بھی شیئر کئے گئے۔
قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی اجلاس بلانے کی بظاہر تین وجوہات تھیں‘ جن کے بارے میں شہر اقتدار کے باخبر لوگ سرگوشیاں کر رہے ہیں۔ پہلی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ لمبے عرصے سے جو لوگ سپانسرڈ بیانیہ آگے بڑھا تے رہتے ہیںاُ نہیں موقع دیا جائے کہ وہ صادق اور امین ہیں تو پھر کھل کر سوال کریں۔سوال کا جواب سننے کی ہمت اور حوصلہ پیدا کرکے۔دوسری وجہ یہ کہ قومی بیانیہ کیلئے قومی پارلیمان میں وہ حقائق سب کے سامنے کھول دیئے جائیں جو دفاع وطن کے حوالے سے بہت حساس ہیں۔یہی وجہ تھی کہ قومی سلامتی بریفنگ کو اِن کیمرہ رکھا گیا۔ تیسری وجہ چند لوگوں کی غلط فہمیاں تھیں جن کیلئے یہ بریفنگ صحیح معنوں میں شَٹ اَپ کال کہی جا رہی ہے۔
کچھ دلچسپ حقائق مختلف طرف سے بریفنگ اِن کیمرہ ہونے کے باوجود بھی باہر نکل آئے ہیں۔ چونکہ یہ سب کی دلچسپی کا باعث ہیں اس لئے انہیں دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
نمبر 1:ایک صاحب جو پرائم منسٹر عمران خان کو سلیکٹڈ کہہ کر اُن سے دور رہنے کی مسلسل ایکٹنگ کرتے آئے ہیں اُنہیں قومی سلامتی بریفنگ میں اچانک عمران خان کی یاد ستانے لگی۔بولے آج پی ایم کے اس میٹنگ میں نہ آنے پر مجھے اعتراض ہے۔اگر وزیر اعظم صاحب اس میٹنگ میں موجود ہوتے تو یہ زیادہ meaningfulبریفنگ ہوسکتی تھی۔یہ موصوف وہی تھے جو دو دن پہلے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہہ رہے تھے کہ میں ادھر ہی ہوں‘ وزیراعظم اسمبلی میں آئیں اور تقریر کرکے دکھادیں۔اس پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے وضاحت پیش کی کہ پی ایم عمران خان آنے کیلئے تیار تھے اپوزیشن لیڈر کے سیکرٹری نے اُن کا پیغام سیکرٹری قومی اسمبلی کے ذریعے مجھے پہنچایا کہ اگر پرائم منسٹر قومی سلامتی بریفنگ میں شرکت کرنے آئے تو اپوزیشن بریفنگ سے واک آئوٹ کر جائے گی۔سپیکر نے کہا کہ وزیر اعظم نہیں چاہتے کہ قومی سلامتی کے اہم ترین موضوع پر منعقدہ بریفنگ میں قوم کو تقسیم نظر آئے اس لئے وہ بریفنگ میں شریک نہیں ہوئے۔اپوزیشن کے واک آئوٹ کی اس دھمکی کی وجہ سے وزیر اعظم صاحب کو یہ بریفنگ اُسی روز پہلے دے دی گئی تھی۔
نمبر 2:پنجاب کے سابق 'خادمِ اعلیٰ‘ کے بارے میں چشم دید گواہ کہتے ہیں کہ اُن کا از خود ''جاب انٹرویو‘‘ جلال و کمال کا حسین اتفاق ثابت ہوا۔پانی کی بوتل ہاتھ میں پکڑ کر مودبانہ انداز میں کھڑے رہنے کی بات تو آپ پہلے ہی پڑھ چکے ہیں۔اُس پہ دو آتشہ لطف یہ تھا کہ انہیں بار بار یہ جملہ یاد آتا رہا کہ ''جب میں پنجاب کی خدمت کررہا تھا‘‘۔ وہ از خود انٹرویو کے دوران یہاں تک کہتے سنے گئے کہ ساری اتھارٹی تو جناب آپ کے پاس ہے۔اس پہ جوابی غزل بھی زبردست سے بھی اگلی تھی ...مگر اِن کیمرہ۔قومی سلامتی کی یہ بریفنگ‘ جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمیددونوں نے شرکا سے براہِ راست خود بات کی‘سوال بھی سُنے اور جواب بھی دیے۔ درمیان میں نہ کوئی سٹیج سیکرٹری تھا نہ ہی ماڈریٹر۔
ایک طرف یہ بریفنگ جاری تھی‘دوسری طرف امریکہ کے اہم ترین اخبار نیوز ویک اور وال سٹریٹ جرنل یہ خبر چلا رہے تھے کہ چائنا اور انڈیا کے درمیان لداخ بارڈر پر ہزاروں کی تعداد میں فوجی buildupدیکھا جا رہا ہے۔ان اخبارات نے کہا کہ پچھلے سال جون کے مہینے میں دونوں ایٹمی پڑوسیوں کے درمیان سرحدی جھڑپیں ہوئی تھیں‘جس کے بعد سے موجود ٹینشن اس وقت اپنے عروج پہ پہنچ چکی ہے۔ان اخباروں میں چھپنے والی تفصیلات میں بھارتی فوجی ذرائع کا یہ دعویٰ شامل ہے کہ لداخ میں بھارت نے ''tens of thousands‘‘ کی تعداد میں فوج بھجوائی جبکہ ایسٹرن لداخ سیکٹر پر چائنا نے پیپلز لبریشن آرمی کے 15 ہزار جوانوں کی تعداد بڑھا کر 50ہزار کر دی ہے۔اسی سیکٹر میں پچھلے سال جون میں چین نے درہ گلوان کے علاقوں میں اہم پیش قدمی کی تھی جس کے بعد وہ سٹریٹیجک ایریا جہاں سے بھارت گلگت بلتستان میں CPEC روٹ کو کاٹنے اور سکردو پر قبضہ جمانے کیلئے حملے کے خواب دیکھتا تھا‘اُس کے پائوں کے نیچے سے سرک گیا۔قومی سلامتی بریفنگ بہت بامعنی اور بروقت تھی جس کا مرکزی نکتہ یوں ہے کہ؎
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ (اقبال)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں