حقیقتیں تلخ نہیں ہوتیں لیکن جب یہ سامنے موجود ہوں اور ان سے چشم پوشی کی جائے تو پھر یہ تلخ بن جاتی ہیں۔ اس وقت ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کتنے ہیں‘ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ ہمارا درآمدات کا بل پینتالیس ارب ڈالر تک جاپہنچا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر محض چند ہفتوں کی درآمدات کی ضمانت ہوسکتے ہیں۔ روزانہ ٹیلی ویژن پر براہ راست لیڈروں کی درجنوں تقریریں آپ تک پہنچ رہی ہیں۔ سوچیں‘ کسی ایک نے بھی یہ بتایا ہے کہ اس اقتصادی صورت حال کا کس طرح مقابلہ کیا جائے گا۔ رائے دہندگان کو کچھ اور ہی باتوں میں الجھایا جارہا ہے۔ کوئی کہتا ہے میں شیر ہوں‘ دوسرا کہتا میں شیر کا شکاری ہوں۔ ایک طرف سے آواز آتی ہے کرکٹ ہم نے بھی کھیلی ہے مگر ساتھ ہی بم بھی بنایا ہے۔ دوسری طرف سے آواز آتی ہے جولوگ پانچ مرتبہ کچھ نہیں کرسکے وہ چھٹی مرتبہ کیا کرلیں گے‘ الزامات عائد ہورہے ہیں۔ منہ درمنہ منافق کہا جارہا ہے جس کے جواب میں قادیانی لابی کا طعنہ دیا جارہا ہے۔ ایک دو بڑی جماعتوں کا بڑے بڑے اشتہارات پر زور ہے جن کی مددسے وہ اپنے مخالفین کا ماضی کرید کر ان کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ خود ان جماعتوں کو ان اشتہارات سے فائدہ پہنچنے کا کوئی امکان تک پیدا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس صورتحال میں انتخابات جب ہوں گے تو جو بھی جیت جائے۔ حکومت بھلے ایک جماعت کی بنے یا پھر ایک سے زیادہ جماعتیں مل کر بنائیں‘ اس وقت ہمارے ملک کی معاشی صورت حال ایک تلخ حقیقت بن کر سامنے آئے گی۔ کس کے سامنے۔ برسراقتدار لوگوں کے سامنے نہیں بلکہ یہ رائے دہندگان کے سامنے آئے گی۔ برسراقتدار لوگ تو اسی طرح پروٹوکول کے ساتھ گھومیں پھریں گے اور تقریروں میں عوام کے دکھ درد کا ذکر کریں گے۔ اگر نئی جماعت یا جماعتوں کی حکومت ہوئی تو وہ روزانہ سابق حکومت پر دشنام طرازی کیا کرے گی اور اگر وہی جماعت یا جماعتیں آگئیں تو وہ کیا کہیں گی؟ آپ خوداندازہ کرلیں۔ رائے دہندگان جو انتخابات کے بعد عوام کہلائیں گے وہ اس تلخ حقیقت کا اس طرح سامنا کریں گے کہ بجلی اور گیس ان کو اور بھی مہنگی خریدنا ہوگی۔ پٹرول ، ڈیزل اور مٹی کا تیل بھی مہنگا ہوجائے گا۔ گزشتہ پانچ برسوں میں عام کھانے پینے کی اشیاء کی قیمت جو تین گنا ہوچکی ہے اس میں اور بھی اضافے کا عوام کو سامنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ سب سے بدمزہ بات یہ ہوگی کہ روزانہ ہی عوام کو لیڈروں کا جھوٹ بھی سننا پڑے گا۔ یہ نتیجہ ہوگا حقیقتوں سے چشم پوشی کرنے کا۔ قیام پاکستان کے وقت ہمارے ہاں حکومت کی جو نازک اور دگرگوں حالت تھی اس کا تذکرہ اکثر ہوتا رہتا ہے ۔ جس جذبے اور ایثار کے ساتھ ہماری حکومت کے ارباب حل وعقد اور اہل کاروں نے کاروبار حکومت چلایا وہ بے مثال تھا۔ یعنی کاغذ کونتھی کرنے والی پِن تک دستیاب نہیں تھیں اور بعض ملازمین اندرون سندھ جاکر کانٹے دار پودوں سے کانٹے چن لیا کرتے تھے جن سے کاغذوں اور فائلوں کو نتھی کرنے کا کام لیا جاتا تھا۔ جو صاحب استطاعت لوگ تھے انہوں نے اپنا سرمایہ حکومت کے تصرف میں دے دیا تھا اور بیرونی ملکوں میں کئی سفیر اپنی ذاتی جیب سے وہاں کے تمام اخراجات پورا کرتے تھے۔ اس دور میں یہ جذبہ اور یہ ایثار جو دیکھنے میں آیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دور کی قیادت نے عوام کو پہلے ہی بتادیا تھا کہ جب پاکستان وجود میں آئے گا تو اس کو قائم رکھنا اور چلانا ایک چیلنج ہوگا۔ لوگوں کو حقیقت بتادی گئی تھی جس وجہ سے لوگ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ لہٰذا وہ حقیقت تلخ ہونے کے باوجود ہمارے لیے تلخ نہ بن سکی کیونکہ نہ کچھ چھپایا گیا، نہ سبز باغ دکھائے گئے۔ اب آج کل جو کچھ ہورہا ہے اس کو دیکھیں۔ ہرجماعت اپنے ووٹروں کو امیددلارہی ہے کہ وہ ملک کو درپیش مسائل کو تھوڑی سی مدت میں حل کر دے گی۔ حقیقت کوئی جماعت بھی نہیں بتارہی۔ لوڈشیڈنگ ایسا مسئلہ ہے جو سمجھیں الیکشن ایشو بنا ہوا ہے۔ اگر ہمارے لیڈر یہ طے کرتے کہ انہوں نے رائے دہندگان کو حقیقت بتا کر پھر ان کو حقیقت پسندانہ امید دلانی ہے تو وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سب سے پہلا کام یہ کیا جائے گا کہ لوڈشیڈنگ کا فوری طورپر ایک پکا شیڈول جاری کیا جائے گا جس میں ایک منٹ کی بھی تبدیلی نہیں ہوگی تاکہ لوگ بجلی کی کمی کے باوجود اپنی زندگی کی کوئی منصوبہ بندی تو کرسکیں۔ تاکہ ان کو معلوم ہو کہ اگر ایک بجے تک بجلی آتی ہے توپھر آنی ہے۔ یہ جو آج کل اندھی مچی ہوئی ہے کہ جب جی چاہا گھنٹوں کے حساب سے بجلی بند کردی یہ تو لوڈشیڈنگ سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات ہے۔ اس سکھاشاہی کو کوئی بھی حکومت اگر چاہے تو ختم کرسکتی ہے۔ دوسری حقیقت پسندانہ بات لوڈشیڈنگ کے نزاعی مسئلے کے بارے میں ہمارے لیڈر عوام سے یہ کہہ سکتے تھے کہ پورے ملک میں یکساں لوڈشیڈنگ ہوگی اور بھلے ایوان صدر ہو، وزیراعظم ہائوس ہو‘ گورنر ہائوس ہو‘ وزیراعلیٰ کا دفتر ہو‘ ریڈیو ٹی وی سٹیشن ہو‘ کوئی بھی لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ نہیں ہوگا۔ اس طریقے سے فوری طورپر پورے ملک میں ہرمقام پر لوڈشیڈنگ کے شیڈول میں دوگھنٹے تک کی کمی متوقع ہے۔ اس کے بعد ہمارے لیڈر عوام کو یہ امید بھی دلاسکتے تھے کہ بجلی چوری ختم کرانے کے سخت اقدامات کرکے لوڈشیڈنگ میں مزید دوگھنٹے تک کی کمی کرکے اس کو چھ سے آٹھ گھنٹے روزانہ تک لایا جائے گا اور عوام سے توقع رکھی جائے گی کہ لوڈشیڈنگ کے پکے شیڈول کے اجرا کے ساتھ اتنی لوڈشیڈنگ برداشت کرنے کی عادت ڈالیں گے جب تک کہ حکومت اس قابل نہیں ہوجاتی کہ بجلی کے سرکلر ڈیٹ یعنی گردشی قرضوں کا مسئلہ حل نہیں کرلیتی جس کے بعد کوئی طویل المیعاد پالیسی کا ذکر ہوسکتا تھا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو نئی آنیوالی حکومت اگر چاہے تو کرسکتی ہے ۔ انہی کا وعدہ اگر یہ جماعتیں اپنے ووٹروں سے کرتیں تو پھر رائے دہندگان ان تلخ حقیقتوں سے بچ سکتے تھے جن کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن ہوکیا رہا ہے۔ ہمارے رائے دہندگان کو بتایا جارہا ہے کہ ہمارے تھرکول میں اتنا کوئلہ ہے کہ اس سے لاکھوں میگاواٹ بجلی حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ ہمارے گردشی قرضوں کی وجہ سے کوئلے سے بجلی بنانیوالی کمپنیاں پاکستان میں اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے سے مکمل طورپر اجتناب کررہی ہیں اور ہمارے پاس خود یہ صلاحیت ابھی نہیں ہے۔ ووٹرز کو یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ پانی سے بجلی پیدا کرنے کے ہمارے پاس بیش بہا وسائل ہیں۔ مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے کتنے عشرے درکار ہوں گے اور اس بات سے بھی عوام کو غافل رکھا جاتا ہے کہ جو ملک تیل برآمد کرتے ہیں وہ اپنے گاہک ملکوں میں کسی ایسے منصوبے کی حوصلہ افزائی نہیں ہونے دیتے جس سے تیل کی کھپت میں کمی ہوتی ہو۔ انتخابات کے دوران ہمارے عوام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں سے جو باتیں سن رہے ہیں وہ حقیقت سے کتنی دور ہیں‘ ان کو انتخابات کے فوراً بعد اس کا پتہ چل جائے گا اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ان لیڈروں نے سبز باغ دکھا دکھا کر ان کا کتنی تلخ حقیقتوں سے سامنا کرا دیا ہے۔ اگر ہمارے لیڈر عوام کے لیے اپنے دل میں درد رکھتے ہوتے تو وہ رائے دہندگان سے قابل عمل وعدے کرتے اور ان کو ملک کی حقیقی صورت حال کے اتنا قریب رکھتے کہ انتخابات کے بعد وہ حقیقت کا تو سامان کرتے مگر تلخ حقیقت کا نہیں۔