"ARC" (space) message & send to 7575

حکومت سانحہ پشاور کے متاثرین کو عمرے پر بھیجے

مسلمان کتنا بھی پریشان ہو اور کسی بھی مصیبت 
سے گزرا ہو، اگر اس کو خانہ کعبہ اور روضہ رسول ؐ 
کی حاضری نصیب ہو جائے تو اس کے دل کو 
کافی سکون اور طمانیت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ 
نیک اور اہم کام ہماری حکومت کو کرنا چاہیے
 
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر اب تک حضرت علیؓ کے اس فرمان کی حقیقت کھل کر واضح ہو چکی ہو گی کہ ''میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا‘‘ انسان آخر انسان ہے۔ جتنے مرضی پختہ اور مصمم ارادے کر لے اگر پروردگار کا حکم کچھ اور ہو تو ارادے ٹوٹ کر ہی رہتے ہیں۔ہمارے اکابرین کہہ گئے ہیں کہ کوئی بھی پیش رفت ہو اس میں رب کریم کی رحمت تلاش کرنی چاہیے۔
عمران خان کے معاملے میں تو رحمت کے کئی پہلو بالکل واضح ہیں۔ پہلا تو وہی ہے جس کا ہر کوئی ذکر کر رہا ہے کہ موصوف کو حکمرانوں پر اخلاقی برتری حاصل ہو چکی ہے اور اب اگر مسلم لیگ ن کی قیادت نے کوئی کھیل کھیلنے کی کوشش کی تو وہ قو م کی نظروں میں ایسے گرے گی کہ پھر ممکن ہے اگلے انتخابات تو کیا اس کے بعد بھی نہ اٹھ سکے۔ دوسرا پہلو جو اس سلسلے میں عیاں ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان نے درست باتوں کے لیے بھی جو اوچھا لہجہ اپنا لیا تھا اور جس کی وجہ سے ان کی شخصیت پر میل آ گیا تھا وہ دھرنا ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی دھل گیا ہے۔اب اگر موصوف دھرنے کے دوران اختیار کئے گئے طرز کلام کو بھول ہی جائیں تو بہتر ہے۔اگر وہ ایسا کر سکے تو امکان غالب ہے کہ لوگ بھی بھول ہی جائیں گے۔تیسرا پہلو اس ضمن میں مجھے دکھائی دیتا ہے کہ وہ یہ ہے کہ عمران خان کی تحریک بظاہر بند گلی میں جا چکی تھی۔اس بند گلی سے نکلنے کی صورت مجھے کسی تبصرے میں بھی سنائی نہ دی لہٰذا اس لحاظ سے بھی یہ پیش رفت پاکستانی تحریک انصاف کے لیے مقام شکر میں ہو گی کہ اس بند گلی سے نکلنے کا موقع فراہم ہو گیا۔چوتھا پہلو جو اس سلسلے میں واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اسمبلیوں سے تحریک انصاف کے اکثر منتخب نمائندے مستعفی ہونے کے حق میں نہیں تھے اور شاہ محمود قریشی کی قیادت میں جو پالیسی اپنائی گئی وہ بھی سب کے سامنے ہے۔مسلم لیگ ن تو بوجوہ استعفے قبول نہیں کرنا چاہتی مگر جیسا کہ اب سب ہی جانتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے ممبران کی اکثریت بھی اب استعفوں کے حق میں نہیں تھی۔لہٰذا اب امکان غالب ہے کہ یہ سب لوگ اسمبلیوں میں واپس آ جائیں گے ۔اب آئیے دوسری طرف اس صورتحال کو اگر مسلم لیگ ن یہ سمجھے کہ وہی صورتحال بحال ہو گئی ہے جو تیرہ اگست سے پہلے تھی تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہو گی۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کے اس دعوے پر کہ ان کے احتجاج نے پاکستان کو جگا دیا ہے میرا کوئی تبصرہ نہیں ہے لیکن جو بات ہر ایک کو دکھائی دے رہی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت غفلت کی ایک ایسی نیند سے جاگ گئی ہے جو پورے ملک کو تباہی کی طرف لے کر جا رہی تھی۔لہٰذا حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ حکومت نئی صورتحال کو ہرگز ہرگز یہ باور نہ کرے کہ حالات وہی ہو گئے ہیں جو پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک سے پہلے تھے۔ 
اب تو ویسے بھی عمومی حالات بدل گئے ہیں اور پشاور میں آرمی سکول میں بچوں کو بیدردی سے قتل کرنے اور پھر سینہ پھلا کر اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد دہشت گرد‘اب ساری قوم کے لیے ہی ناقابل برداشت ہو گئے ہیں۔قومی سطح پر یہ جو اتفاق رائے پیدا ہوا ہے اور بیرون ملک اس واقعے کی وجہ سے ہمارے ملک کے لیے جو ہمدردی کی لہر پیدا ہوئی ہے اس سے فائدہ اٹھانا بھی اب مسلم لیگ ن کی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ یہ بہت بڑا موقع ہے اور اسے ضائع نہیں ہونا چاہیے۔مذکورہ بالا صورتحال میں تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھیں تو پاکستان واقعی بدل چکا ہے۔لیکن... اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ ہمارے ہاں کچھ لوگوں کا مائنڈ سیٹ نہیں بدلا۔ یہ لوگ انتہائی
اقلیت میں ہیں مگر ان کی باتیں دل میں چبھ جاتی ہیں اور ان کی عقل پر حیرت ہوتی ہے۔میں کل اپنے فیملی ڈاکٹر کے پاس گیا تو وہ اس بات پر افسردہ تھے کہ انہوں نے مارکیٹ میں دو لوگوں یہ کہتے ہوئے سنا کہ جن دہشت گردوں نے بچوں کو قتل کیا ان کے بھی تو بچے مارے گئے تھے۔ انسان میں ذرا سی بھی عقل ہو تو اس طرح کی جہالت کی بات اس کے ذہن میں بھی نہیں آ سکتی۔
آپ تصور کریں کہ ایک شخص موٹر سائیکل پر بیٹھا ہے اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف ہے اور ساتھ ہی اس نے موٹر سائیکل کے پیچھے اپنی بیوی بچوں کو بٹھایا ہوا ہے اور اس حالت میں وہ اپنی کلاشنکوف سے کھلے عام لوگوں کو قتل کرتا پھر رہا ہے۔اس حالت میں اپنا فرض نبھاتے ہوئے فوج اس شخص پر جوابی حملہ کرتی ہے جس کے نتیجے میں اس کے بیوی بچے ہلاک ہو جاتے ہیں اور وہ خود بچ جاتا ہے اور بھاگ کر جا کے پہلے چھپ جاتا ہے اور پھر انتقام لینے کی خاطر ایسی کارروائی کر دیتا ہے جیسی پشاور میں ہوئی۔ کیا کوئی ذی شعور آدمی ایسے شخص نے جو کچھ کیا اس کو Justifyکر سکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے اب بھی ہمارے ہاں کچھ کم عقل لوگ ہیں جو کم علمی اور جہالت کی وجہ سے ایسے سوچتے ہیں۔
ہماری فوج جہاں کہیں کارروائی کرتی ہے پہلے اس علاقے کی تمام آبادی تک یہ پیغام پہنچاتی ہے کہ وہ علاقے خالی کر دیں کیونکہ دہشت پسندوں کا صفایا کرنا ہے۔جس طرح خیبر پختونخوا میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شمالی وزیرستان میں آپریشن سے پہلے نکل کر آ گئے تھے۔اس کے بعد کوئی انتہا پسند‘عسکریت پسند‘ دہشت گرد یا جنگجو اگر اپنی فیملی کو وہاں رکھ کر بیٹھا ہوا ہے تو وہ خود اپنے بیوی بچوں کو پہنچنے والے نقصان کا ذمہ دار ہے۔اب فوج کے پاس کوئی غیب کا علم تو نہیں ہے۔یہ بات اب وقت آ گیا ہے کہ ہر ایک کو سمجھ لینی چاہیے۔
یہ بات ہمارے ہاں اگر کچھ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی تو پھر جو حالات آگے آتے دکھائی دے رہے ہیں ان کو خود ہی سمجھ میں آجائے گی۔ آج میں ٹی وی پر دیکھ رہا تھا کہ سانحہ پشاور کے بعد جو بچے اس کے عینی شاہد ہیں وہ کچھ نفسیاتی دبائو محسوس کر رہے ہیں۔ہم مسلمان ہیں ہمارے پاس اس کا بہترین علاج موجود ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ شہید ہونے والے بچوں کے ماں باپ اور جو دیگر عینی شاہد بچے ہیں ان کو بھی‘ماں باپ سمیت ایک پروگرام کے تحت عمرے پر بھیج دے اس طرح یہ لوگ جی بھر کر خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ پر عبادت بھی کر لیں گے اور اپنے پیاروں کے لیے دعائیں بھی مانگ لیں گے۔ویسے اب تو سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ کی طرف سے بھی سانحہ پشاور کی مذمت کی جا چکی ہے ۔اگر سفارتی چینل سے ان تک پہنچا جائے تو وہ ان سب افراد کو سعودی حکومت کے مہمان کے طور پر دعوت دے سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں پہلے اس کی نظیر بھی موجود ہے۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہمارا ایک طیارہ اغوا کر کے پہلے کابل اور پھر دمشق لیجایا گیا تھا۔وہاں جب مسافروں کو رہائی ملی تو معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر محمد اجمل کے مشورے پر جنرل ضیاء الحق ان تمام مسافروں کو دمشق سے سیدھا عمرے کے لیے حرمین شریفین لے گئے تھے۔اس وقت تو سعودی فرمانروا نے تمام اخراجات اٹھائے تھے۔ممکن ہے آج کل جو سعودی فرمانروا ہیں وہ بھی اس روایت کو قائم رکھیں۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ مسلمان کتنا بھی پریشان ہو اور کسی بھی مصیبت سے گزرا ہو اگر اس کو خانہ کعبہ اور روضہ رسول ؐ کی حاضری نصیب ہو جائے تو اس کے دل کو کافی سکون طمانیت حاصل ہو جاتی ہے۔ بالفرض محال اگر سعودی حکومت ایسا نہیں کر پاتی تو پھر خود ہماری حکومت کو ایسا کرنا چاہیے۔ملک ریاض جیسے مخیر حضرات بھی یہ کارخیر انجام دے سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں