حج اسلام کا پانچواں رکن ہے اور ہر صاحب حیثیت اور تندرست مسلمان پرزندگی میں کم از کم ایک مرتبہ حج کرنا فرض ہے۔ قرآن مجید کے مطابق جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ ایسے منکرین کے افعال سے غنی ہے ۔حج اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کاایک بڑا ذریعہ ہے جس کی وضاحت مندرجہ ذیل احادیث سے ہوتی ہے1:۔صحیح بخاری اور مسلم میں مذکور ہے کہ صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ کون سا عمل اللہ کے نزدیک سب سے بہتر ہے تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسو ل پر ایمان لانا۔ آپؐ سے پھر پوچھا گیا: اس کے بعد کون سا عمل بہتر ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایااللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ پھر پوچھا گیا اس کے بعد کون سا عمل بہتر ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: نافرمانی اور گناہ سے پاک حج ِ مبرور ۔2۔صحیح بخاری او ر مسلم میں ایک اور حدیث ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص حج کرتا ہے اور اس میں کوئی بے حیائی اور گناہ والا کام نہیں کرتا تو وہ اس طرح ہوجاتا ہے گویاوہ آج ہی گناہوں سے پاک اپنی ماں کے گھر پید ا ہوا ہے ۔3۔بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حج مبرور کا صلہ جنت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔4۔ایک اور حدیث میں ارشاد ہوا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حج اور عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں‘ اگر وہ سوال کرتے ہیں تو وہ سنتا ہے‘ اگر وہ مغفرت طلب کرتے ہیں تو وہ ان کو معاف کردیتا ہے ۔5۔مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حج تم پر فرض کیا گیا ہے چنانچہ تم حج کرو ۔6۔ترمذی اور سنن نسائی کی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشا د فرمایا: حج اور عمرہ کرتے رہو اس لیے کہ حج اور عمرہ غربت اور گناہوں کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جس طرح بھٹی سونے ، چاندی اور لوہے کے زنگ کو مٹادیتی ہے ۔7۔مسند احمد کی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم حج کرنے میں جلدی کرو اس لیے کہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوگا ۔حج بیت اللہ کا انسان کو ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو مسجد حرام میں بہت زیادہ نمازیں پڑھنے کا موقعہ میسر آجاتا ہے ۔مسند احمد کی ایک حدیث کے مطابق مسجد حرام میںایک نماز پڑھنا کسی دوسرے مقام پر ایک لاکھ نماز پڑھنے سے زیادہ افضل ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے والوں پر شدید برہم ہوا کرتے تھے اور ایک مرتبہ آپ نے ارادہ فرمالیا کہ پوری ریاست میں چھان بین کر کے ان لوگوں کو سب کے سامنے پیش کیا جائے جو استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتے تاکہ ان سے غیر مسلموں کی طرح جزیہ وصول کیا جائے۔ کوئی بھی صاحب حیثیت شخص جب حج کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو سب سے پہلے اپنی نیت کی اصلاح کرنی چاہیے ۔اس لیے کہ نیت کی اصلاح کے بغیر کوئی بھی کام اللہ کی بار گاہ میں قبو ل نہیں ہوتا ۔ایک مشہور حدیث پاک میں جہنم میں جانے والے قرآن کے قاری ،اللہ کے راستے میں جہا د کرنے والے شہید اور اپنے مال کو لوگوں میں خرچ کرنے والے کا ذکر کیا گیا ہے‘ جو اپنے خوشنما اعمال کے باوجود اس لیے آگ میں داخل کیے جائیں گے کہ انہوں نے یہ اعمال اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے لوگوں کو دکھانے کے لیے کیے ہوں گے ۔ نیت کی اصلاح کرنے کے بعد حج کا قصد کرنے والے مسلمان کے لیے ارکا ن حج کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے لیے راقم نے حج کے طریقے کو مختصراًبیان کرنے کا ارادہ کیا ہے تا کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہم میں سے کسی کو حج کرنے کا موقعہ فراہم کرے تو اسے ارکان حج کی معرفت پہلے سے حاصل ہو ۔اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ حج کی نوعیت کی ایک اور نسبتاًمختصر نفلی عبادت عمرہ بھی ہے ۔تاہم عمرہ اور حج میں جہاں بہت سے ارکان کا اختلاف ہے وہاں بڑا فرق یہ ہے کہ عمرہ سال بھر کے دوران کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے جبکہ حج صرف اور صرف ذوالحجہ کے دوران ہی کیا جاتا ہے ۔حج کی تین قسمیں ہیں (1)حج افراد (2)حج تمتع (3)حج قران۔ حج افراد ایسے حج کو کہتے ہیں جس میں عمرہ اور قربانی نہیں کیے جاتے جبکہ قران ایسا حج ہوتا ہے جس میں حاجی اپنے ساتھ قربانی لے کر جاتا ہے ،حج تمتع ایسا حج ہے جس میں حج اور عمرہ کو اکٹھا کرلیا جاتاہے ۔جب حاجی گھر سے شوال ،ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے مہینے میں احرام باندھ کر نکلتا ہے تو عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام کی پابندیوں سے آزاد ہوجاتاہے اور اس کے بعد 8ذی الحجہ تک نوافل اور ذکر واذکار کرتا ہے اور 8 ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر مناسک حج ادا کرتا ہے۔ حج تمتع چو نکہ افضل ترین حج ہے اور اس حج میں انسان کو اضافی عمرے کا موقع بھی ملتاہے اس لیے ان ایام میں حج تمتع کے طریقے نذرِ قارئین ہیں۔ حج تمتع کی نیت کرنے والے حاجیوں کو میقات پر پہنچ کر احرام باندھنا چاہیے۔ اگر وہ احرام اپنے گھر سے باندھ کر نکلتے ہیں تو اس صورت میں انہیں میقات پر پہنچ کر احرام کی نیت کر نا ہوگی ۔رسول اللہ ﷺ نے حج اور عمرے کے لیے مختلف میقات مقرر کیے ہیں جو حسب ِ ذیل ہیں۔ (الف) حدود حرم سے باہر رہنے والوں کے لیے: (1)ذی الحلیفہ اہل مدینہ کے لیے (2)یلملم اہل یمن اور ہندوستان وپاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے (3)جحفہ اہل مصرو شام کے لیے (4)قرن المنازل اہل نجد و طائف کے لیے (5)ذات عرق اہل عراق کے لیے (ب)اہل حل یعنی حدود حرم سے باہر اور میقات کے اندر رہنے والوں کے لیے عمرہ اور حج دونوں کے لیے اپنی رہائش گاہ میقات ہے ۔(ت) اہل حرم یعنی حدود حرم میں رہنے والوں کے لیے عمرہ کے لیے حدود حرم سے باہر کوئی جگہ تنعیم یا جعرانہ اور حج کے لیے اپنی قیام گاہ میقات ہے ۔ حج تمتع کی نیت کرنے والا شخص جب احرام باندھنا چاہے تو اس کو غسل کر نے کے بعد دواَن سلی چادریں باندھ لینی چاہئیں اور ایسے جوتے پہننے چاہئیں جن میں اس کے ٹخنے ننگے ہوں ۔حضرت عبد اللہ بن عمرث سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمہیں تہہ بند ،چادراور جوتوں میں احرام باندھنا چاہیے ۔اگر جوتے نہ ہوں تو موزے پہن لو لیکن انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لو ۔مسلم شریف میں حدیث مذکور ہے کہ حضرت جابرص کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جسے جوتے نہ ملیں وہ موزے پہن لے اور جسے تہہ بند نہ ملے وہ پائجامہ پہن لے ۔ احرام باندھنے کے بعد حاجی کو کیا کرنا چاہیے ؟ ان امور کی وضاحت آئندہ کالموں میں کی جائے گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کو سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین!