پاکستان میں کم سنی کی شادی کا معاملہ کافی عرصے سے زیرِ بحث ہے۔کچھ عرصہ قبل اسلامی نظریاتی کونسل نے کم سنی کی شادی کو جائز قرار دیا تھا جس کے بعد سندھ اسمبلی میں کم سنی کی شادی کے خلاف قرار داد پاس کی گئی ۔ قرار دادکے مطابق دلہا اور دلہن کے والدین کو ایسی شادی کرنے کی صورت میں تین سال کی سزا کا سامنا کرنا ہوگا ۔ 22مئی کو دوبارہ اسلامی نظریاتی کونسل نے کم عمری کی شادیوں کو درست قرار دیتے ہوئے رخصتی کے لیے بلوغت کی شرط کو ضروری قرار دیا ۔کم عمری کی شادی کے مسئلے پر بہت سی این جی اووز تحفظات کا شکار ہیں اور وہ اس کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتی ہیں ۔ اس بحث کے حوالے سے معاشرے میں مختلف قسم کی آراء سامنے آتی رہتی ہیں ۔ اس صورتحال میں میں نے یہ ضروری سمجھا کہ موضوع کے مختلف پہلووں کو قارئین کے سامنے رکھا جائے ۔ نکاح بنیادی طورپر صنف مخالف کے دو افراد کے درمیان ایک مذہبی اور سماجی بندھن ہے جس کے اہم مقاصد درج ذیل ہیں:
(1)جنسی بے راہ روی اور بدکرداری کا خاتمہ (2) نسلِ انسانی کی بقاء اور نشوونما (3) شریک زندگی کا حصول جس کے ساتھ مل کر حالات کے مدوجزر کا مقابلہ کیا جا سکے ۔ ان تمام اہداف کوجبھی حاصل کیا جاسکتا ہے اگر اس بندھن میں دلہا ،دلہن اور ان کے اہلخانہ کی رضا مندی شامل ہو۔ بہت سے لوگوں کو اس بندھن کے حوالے سے دلہا اور دلہن کی عمر سے بہت دلچسپی ہو تی ہے اور وہ اس بندھن کے لیے عمر کی کم ازکم حد کاتعین بھی کرنا چاہتے ہیں ۔اسلام گو کہ نکاح کے حوالے سے توکسی خاص عمر کا قائل نہیں لیکن شادی یا رخصتی کے حوالے سے جسمانی اور فکری بلوغت کو ضروری سمجھتا ہے ۔اسلام کسی بھی بالغ لڑکے یا لڑکی کوولی کی رضامندی کے ساتھ شادی کی اجازت دیتا ہے بشرطیکہ لڑکا ، لڑکی یا ان کے سرپرست شادی کے بعد کی ذمہ داریاں نبھانے کے اہل ہوں ۔وہ مخصوص طبقہ جو کم عمری کی شادی کوانسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتاہے اس سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد اس حد تک آزاد خیال ہیں کہ ہم جنس پرستی تک کو جائز قرار دیتے ہیں اور سکولوں کی سطح پر جنسی تعلیمات کی وکالت کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں ۔
اسلام بنیادی طور ہر طرح کی بے راہ روی اور مرد و زن کے آزادنہ اختلاط کا مخالف ہے اور صنفی جذبات کے اظہار کو صرف شوہر اور بیوی کے درمیان ہی جائز قرار دیتا ہے ۔اسلام بے راہ روی پر قابو پانے کے لیے کم عمری کی شادی کو بھی درست سمجھتاہے ۔ بااعتماد اور مصدقہ ذرائع سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی روشنی میں اس حقیقت کو پہچاننا کچھ مشکل نہیں کہ کم عمر کے لڑکے اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد غیر اخلاقی سر گرمیوں میں ملوث ہے جن میں سے سرفہرست خودلذتیت ہے ۔خودلذتیت کی لعنت کی وجہ سے بہت سی جسمانی اور روحانی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں جن سے جان چھڑانا کئی مرتبہ بہت مشکل اور بعض صورتوں میں نا ممکن ہو جاتا ہے ۔ احساسِ جرم ،ندامت اور ذہنی انتشار کی وجہ سے کم عمر لڑکے لڑکیوں کی تعلیمی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوتی ہیں ۔
یہ اعدادو شمار اور مشاہدات بلوغت کے فوراً بعد ہونے والی شادی کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے ہیں اور اس امر کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں کہ اگر لڑکا اور لڑکی اپنے اہلخانہ کی مدد یا ان کے تعاون کے بغیر شادی کے بعد کی ذمہ داریوں کو نبھا سکتے ہیں توان کو فی الفور ایسا کرنا چاہیے ۔سورہ نور کی آیت نمبر 32میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور شادیاں کرو اپنے درمیان موجود بغیر نکاح کے رہنے والے لوگوں کی اور اپنے نیکو کار غلاموں اور لونڈیوں کی بھی۔ اگر وہ فقیر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو غنی فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ وسعت رکھنے والا با علم ہے ‘‘۔آیت مذکورہ واضح کرتی ہے کہ مردوزن معاشی طور پرمستحکم نہ بھی ہوں تو ان کی شادی کرنی چاہیے۔ گویا کہ اسلام میں کردار کی اہمیت معیشت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے ۔ قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں کم عمری کی شادی کا تصور عام تھاجس کا منطقی نتیجہ ایک صحت مند اور انتہائی صاف ستھرے معاشرے کی شکل میںظاہرہوا ۔قرون اولیٰ کی بعض ممتاز صحابیات جن کی کم عمری میں شادی ہوئی درج ذیل ہیں :
(1)اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (2)اُمالمومنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (3)حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (4)حضرت اُم کلثوم بنت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ اگر قرون اولیٰ کے مسلمان اس شادی کو جائز اور درست سمجھتے اور اس پر عمل پیرا تھے توآج کے مسلمان کم عمری کی شادی کو اپنے لیے عیب کیوں سمجھتے ہیں ۔ کم عمری کی شادی کی مخالفت کے پس منظر میں اسلام مخالف قوتوں کی ایک سازش بھی شامل ہے جو اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ فحش مواد ،گندے لٹریچر، انٹر نیٹ اور کیبل کے پھیلاؤ کے باوجود جب تک چھوٹی عمر کی شادی نہیں رُکے گی معاشرے میں اخلاقی جرائم کی نشوونما کے لیے مطلوبہ ماحول میسر نہیں آسکتا ۔
مشرقی معاشرے عام طور پریورپ کی ترقی سے مرعوب ہیں جب یورپی معاشروں میں شادی کی قانونی عمر کا جائزہ لیا جاتا ہے تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ بہت سے یورپی معاشروں میں کم عمری کی شادی کو قانونی تحفظ حاصل ہے ۔ وکی پیڈیا سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق یونان ،سکاٹ لینڈ ،آسٹریا،بلغاریہ، کروشیا اور چیک ریپبلک سمیت بہت سے ممالک میں لڑکی کے لیے شادی عمر 16برس جبکہ ڈنمارک، ایستونیا ، جارجیا،لیتھوانیا میں شادی کی عمر کم ازکم 15برس ہے اسی طرح جنوبی امریکہ کے ممالک بولیویا اور پاراگائے میں شادی کی کم ازکم عمر 14برس ہے ۔ویٹیکن سے شائع ہونے والی کیتھولک چرچ کی معروف قانونی دستاویز '' ڈیری منٹ ایمبیڈیمنٹ‘‘کے مطابق لڑکے کی 16برس اور لڑکی کی 14برس کی عمر میں شادی کی جاسکتی ہے۔
یورپی اور کیتھولک قوانین کے مطالعہ کے بعد مسلمان ممالک کے دانشوروں کو بھی اپنی رائے پر نظر ثانی کرنی چاہیے کہ اگر سیکولر اورمسیحی معاشرے کم عمری کی شادی کو قبول کرسکتے ہیں تو مسلمان معاشروں میں اس پر تنقید کیوں کی جاتی ہے۔ اگرہم طبی اعتبار سے بھی اس معاملے کا جائزہ لیں تو حیرت انگیزحقائق سامنے آتے ہیںکہ بعض لڑکیوں کوبلوغت کے بعد چھوٹی عمر میںہی ''مینوپاز‘‘یعنی ایام کی بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے بعد وہ ماں بننے کے قابل نہیں رہتیں۔اگر بلوغت کے بعد شادی میں غیر ضروری تاخیر کی جائے تو 6فیصد لڑکیوں میں اس بیماری کا سامنا کرنے کے خدشات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہ انکشاف اسلام کی افاقی تعلیمات کی صداقت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ یقینا اسلام دین فطرت ہے اور اس کی جملہ تعلیمات میں انسانوں کے فائدے اور بہتری والی بہت سی باتیں پنہاں ہیں ۔
یہاں اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ اگرچہ اسلام میں کم عمری کی شادی کی اجازت ہے اور بے راہ روی کے اندیشے کی صورت میں فی الفور شادی کرنا ایک ضروری اور مستحسن عمل ہے لیکن کم عمری کی شادی کرنا واجب نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی آیت نمبر 33میں ارشاد فرمایا ہے ''اور انہیں پاک دامن رہنا چاہیے جو اس وقت تک نکاح کا موقع نہ پائیں جب تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی نہیں کر دیتا ‘‘آیت مذکورہ میں اس حقیقت کو واضح فرمادیا گیا ہے کہ اگر انسان معاشی طور پر مستحکم ہوئے بغیر شادی نہیں کرنا چاہتا اور اپنی پاک دامنی کا تحفظ کر سکتاہے تو اسے ایسا کرنے کی اجازت ہے ۔نفس کی اکساہٹ پر قابو پانے کے لیے نبی کریم ﷺ نے اپنی اُمت کو روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی ہے جس کی برکت سے انسان کا نفس اس کے قابو میں رہتا ہے ۔
قرآن وسنت کے مطالعہ کرنے کے بعد انسان باآسانی اس بات کو سمجھ سکتاہے کہ اسلام میں شادی کسی عمر میں بھی ہو سکتی ہے ۔اگر کوئی تاخیر سے شادی کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے لیکن اس کے لیے یہ بات درست نہیں ہے کہ کم عمری میں شادی کرنے والے لڑکے، لڑکی یا ان کے اہلخانہ کو تنقید کا نشانہ بنائے اس لیے کہ شادیاں بہت سی صورتوں میں اخلاقی جرائم کی روک تھا م کا موثر ترین ذریعہ ہیں۔یہ نسخہ قرون اولیٰ کے مقدس اور صاف ستھرے معاشرے کے لوگوں سے کہیں بڑھ کر دور حاضر کے انسانوں کو برائی سے بچانے کے لیے کئی مرتبہ مفید اور کارگر ثابت ہو چکا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں قرآن و سنت کی حکمتوں کو سمجھنے کی توفیق دے ۔آمین