پروفیسر حافظ محمد سعیدسے میرے تعلقات کم ازکم 24سال پر محیط ہیں ۔حافظ صاحب سے میری ابتدائی ملاقاتیں 1990ء میں اس وقت شروع ہوئیں جب میں انجینئرنگ یونیورسٹی میں بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے داخل ہوا تھا ۔ان دنوں حافظ صاحب شعبہ اسلامیات کے مدرس تھے اور جماعت کی تنظیم سازی کا آغاز بھی کر چکے تھے ۔میرے اسلامیات کے استاد پروفیسر ظفر اقبال تھے ،جن سے کلاس اور کلاس کے بعد مختلف علمی مسائل پر تبادلہ خیال جاری رہا کرتا تھا ۔انہی دنوں میں سٹاف روم میںجناب ظفر اقبال ، حافظ ایوب صاحب ، چوہدری عبد الحفیظ صاحب کے علاوہ حافظ صاحب کے ساتھ بیٹھنے کا موقع بھی میسر آتا ۔والدگرامی کی نسبت سے تمام اساتذہ کارویہ مجھ سے انتہائی مشفقانہ تھا ۔حافظ سعیدصاحب بھی اس نسبت سے مجھے کئی مرتبہ بریک کے دوران ٹائم عنایت فرماتے اور مختلف دینی اور سماجی مسائل پر سوال و جواب کی طویل نشست ہو ا کرتی ۔ انجینئرنگ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے دوران حافظ صاحب کے برادر نسبتی پروفیسرحافظ عبدالرحمن مکی صاحب سے بھی تعارف ہوا ۔انجینئرنگ یونیورسٹی کے طلبہ نے ایک مرتبہ سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا ،جس میں حافظ عبدالرحمن مکی صاحب کی ہمراہی میں مجھے بھی خطاب کرنے کاموقع میسر آیا ۔
ایک مرتبہ فلسطین سے ممتاز عالم اسعد بیوض تمیمی انجینئرنگ یونیورسٹی میں سیمینار میں خطاب کرنے کے لیے تشریف لائے تو میں نے ان کے خطاب سے قبل ایک استقبالی خطبہ پیش کیا ۔اس خطاب کے بعد حافظ سعید صاحب نے بڑے پیار سے میرے کندھے تھپک کر میری حوصلہ افزائی کی۔انجینئرنگ یونیورسٹی سے گریجوایشن کی تکمیل کے بعد حافظ صاحب سے رابطوں میں کچھ تعطل آگیا۔ میں اپنی تعلیم کے بعد دیگر مراحل کو مکمل کرنے کے بعد منبر و محراب کی دنیا سے وابستہ ہو گیا اور ملک کے مختلف مقامات پر جلسے، جلوسوں اور اجتماعات سے خطاب میںمشغول ہو گیا ۔اسی اثناء میں حافظ صاحب کی جماعت بھی ملک کے طول و عرض میں پھیلتی چلی گئی ۔
مریدکے میںایک بڑے مرکز کے قیام کے بعد حافظ صاحب نے چوبرجی میں ''القادسیہ ‘‘کے نام سے بڑا ادارہ قائم کیا اور مستقل بنیادوں پر اس مرکز میں خطابت کا سلسلہ شروع کیا۔میں بھی ان ایام میں لارنس روڈ پر واقع والد گرامی کے تیار کردہ مرکز میں خطبہ دینا شروع ہو چکا تھا ۔کبھی کبھار جماعۃ الدعوہ کے دوست بھی مجھے اپنے جلسوں میںشرکت کی دعوت دیتے جہاں پر حافظ سعید تو موجود نہ ہوتے لیکن حافظ عبدالرحمن مکی اور امیر حمزہ سے ملاقاتیں ہو جاتیں اور حافظ سعید کی خیروعافیت دریافت کرنے کا موقع میسر آجاتا ۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں نبی کریم ﷺ اور قرآن کریم کی حرمت کے حوالے سے دو تحریکیں چلائی گئیں ۔جن کا سبب ڈنمارک میں نبی کریم ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی اور امریکہ میں قرآن مجید کی توہین پر مبنی منفی سر گرمیاں تھیں ۔ ان تحریکوں میں ایک دینی کارکن ہونے کے ناتے میں اپنے رفقاء کے ہمراہ اپنی بساط کے مطابق سرگرم رہا ۔ان دنوںمیں ہر جمعۃ المبارک کے بعد لارنس روڈ پر احتجاجی جلوسوں کا انعقاد ہو ا کرتا تھا ۔ان ایام میں حافظ سعید صاحب نے بھی باقاعدہ تحریک حرمت قرآن اور تحریک حرمت رسول ﷺکے عنوان سے تحریکوں کا آغاز کیا اورپاکستان کے مختلف شہروں میں بڑے اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔ ان اجتماعات میں مجھے بھی خطاب کی دعوت دی گئی تو دوبارہ حافظ صاحب سے ملاقات کا موقع میسر آیا اور انجینئرنگ یونیورسٹی میں گزارے ہوئے ایاّم کی یادیں تازہ ہوگئیں ۔
دفاع پاکستان کونسل کے قیام کے بعد حافظ صاحب سے ملاقاتوں میں تسلسل پیدا ہوا اور نیٹو سپلائی کی بندش کے حوالے سے ملک بھرمیں ان کی ہمراہی میں اجلاسوں اور اجتماعات میں شرکت کا موقع میسر آیا ۔دفاع پاکستان کونسل کا پہلا بڑا اجتماع اقبال پارک میں منعقد ہو اجس میں مجھے بھی خطاب کی دعوت دی گئی ۔اس ولولہ انگیز اور عظیم الشان اجتماع کی کامیابی میں حافظ سعید اور ان کی جماعت نے کلیدی کردار ادا کیا اور اس اجتماع نے لاکھوں پاکستانیوں کے دلوں کو جذبہ جہاد سے معمور کر دیا ۔ بعد ازاں لیاقت باغ راولپنڈی ، عام خاص باغ ملتان ، جناح پارک کراچی ،دھوبی گھاٹ فیصل آباد ،مظفرآباد اور آبپارہ چوک اسلام آباد میں ہونے والے اجتماعات میں بھی حافظ صاحب کے ہمراہ شرکت ہوتی رہی ۔
دفاع پاکستان کونسل نے نیٹوکی بندش کے لیے لاہور سے اسلا م آباد تک ایک عظیم الشان لانگ مارچ کا انعقاد کیا ۔ڈی چوک میں ایک بے مثال جلسہ عام کے بعد لانگ مارچ کے شرکاء منتشر ہوگئے ، اگرچہ دفاع پاکستان کونسل کی اس تحریک کے نتیجے میں نیٹو سپلائی بند تو نہ ہو سکی لیکن عوامی شعور میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ۔ دفاع پاکستان کونسل کے مختلف اجلاسوں میں بعض قائدین اس اتحاد کو سیاسی اتحاد میں تبدیل کرنے کی خواہش رکھتے تھے جن میںراقم بھی شامل تھا۔ہم سمجھتے تھے عوامی بیداری کی اس تحریک کو سیاسی جدوجہد میں بھی تبدیل ہونا چاہیے تاکہ نیٹو سپلائی کی بندش کی ہمنوائی کرنے والے حکمرانوں سے ملک کو نجات دلائی جا سکے لیکن حافظ صاحب بوجوہ اس بات پر آمادہ نہ ہو ئے ۔
میں نے دو تین مرتبہ علیحدہ بھی حافظ سعید صاحب سے اس حوالے سے ملاقات کی کہ ملک میں نفاذاسلام کی منزل قریب لانے کے لیے ان کو سیاسی میدان میں بھی جدوجہد کرنی چاہیے ، لیکن حافظ صاحب اپنی رفاہی اور تنظیمی سرگرمیوں سے مطمئن تھے اور ان کے نزدیک انتخابی سیاست میں حصہ لینا ضروری نہیں تھا ۔میں نے حافظ صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کے نفاذ کے لیے اگرتمام دینی طبقات متحد ہو جائیں تو انتخابی میدان میں بھی سیکولر عناصر کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے لیکن میں ان کو قائل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا ۔حافظ صاحب فکری طور پر انتخابی جدوجہد سے مطمئن نہیں ہیں ۔میرا یہ استدلال ہے کہ جب تک پُر امن انتخابی جدوجہد کا متبادل ماڈل سامنے نہیں آتا اس وقت تک ہمیں اس نظام میں رہتے ہو ئے نفاذ اسلام کی جدوجہد کو جاری رکھنا چاہیے۔ اس نکتے پر ہم آہنگی نہ ہونے کے باوجود اُمت مسلمہ کے مسائل پر یکساں موقف رکھنے کی وجہ سے ہمیشہ میں نے حافظ صاحب سے ایک فطری ہم آہنگی محسوس کی ہے۔
فلسطین ،برما اور کشمیرمیں ہونے والے مظالم پر حافظ صاحب بھر پور طریقے سے آواز اُٹھاتے ہیں اور جب بھی ا س حوالے سے مجھے بلاتے ہیں ،میں بھی ان کے اجتماعات میں جاکر اپنا موقف پیش کرتا ہوں ۔قرآن و سنت کی طرف مراجعت اور جذبہ جہاد کے احیاء کو زوال اُمت کے خاتمے کے لیے ان کی طرح میں بھی ضروری خیال کرتا ہوں ۔اس لیے عمر میں چھوٹا ہونے کے باوجود ہمارے درمیان جذبہ اخوت اورایک فکری اور روحانی ربط موجود ہے ۔
حال ہی میں جب مجھے اس بات کی خبر ہوئی کہ حافظ صاحب کی اہلیہ محترمہ کا انتقال ہو گیا ہے تومیں نے اس طرح محسوس کیا جس طرح اپنے ہی خاندان کی کسی محترم خاتون کا انتقال ہو گیا ہو ۔ آپا جی ایک دین دار خاندان کی دین دارخاتون تھیں اور حافظ صاحب کی طرح خود بھی انتہائی فعال رہیں ۔بہت سے خاندانوں کو دین کے قریب لانے میں بھی کردار ادا کیا اور بہت سے مقامات پر درس و تدریس کی بنیاد رکھی ۔ان کی رحلت یقینا جہاںپر حافظ صاحب اور ان کے اہلخانہ کے لیے صدمے کا باعث ہے وہیں پر ان خواتین کے لیے بھی شدید رنج وغم کا باعث ہے جو ان کے دروس سے مستفید ہو ا کرتی تھیں ۔مرکز القادسیہ میں ان کے جنازے کی امامت خود حافظ سعید صاحب نے فرمائی اور جنازے میں شریک ہزاروں افراد نے ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ آپا محترمہ کے درجات کو بلند فرمائے اور حافظ سعید صاحب ، عبد الرحمن مکی ،برادر طلحہ سعید و دیگر اہلخانہ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے ۔آمین ثم آمین ۔