دنیا میں انسانوں کی دو اقسام ہیں ۔پہلی قسم کے لوگ سرمایہ ،دولت اور رزق کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور ان کی زندگی کی تما م ترسرگرمیوں کا مقصد رزق حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ ان طبقات میں بڑی تعداد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو حلال وحرام کی تمیز کیے بغیر مال و دولت سمیٹنے میں مشغول رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ وحی اور الہام کی ہدایات اور تعلیمات کو بھی مدنظر نہیں رکھتے۔ ایسے لوگ مال و دولت کے بل بوتے پرکئی مرتبہ زمین پر غلبہ پا کر کمزور انسانوں کی حق تلفی اور استحصال کرنے سے بھی باز نہیں رہتے ۔
فرعون نے اپنے اقتدارکو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا اور بنی اسرائیل کے مظلوموں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا ۔ نوزائیدہ بچوں کا قتل عام کرنے والا فرعون اپنی عاقبت کو بھلا بیٹھاا ور اللہ تعالیٰ کے غضب اورعذاب کا نشانہ بن گیا ۔قارون نے اپنے سرمائے کو اپنی مہارت اورعلم سے نسبت دی اور غرور اور فخر میں آکر اللہ تعالیٰ کے فضل اور عطا کو بھلابیٹھا ۔نتیجتاً وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کے مال ومتاع اور گھر سمیت زمین میں دھنسا دیا ۔
سرمائے کی چمک دمک انسانوں کی اکثریت کو اپنی طرف مائل کیے رکھتی ہے اور رزق کی بہتات کو اللہ تعالیٰ کی واحد عطا سمجھنے والے لوگ اپنی تمام تر توانائیاں اس کے حصول میں صرف کرتے رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے بہت سے لوگ بھی اپنی جائز ضروریات کو پورا کرنے کی غرض سے رزق حلال کمانے کے لیے اپنی تما م تر توانائیاں بروئے کار لاتے ہیں ۔ محنت کش اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے اور ایماندار تاجر کو قیامت کے دن نمایاں اور بلند مقام حاصل ہو گا لیکن سرمایے اور رزق کاحصول انسان کا واحد مطمح نظر ہرگز نہیں ہونا چاہیے ۔
انسانوں کو کائنات اور اپنی تخلیق کے مقاصد کو سمجھنے کی جستجو بھی کرنی چاہیے اور اپنی زندگی گزارنے کے اس طریقے کی معرفت بھی حاصل کرنی چاہیے جو اس کے فنا کے گھاٹ اترنے کے بعد اس کی اخروی کامیابی کی ضمانت بن جائے گا ۔ ان مقاصد کو سمجھنے کے لیے انسان کو قرآن وسنت کا علم بھی حاصل کرنا چاہیے ۔قرآن وسنت نے بالعموم حصول علم کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی اور خاص طور پر علم دین کے حاصل کرنے کو انسان کی دنیا و آخرت کو سنوارنے کا بہترین ذریعہ قرار دیا ۔ علم دین صرف عبادات کی ادائیگی کا علم نہیں بلکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں سے اس علم کا براہ راست اور انتہائی گہرا تعلق ہے ۔
دین معیشت ، معاشرت ، تہذیب ، حکومت ، سیاست ، عائلی اور اجتماعی زندگی کے تمام معاملات میں کامل رہنمائی کرتا ہے۔ اور انسانوں کو منشائے الہٰی سے پورے طریقے سے آگاہ کرتاہے۔ ان معاملات سے متعلق اہم اصولوں کی معرفت انسان کو جبھی حاصل ہوسکتی ہے جب وہ علم سے بہرہ ور ہو گا ۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ مجادلہ کی آیت نمبر 11میں اہل علم کے درجات کو باقی لوگوں کے مقابلے میں برترقرار دیا اس لیے کہ اہل علم اُن حقائق سے آگاہ ہوتے ہیں جن سے عام لوگ آگاہ نہیں ہوتے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں جہاں تخلیق آدم علیہ السلام کا ذکر کیا وہاں پر فرشتوں پر انسانوں کی فضلیت کا سبب بھی بیان فرمایا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ بقرہ میں بیان فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو بنانے کے فیصلہ کا اظہار فرشتوں کے سامنے کیا تو فرشتوں نے اپنے سابقہ تجربے کی روشنی میں کہا تھا کہ کیازمین پر ایسی مخلوق کو پید ا کیا جائے گا جو زمین پر فساد اور انتشار پیداکرے گی اور ایک دوسرے کا خون بہائے گی جبکہ فرشتے ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح ، حمدو تقدیس اور عبادات کرنے میں مشغول رہا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کے اس اعتراض کے جواب میں کہا تھا ''بے شک میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے ‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد ان کو جملہ اشیاء کے ناموں سے آگاہ فرمایا اور اس کے بعد ان اشیاء کے ناموں کے بارے میں فرشتوں سے استفسار کیا ۔فرشتوں نے ان اشیاء کے نام بتانے سے معذوری ظاہر کی اور اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کرتے ہوئے کہا ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تونے ہمیں علم عطا فرمایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر آدم علیہ السلام کو جملہ اشیاء کے نام بتانے کا حکم دیا ۔ حضرت آدم علیہ السلام چونکہ ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ ہو چکے تھے اس لیے انہوں نے وہ تمام نام بیان فرما دیے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کے علم کی فضیلت ثابت ہو جانے پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ان کے سامنے جھکنے کا حکم دیا اور اس بات کو واضح فرما دیا کہ اصل برتری علم کی ہے ۔
علم چونکہ اشیاء کی حقیقت کو سمجھنے کاموثر ترین ذریعہ ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے نعمت علم سے اپنے انبیاء کومالا مال فرما دیا ۔ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ان پیغمبروں نے چونکہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کیا اس لیے ان کا علم ہر اعتبار سے قابل بھروسہ اور قابل اعتماد تھا۔ اس علم کے ذریعے انبیاء علیھم السلام نے حق اور باطل ،ہدایت اور گمراہی ،ٹیڑھے اور سیدھے راستوں کے درمیان فرق کو واضح فرمایا اور انسانوں کو صحیح راستے پر چلنے کادرس دیا ۔ حضرت رسول اللہ ﷺ نے بھی اس علم کی روشنی سے جزیرۃ العرب کو منور فرمایا دیا اور ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جس میں جاہلیت کے اندھیروں اور تمام غلط رسم و رواج کو کلی طور پر ختم کر دیا گیا ۔آپ ﷺ کے جانشین بھی مادیت کے مقابلے میں علم ہی کی دولت سے بہرہ ور تھے ۔حضرت ابو بکر، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علی رضوان اللہ علیھم اجمعین کے مثالی دور حکومت کا ان اکابرین کی علمی صلاحیتوں سے انتہائی گہرا تعلق ہے ۔خلفائے راشدین علم کی روشنی میں لوگوں کے درمیان فیصلہ فرماتے رہے ، اس لیے ان کے فیصلوں ا ور طرز حکمرانی میں ظلم اور ناانصافی کا معمولی سا شائبہ بھی نہیں تھا ۔
قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ حاکم اور قائدکے لیے علم اور طاقت کا ہونا انتہائی ضروری ہے ۔اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میںحضرت شموئیل علیہ السلام کے عہد کا ذکر فرمایا کہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے ان سے ایک بادشاہ کا مطالبہ کیا کہ جس کی قیادت میں وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کر سکیں۔ اس پر حضرت شموئیل علیہ السلام نے انہیں بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس منصب کے لیے جناب طالوت کو چن لیا ہے ۔ بنی اسرائیل کے لوگ اس بات سے آگاہ تھے کہ جناب طالوت صاحب ِ ثروت نہیں ہیں ۔ انہوں نے جناب شموئیل علیہ السلام کے سامنے یہ خدشہ رکھا کہ جناب طالوت ہمارے حاکم کس طرح ہو سکتے ہیں جبکہ وہ صاحب مال نہیں ہیں ۔ اس موقع پر حضرت شموئیل علیہ السلام کا جواب تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جناب طالوت کو تم پر فضلیت دی ہے اوران کوعلم اور طاقت میں وسعت عطا فرمائی ہے ۔ اس صحیح انتخاب کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ کے فضل سے بنی اسرائیل کے لو گ جناب طالوت کی قیادت میں اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن پر غالب آگئے ۔
اگر قیادت کے انتخاب کے حوالے سے قرآ ن وسنت میں موجود اہلیت کو اہمیت دی جائے تو معاشروں کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ ایک صاحب علم حاکم میںمسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت ایک بے علم یا کم علم حاکم کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے ۔
جب تک مسلمانوں کے قائدین اور امراء دینی اور دنیاوی علو م سے بہرہ ور اور ان علوم کی حوصلہ افزائی کرنے والے تھے اس وقت تک مسلمان معاشرے سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے دیگر معاشروں کے مقابلے میں بہتر اور طاقت ورتھے، لیکن جب مسلمانوں کے لیڈر علمی اعتبار سے کمزور ہو گئے اور قیادت کے انتخاب میں مادیت کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی تو مسلمان معاشرے سیاسی اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہو گئے ۔ ایک وقت تھا جب مسلمانوں کا حاکم عصری علو م میں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا امام بھی ہوا کرتا تھا اور اس وقت مسلمان پوری دنیاکے حاکم اور قائد تھے ۔ علم سے دوری کی وجہ سے مسلمان رفتہ رفتہ پستی اور زوال کا شکار بھی ہوتے چلے گئے ، اس زوال سے نجات حاصل کرنے کا موثر ترین ذریعہ علم کی ترویج ہے ۔ اگر ہمارے حکمران اور معاشرے مادہ پرستی کی بجائے علم کی طلب کے راستے پر چل نکلیں تو اخلاقی اور سیاسی عروج کے ساتھ ساتھ انہیں مادی عروج بھی خود بخود حاصل ہو جائے گا ۔