زندگی کے بارے میں ہر انسان کے اپنے اپنے مشاہدات، تصورات اور ترجیحات ہیں‘ جن کے مطابق وہ زندگی کا
نظام الاوقات مرتب اور اہداف کے حصول کے لیے توانائیوں اور وسائل کو صرف کرتاہے۔وہ بعض اوقات زندگی کے اہداف کے تعین کے حوالے سے اہل خانہ‘ دوست احباب اور اعزا واقارب سے مشاورت بھی کرتا ہے اوراپنی وسعت کے مطابق اپنی طے شدہ سمت میں سفرکرتا ہے۔ دنیا میںبڑے بڑے حکمران ،سپہ سالار ، سیاستدان، ادیب،شاعر، فلسفی اور علماء گزرے ہیں‘ جن کی حکومت، سپہ گری، ادب پارے اور دیوان تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ نامور لوگوں کی کارکردگی کو دیکھ کر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ لوگ واقعی غیر معمولی تھے‘ جنہوں نے تاریخ کے اوراق پر کارکردگی کے ان مٹ اور گہرے نقوش چھوڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انسان خواہ کتنا ہی بڑا یا طاقتور کیوں نہ ہو جائے بالآخراُسے موت کا ذائقہ چکھنا پڑتا ہے۔لیکن اتنی بڑی حقیقت دیکھنے کے باوجود‘ انسان‘ فناکے بارے میںبالعموم بہت کم غور وفکر کرتا ہے۔
تاریخ، ادب، سیاست، فلسفے اور سماجی علوم کے ماہرین نے انسانوں کی کامیابی کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا ہے اس کا تعلق فانی زندگی کے ساتھ ہے۔ موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں چونکہ انسانوں کی معلومات کا واحد ذریعہ مذہب ہے اس لیے انسانوں کی بڑی تعداد نے موت کے بعد کی زندگی کو نظر انداز کئے رکھا۔ انسان اور مذہب کے تعلق پرانسانوںـ کی اکثریت نے اس حد تک توجہ نہیں دی جس حد تک دینا چاہیے تھی۔ تمام مذاہب نے بالعموم اور اسلام نے بالخصوص انسانوں کی کامیابی کے بارے میں جو تصورات پیش کیے ہیں وہ دیگر علوم کے مقابلے میں یکسر مختلف ہیں۔
دنیاوی اعتبار سے کسی شخص کا حاکم یا مال دار ہونا اس کی کامیابی کی علامت ہے جب کہ اسلام کے مطابق حاکم کا عادل ہونا اور مال دار کا حلال کمائی کمانے والا ہونا اس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے‘ چنانچہ فرعون اور نمرود حاکم ہونے کے باوجود ناکام اور نامراد ٹھہرے، اسی طرح قارون اور ابولہب بھی مالدار ہونے کے باوجود کامیاب لوگوں کی فہرست میں شامل نہیں ہو سکے۔ حقیقی کامیابی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے سورہ عصر میں انسانوں کی مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ زمانے کی قسم ہے کہ بے شک انسان خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اورانہوں نے نیک عمل کیے اور حق بات اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔ سورہ عصر کے مطابق انسان‘ ایمان اور عمل صالح کے بغیر فقط کسی عہدے اور منصب کو پالینے کے بعد کامیاب قرار نہیں پا سکتا۔ اسی طرح شہرت اور مال کی فراوانی بھی اس کی کامیابی کی ضامن نہیں بن سکتی۔ جب تک کہ وہ ایمان اور عمل صالح کی راہ اختیار نہیں کرتا۔ کامیابی کے حوالے سے قرآن وسنت نے جو رہنمائی کی ہے اس کا مقصد ہرگز یہ نہیںکہ انسان دنیاوی زندگی میں ترقی کرنے کی محنت نہ کرے۔ بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کی زندگی کو ان اصول وضوابط کے تحت بسر کیا جائے جن کا تعین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں اہل ایمان کی ایک بہترین دعا کا ذکر کیا ہے کہ وہ دعا مانگتے ہیں کہ'' اے ہمارے پروردگار : ہمیں دنیا میں بھی اچھا عطا کر اور آخرت میں بھی اچھا عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی وہ سر بلندی جس سے اخروی کامیابی متاثر نہ ہو ہر اعتبار سے مستحسن ہے لیکن ایسی جدوجہد اور تگ ودو جس کے نتیجے میں انسان کی اخروی زندگی تباہ و برباد ہو جائے ہر اعتبار سے مذموم ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ کہف کی آیت نمبر103،104 اور105 میں ارشاد فرماتے ہیں: کہہ دیجئے کہ کیا ہم تمہیں سب سے زیادہ گھاٹے والے اعمال سے آگاہ نہ کریں ؟ وہ لوگ جنہوں نے اپنی جدوجہدکو دنیا کی زندگی میں کھپا دیا ہے اور وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ بہترین کام کرنے میں مصروف ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی نشانیوں اور ملاقات کا انکار کیا ‘پس اپنے اعمال برباد کیے اور ہم ان کے لیے قیامت کے روز کسی قسم کے وزن کو قائم نہیں کریں گے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی زندگی اور اس کی آسائشوں کے حصول کے لیے ہمہ وقت جدوجہد کرنے والے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو ایمان وعمل کے راستے سے منحرف ہو چکے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک دنیا کی چند روزہ زندگی کا عروج اورترقی ہی سب کچھ ہے اور سفر آخرت کو یہ لوگ کلی طور پر فراموش کر چکے ہیں ایسے لوگ اگر زندگی میں سب کچھ بھی پالیتے ہیں تو انہوں نے حقیقت میںکچھ بھی نہیں پایا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مغضوب اقوام اورافراد کے تذکروں کے دوران اس حقیقت کو بڑی شرح وبسط سے بیان کیا ہے کہ مغضوب اقوام اور افراد کی بڑی تعداد کو دنیا میں تمکن اور طاقت حاصل تھی۔ ان کے پاس اقتدار اور مال و زرکی فراوانی بھی تھی لیکن وہ اپنے مقصدحیات کو فراموش کر چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور رسول ان لوگوں کو مقصد حیات کو سمجھنے کی تلقین کرتے رہے لیکن انہوں نے ان کی دعوت، تبلیغ اور نصیحت کو پس پشت ڈال دیا اللہ تعالیٰ نے ایک وقت تک کے لیے ان کو مہلت دیے رکھی اور اس کے بعد ان کو اپنے ہولناک اور عبرتناک عذاب کا نشانہ بنا دیا۔ مقصد حیات کو نہ پہچاننے والے انسان کے تمام اعمال اکارت ہیں۔ جب کہ مقصد حیات کو پہچان کر ہی انسان کو دنیا وآخرت کی کامیابیاں ، کامرانیاں اور سربلندیاں حاصل ہو سکتی ہیں۔ انسانوں کی کوتاہ بینی، کج فہمی اور سوچ وفکر کے الجھاؤ کو حل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے سورہ ذاریات کی آیت نمبر56 میں اعلان فرما دیا: اور میں نے نہیں بنایا جنات اور انسان کو مگر اپنی عبادت کے لیے ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان مقصد حیات کو پہچاننے کے لیے کافی ہے کہ اگر انسان بندگی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے دنیا کے دیگر امور میں مشغولیت اختیار کرتا ہے تو وہ کامیاب ہے اور اگر وہ بندگی کے تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے فقط دنیا کی عارضی زندگی کی کامیابیوں کے حصول کے لیے سرگرم ہے تو وہ ناکام اور نامراد ہے۔ فرعون اور نمرود مقصد حیات کو نظر انداز کرکے غرور اور تکبر کے ساتھ حکومت کرتے رہے اللہ تعالیٰ نے ان کے تذکروں اور انجام کو اہل ایمان کے لیے سامان عبرت بنا دیا۔ جب کہ ذوالقرنین اور طالوت نے اللہ تعالیٰ کی تابعداری کے راستے کو اختیار کیے رکھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس کلام میں ان کی تعریف و توصیف کی اور ان کے تذکروں اور کارناموں کو اہل ایمان کے ایمان میں اضافے کا سبب بنا دیا۔ قارون اور ابولہب اپنے سرمائے کی وجہ سے جہنم کا ایندھن بن گئے جب کہ اس کے بالمقابل حضرت عثمان اور حضرت عبدالرحمن ابن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہما مقصد حیات کو سمجھنے کی وجہ سے اپنے سرمائے کے ذریعے جنت کے خریدار بن گئے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اقتدار اور مال تو حاصل نہ ہوا لیکن مقصد حیات کا شعور اور احساس حاصل ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر معراج کے دوران آپ(حضرت بلالؓ) کے جوتوں کی آہٹ کو آسمان کی بلندیوں پر سنوا دیا اور لوگوں کے سامنے اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ اصل مقصد زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اصل کامیابی رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی مقصد حیات کو صحیح طریقے سے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین !!