اللہ تعالیٰ خالقِ کائنات ہے اور اُس نے کائنات میں قسم ہا قسم کی مخلوقات پیدا کیں جن میں سے تین ذوالعقول ہیں... انسان ، جنات اور فرشتے جنہیں عقل اور کلام کی صلاحیت ودیعت کی گئی ۔ فرشتے سراپا خیر ہیں جبکہ انسانوں اور جنوںمیں بیک وقت خیر اور شر کی صلاحیتیں موجود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں میںانسان کو سب سے بلند مقام عطا فرمایا ۔ سورۃ التّین کی آیت 4کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین تقویم میں پیدا فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے جدّ امجد حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو تمام فرشتوں کو ان کے سامنے جھکنے کا حکم دیا ۔ا س امرکو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ایک نمایاں حیثیت کا حامل عزازیل نامی جن، جوکثرت عبادت کی وجہ سے فرشتوں کا ہم نشیں بن چکا تھا، راندۂ درگاہ ٹھہرا ۔ اولاد آدم میں بھی مختلف قسم کے لوگ پیدا ہوئے۔ ایک بڑی تعداد اپنے ازلی دشمن ابلیس اور اس کی چالوں کو نہ پہچاننے کی وجہ سے ناکام اور نامراد ٹھہری، جبکہ بہت سے ایسے پاکیزہ نفوس بھی پیدا ہوئے جو اپنی عبادت و ریاضت سے فرشتوں پر بھی سبقت لے گئے۔
حق بندگی ادا کرنے والے یہ لوگ ایک ہی درجے پر فائز نہیں بلکہ ان میں مختلف طبقات ہیں۔ ایک طبقہ صلحاء کا ، دوسراگروہ شہداء کا، تیسری جماعت صدیقین کی جب کہ سب سے بلند رتبے کے حامل انبیاء علیہم السلام ٹھہرے ۔ انبیاء کی جماعت صلحاء ، شہداء اور صدیقین سے اس لحاظ سے ممتاز ہے کہ پہلے تین طبقات اپنے بلند رتبے کے باوجود مخلوق سے ہی ہم کلام ہوتے رہے جبکہ انبیاء علیھم السلام کی جماعت کو یہ اعزاز اور شرف حاصل ہواکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو سنا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بنی نوع انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے منتخب فرمایا۔
انبیاء کی جماعت میںسے بعض ہستیوںکو اللہ تعالیٰ نے مقام رسالت عطا فرمایا۔ رُسُل، صاحبِ شریعت انبیاء تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پاکباز ہستیوں پر زندگی گزارنے کا پورا نظام نازل فرمادیا ۔ اللہ کے ان رسولوں نے اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتی انسانیت کو روشنی کے راستوں پر چلایا، بھٹکے ہوئوں کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کی، شرک اور توحیدکا فرق واضح اور حلال و حرام کے درمیان امتیازقائم فرمایا۔
اللہ کی توحیدکی دعوت دینے کی وجہ سے مشرکین نے اللہ کے رسولوں اور انبیا کی بھر پور مخالفت کی ۔ اللہ کے پیامبر خندہ پیشانی سے اللہ کے راستے میں آنے والی تکالیف سہتے رہے، صبر واستقامت کی اعلیٰ مثالیں قائم کرنے والے ان رسل میں بعض ہستیوں کو اللہ تعالیٰ نے اولوالعزم رسول ہونے کا اعزاز عطا فرمایا۔ عزم واستقامت کی اعلیٰ ترین روایات قائم کرنے والے اولوالعزم رسولوں کی جماعت میں سے بھی پانچ نمایاں ترین مقام کے حامل ہیں... حضر ت نوح علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ کو یہ اعزازاس لیے حاصل ہوا کہ انہوں نے حالات کے جبر اور اعدائے دین کی متواتر سازشوںکی پرواکیے بغیر اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کا فریضہ نہایت احسن طریقے سے انجام دیا۔ حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال تک استقامت کی تصویر بنے رہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد اور بستی والوں کی پرواکیے بغیر توحیدکی شمع فروزاں کیے رکھی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی رعونت ، قارون کے سرمایے، شداد کی جاگیر اور ہامان کے منصب سے مرعو ب ہوئے بغیر اپنے فرائضِ منصبی کو انجام دیا ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنے عہدکے بادشاہ اور بنی اسرائیل کی مخالفت کی پروا نہ کی اور نہایت احسن انداز میں اپنی ذمہ داریاںنبھاتے رہے۔
حضرت رسول اللہ ﷺ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سب انبیاء و رسل کا امام بنایا اور آپﷺ کی ذات کو مجموعہ صفات وکمالات بنادیا۔ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ، آدم علیہ السلام کی انابت ، حضرت نوح علیہ السلام کی استقامت ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولوالعزمی ، موسیٰ علیہ السلام کی ضرب ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دَم ، حضرت داؤد علیہ السلام کی عبادت و ریاضت اور حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کو لے کر آئے اور کسی کہنے والے نے آپ کے بارے میں کیا خوب کہا:
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
حضرت رسول اللہ ﷺ کو دیگر انبیاء پر بہت سی وجوہ کی بنا پر فضیلت حاصل ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
1۔ عالمگیریت: حضرت رسول اللہ ﷺ سے قبل آنے والے انبیاء اپنے اپنے علاقوں کی اصلاح کے لیے آئے۔حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم ، حضرت ہود علیہ السلام قوم عاد ، حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود ، حضرت لوط علیہ السلام قوم سدوم ، شعیب علیہ السلام قوم مدین جبکہ حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون ، حضرت داؤد ، حضرت سلیمان، حضرت زکریا ، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام جیسے جلیل القدر انبیاء بنی اسرائیل کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول اللہ ﷺ کو پوری انسانیت کے لیے رسول اور ہادی بنایا۔
2۔دوام : حضرت رسول اللہ ﷺ سے پہلے آنے والے رسول محدود وقت کے لیے آتے رہے اور ایک رسول کے چلے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کسی اور رسول کو مبعوث فرماکر سابق شریعتوں کو منسوخ فرماتے رہے جبکہ رسول اللہ ﷺ کی رسالت دائمی ہے اور آپﷺ کے اسوۂ اور سیرت میں قیامت تک آنے والوںانسانوں کے لیے کامل رہنمائی کے تمام لوازمات موجود ہیں۔
3۔ نبی القبلتین: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد دو حصوں میں تقسیم ہوئی ۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد پر مشتمل حصہ ارض حجاز اور جزیرۃ العرب میں دعوتِ ابراہیمی کی پاسبانی کا فریضہ انجام دیتا رہا، دوسرا حصہ بنی اسرائیل پر مشتمل تھا جو بیت المقدس کے علاقے میں اللہ کے دین کی نشر واشاعت کا فریضہ نبھاتا رہا۔ اردن ، عراق اور فلسطین کے علاقے میں اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دینے والے بنی اسرائیل کے ہزاروں ابنیاء کی تبلیغی سرگرمیوں کا دائرہ کارانہی علاقوں تک محدود تھا۔ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے سفرِ اسراء (معراج) میں صحن بیت اللہ سے براق کے ذریعے صحن بیت المقدس میں منتقل فرمایا اور آپ کی اقتداء میں تمام انبیاء کو جمع فرماکر اس حقیقت کو واضح فرمادیا کہ نبی کریم ﷺ کسی ایک قبیلے کے امام اور مقتداء نہیں بلکہ ہدایت کے دونوں مراکزکے رہنما اور شریعت کے سر چشموں کے نگہبان بن کر آئے ہیں۔
4 ۔ ختم نبوت : حضرت رسول اللہ ﷺ سے پہلے مختلف انبیاء اللہ تعالیٰ کی توحیدکی دعوت لوگوںکے سامنے رکھتے رہے۔ایک نبی کے جانے کے بعد دوسرا نبی اللہ کے دین کی نشر واشاعت کا فریضہ انجام دیتا رہا؛چنا نچہ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد حضرت نوح علیہ السلام ، ان کے بعد حضرت ہود اوراسی طرح حضرت صالح ، حضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیل ، حضرت اسحاق ، حضرت یعقوب ، حضرت یوسف ، حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون ، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت زکریا ، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیھم السلام یکے بعد دیگرے اللہ تعالیٰ کے احکامات بنی نوع انسان کے سامنے رکھتے رہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہﷺ کو منصب نبوت و رسالت پر فائز فرمایا توآپ کے بعد نبوت کا دروازہ بھی ہمیشہ کے بند فرما دیا۔
سورہ احزاب کی آیت 40 میں اعلان ہوا: ''محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے رسو ل اورآخری نبی ہیں‘‘۔ حضرت رسول اللہ ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہر شخص کذاب اور ملعون ٹھہرا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ختم نبوت کے منصب جلیلہ پر فائز فرماکر آپ کو دیگر تمام انبیاء سے ممتاز فرما دیا۔
حضرت رسول اللہ ﷺ کو جو بلند رتبہ حاصل ہوا اس کا سب سے اہم تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوںکو آپ ﷺ کی سیرت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ قرآن مجید کی سورہ آل عمران کے مطابق جوکوئی بھی ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا وہ اللہ تعالیٰ کی محبتوں کا مرکز بن جائے گا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ جمیع انسانیت کو مقام رسالت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)