انسانوں کی اس دنیا میں سرگرمی کا بہت بڑا حصہ رزق کمانے کے لیے ہے۔ بالعموم انسان مال کے حصول کے لیے بہت تگ ودو کرتا ہے۔ اس مال کے حصول کا مقصد اپنے گھر بار کو سنوارنا‘ اچھا کھانا‘اچھا پہنا ، بیوی بچوں کی خواہشا ت کو پورا کرنا ‘ مستقبل میں آنے والے حادثات اور خوشیوں کے لمحات میں اس کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔ انسان کے دل میں مال کی محبت انتہائی شدید ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ عادیات کی آیت نمبر 8 میں واضح فرمایا کہ ''یہ مال کی محبت میں بھی بڑا سخت ہے۔‘‘ اس مال کی محبت انسان کو کئی مرتبہ خود غرضی، حرص اور لالچ کی طرف لے جاتی ہے اور وہ اپنے گردو نواح میں رہنے والے بے کس، یتامیٰ، مساکین اور مفلوک الحال لوگوں کی ضروریات کو کلی طور پر نظر انداز کر دیتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی کتاب حمید میں جہاں پر انسانوں کو نماز قائم کرنے، ذکر اذکار کرنے، روزے رکھنے اور حج کرنے کا حکم دیا وہیں پر اس مال جس کی محبت انسان کے دل میں انتہائی شدید ہے اس کے ایک حصہ کو بھی اپنے راستے میں خرچ کرنے کی تلقین کی ہے۔ ہر صاحب نصاب مسلمان پر سال میں ایک مرتبہ اپنے مال کا چالیسواں حصہ بطور زکوٰۃ دینا فرض ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ صدقات، خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کا عمل سارا سال جاری رہنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید کی مختلف سورتوں میں انفاق فی سبیل اللہ کے بہت سے فوائد بتلائے ہیں۔ سورت سباء کی آیت نمبر 39میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ''جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ اس کا بدلہ دے گا اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔‘‘یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں خرچ کردہ مال کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو اس مال کا بدل عطا فرماتے ہیںاور وہ بہترین رزق عطا فرمانے والے ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر274 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ''جو لوگ اپنے مالوںکو رات دن چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس اجر ہے اور نہ انہیں خوف ہے اور نہ غم۔ ‘‘گویا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں مال کو خرچ کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ انسان کی بے قراری اور جملہ غموں کوبھی دور فرما دیتے ہیں ۔اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ کے نتائج کے حوالے سے سورہ بقرہ کی آیت نمبر261 میں ارشاد فرمایا کہ ''جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جیسے چاہے بڑھا چڑھادے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں پر انفاق فی سبیل اللہ کے فوائد کا ذکر کیا وہیں پر اپنی کتاب حمید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ کے آداب کا بھی ذکر کیا۔ انفاق فی سبیل اللہ کا پہلا ادب یہ ہے کہ انسان اپنا مال خرچ کرنے کے بعد نہ تو احسان جتلائے اور نہ کسی کو ایذا دے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر262 میں ارشاد فرماتے ہیں ''جو لوگ اپنا مال اللہ تبارک وتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتلاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسا صدقہ جس کے بعد کسی کو تکلیف دی جائے اس سے بہتر نرم گفتگو اورعفو ودرگزر کو قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر63 2میں ارشاد فرماتے ہیں'' نرم بات کہنا اور معاف کر دینا اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد ایذا رسانی ہو اور اللہ بے نیاز اور بردباد ہے۔‘‘ ایسے لوگ جو اپنی خیرات کے بعد احسان جتلاتے ہیں ایسے لوگوں کے صدقات اللہ تبارک وتعالیٰ باطل فرما دیتے ہیں۔ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر264 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں '' اے ایمان والو اپنی خیرات کو احسان جتلا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو۔ ‘‘
انفاق فی سبیل اللہ کا دوسرا ادب یہ ہے کہ اپنے مال کو خالصتاً اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضاکے لیے خرچ کیا جائے اور اس میں کسی قسم کادکھلاوا نہ ہو۔ حدیث پاک میں قیامت کے دن کے حوالے سے تین لوگوں کا ذکر آیا ہے کہ جنہیں ان کے اچھے اعمال کے باوجود تباہی اور ہلاکت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان میں سے ایک سخی، ایک عالم اور ایک مجاہد ہو گا۔ لیکن چونکہ انہوں نے یہ کام دکھلاوے کے لیے کیے ہوں گے اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو اجروثواب سے بہرہ ور کرنے کی بجائے ناکام اور نامراد کر دے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر264 میںبھی ارشاد فرمایا کہ'' وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھلاوے کے لیے خرچ کرے اور نہ اللہ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر۔ اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے ‘ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کافروں کی قوم کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔‘‘
انفاق فی سبیل اللہ کے اداب میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انسان جب اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں اپنے مال کو خرچ کرے تو اس کے دل میں کسی قسم کا بخل اور ملال نہیں ہونا چاہیے اور اس کو دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ اپنے مال کو خرچ کرنا چاہیے۔ ایسے شخص کے اجروثواب کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر265 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ''ایسے لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو اور زور دار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دوگنا لائے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔ ‘‘
انفاق فی سبیل اللہ کے اداب میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اپنے مال کے اچھے حصے کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر267 میں ارشاد فرماتے ہیں '' اے ایمان والو اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو۔ ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا جسے تم خود لینے والے نہیں ہاں اگر آنکھیں بند کر لو تو اور بات ہے اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بے پروا اور خوبیوں والا ہے۔ ‘‘اس حقیقت کو اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر92 میں یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ ''جب تک تم اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے اور تم جو خرچ کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے۔ ‘‘عام طور پر انفاق فی سبیل اللہ سے انسان کو روکنے کے لیے شیطان اس کے ذہن میں فقیری اور غربت کے خدشات ڈالتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کلام حمید میں ارشاد فرماتے ہیں ''شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ وسعت والا اور علم والا ہے۔ ‘‘
اپنی محبوب چیزوں کو خرچ کرتے ہوئے انسان کے ذہن میں یہ بات بھی ہونی چاہیے کہ انسان جو کچھ بھی خرچ کر رہا ہے اس کا علم اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کو ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر270 میں ارشاد فرماتے ہیں'' تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے۔ ‘‘انفاق فی سبیل ا للہ کے آداب میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس کا ایک حصہ پوشیدہ طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا جائے۔ اگرچہ شریعت میں اعلانیہ طور پر انفاق فی سبیل اللہ کرنے کی گنجائش بھی موجود ہے لیکن پوشیدہ انفاق کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی اور انسان کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر271 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اگر تم صدقے خیرات کو ظاہر کرو تو وہ بھی اچھا ہے اور اگر تم اسے پوشیدہ مسکینوں کو دے دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اللہ تبارک وتعالیٰ تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور اللہ تبارک وتعالیٰ تمہارے اعمال کی خبر رکھنے والا ہے۔ ‘‘انفاق فی سبیل اللہ کے فوائد اور ثمرات کو حاصل کرنے کے لیے اُس کے آداب کو بجالانا بھی ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں انفاق فی سبیل اللہ کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!