شیخ سعدی شیرازی 589ھ کو شیراز میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا نام شرف الدین اور والد کا نام مصلح الدین تھا۔ آپ اپنے لقب اور تخلص سے سعدی کے نام سے مشہور ہوئے ۔ آپ کے والد نیک اورمتقی شخص تھے۔ شیخ سعدی شیرازی ابھی کم سن ہی تھے کہ آپ کے والدکا انتقال ہو گیا۔ شیخ سعدی نے اپنی ابتدائی تعلیم شیراز میں حاصل کی۔ بعدازاں مزید تعلیم کے حصول کے لیے بغداد چلے گئے ۔ شیخ سعدی کو عبادت اور زہد سے خصوصی لگاؤ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کم سنی سے یاد الٰہی میں مشغول رہنے لگے۔ شیخ سعدی کو سیروسیاحت کا بھی شوق تھا ۔ آپ نے اپنی زندگی میں کئی علاقوں کا سفر کیا ۔ آپ نے بغداد کی شان وشوکت بھی دیکھی اور پھر چنگیز خان اور ہلاکو خان کو بغداد تباہ کرتے بھی دیکھا ۔ آپ نے اپنی زندگی کے تیس برس سیروسیاحت میں بسر کئے۔ شیخ سعدی شیرازی نے نصیحت آموز حکایات پر مشتمل کتابیںبوستان اور گلستان بھی تحریر کیں۔ جن میں آپ نے مختلف حکایات اور دوران سفر پیش آنے والے واقعات نہایت خوش اسلوبی سے بیان کیے۔ آپ نے قرآن مجید کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا ۔ آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام شیراز ہی میں بسر کیے اور 691 ہجری کو اس جہان ِ فانی سے کوچ کر گئے۔ شیخ سعدی کی حکایات میں انسانوں کے فائدے والی بہت سی نصیحت آموز باتیں مذکور ہیں۔ کچھ عرصہ قبل آپ کی کتابوں میں سے منتخب حکایات کو اردو زبان میں مرتب کیا گیا۔ یہ حکایات یقینا انسان کی فکر اور ذہن کو جلا بخشتی ہیں۔ بعض حکایات کا تعلق حکمرانوں کے انداز سیاست اور ان کی ذمہ داریوں سے ہے اور بعض ایسی حکایات انسان کے توکل اور ایمان میں اضافہ کرنے کا باعث ہیں بعض حکایات کو میں قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں:
شیخ سعدی ایک حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ دمشق میں سخت قحط پڑ گیا اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ٹڈیاںسبزیوں کو کھا گئیں اور انسان ٹڈیاں کھا گئے۔ بھوک کی شدت سے انسانوں کی بڑی تعداد ہلاک ہو گئی۔ ایک روز میری ملاقات ایسے شخص سے ہوئی جو بہت مالدار تھا۔ میں نے اس شخص کو نہایت پریشانی کے عالم میں دیکھا جیسا کہ شہر کے مساکین کی حالت ہوتی ہے میں نے اس سے حال احوال دریافت کیا تو وہ کہنے لگا شیخ سعدی! کیا تم نہیں جانتے اس وقت قحط سے اللہ کی مخلوق برباد ہو گئی ہے ۔ میں نے کہا مجھے اس کا علم ہے لیکن تم پر قحط کا کیا اثر ہے تم اللہ کے فضل سے مالدار ہو اور کسی بھی شے کا حصول تمہارے لیے نا ممکن نہیں؟ میری بات سن کر اس شخص نے آہ بھری اور کہنے لگا شیخ سعدی! ایک ایسے شخص کے لیے جو حساس ہو کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے اردگرد سے بے خبر ہو جائے اور لوگوں کو بھول کر صرف اپنی ذات کی فکر کرے۔ کوئی شریف النفس کسی شخص کو دریا میں ڈوبتا دیکھ کر ساحل پر مطمئن کیسے کھڑا رہ سکتا ہے۔ بے شک مجھے بھوک اور پیاس کی تنگی محسوس نہیں ہو رہی لیکن مجھے اپنے اردگرد لوگوں کے غم نے ہلاک کر دیا ہے۔ اگر کسی کا کوئی عزیز قید کر دیا جائے تو کیا وہ آرام اور سکون سے رہ سکتا ہے؟
یہ عمدہ حکایت یقینا ہمارے معاشرے کے متمول لوگوں کے لیے باعث نصیحت ہے۔ جولوگوں کے غم اور افکار سے بے نیاز ہو کر صرف اپنی ذات پر ہی اپنی توجہ کو مرتکز کیے ہوئے ہیں۔ شیخ سعدی نے کامیاب حکمرانوں کے واقعات بیان کرتے ہوئے سلطان محمود غزنوی کا بھی ذکر کیا۔ شیخ سعدی بیان کرتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی کے درباری اس پر حیران ہوتے تھے کہ وہ اپنے غلام احمد ایاز پر اتنا مہربان کیوں ہے ۔ ان درباریوں کو ایاز میں کوئی ایسی خوبی نظر نہ آتی جو اسے ان سے ممتاز کرتی ہو۔ سلطان محمود غزنوی کو جب اپنے درباریوں کی حیرانی کا علم ہوا تو اس نے سمجھا کہ کوئی مناسب وقت آنے پر میں ان کی آزمائش کروں گا اور ان کے اعتراض کا انہیں جواب دوں گا۔ کچھ دنوں کے بعدایک ایسا موقعہ آن پہنچا۔ ایک سفر کے دوران قیمتی سازو سامان سے لدا ہوا ایک اونٹ اچھلنے کی وجہ سے گر پڑا اور اس پر موجود سارا سامان بکھر گیا ۔ سلطان محمود غزنوی نے اپنے درباریوں کو حکم دیا کہ وہ سامان اکٹھا کریں اورجو چیز جس درباری کے ہاتھ لگ گئی اس کی ہوگی۔ سلطان محمود غزنوی کا حکم سن کر تمام درباری سامان اٹھانے میں مشغول ہو گئے لیکن ایاز اس وقت سلطان محمود غزنوی کے ساتھ ہی کھڑا رہا۔ سلطان محمود غزنوی نے کہا احمد ایاز تمہارے ہاتھ کیا لگا؟ احمد ایاز کہنے لگا میں آپ کے ہمراہ تھا۔ سلطان محمود غزنوی نے درباریوں کو مخاطب ہو کر کہا‘ ایاز کی یہی خوبی ہے جسے وہ تم سے ممتاز کرتی ہے۔ اس حکایت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عقل مند سردار اور بادشاہ اپنی رفاقت کے لیے ان لوگوں کو چنتا ہے جو صحیح معنوں میں اس کے وفادار ہوتے ہیں اور یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ بادشاہ کے رفقاء اور سیاسی قائدین کے قریبی ساتھیوں کو لالچ اور مفاد کے لیے اپنے قائد کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اگر ہم آج کے سیاسی کلچر پر غور کریں تو ہمیں اس سے معاملہ بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ عام طور پر سیاسی زعماء اور قائدین ایسے لوگوں کو اپنے قریب کرتے ہیں جو ان کی بڑھ چڑھ کر خوشامد کرنے والے ہوں اور مشیروں کا معاملہ بھی یہی ہے کہ جب ان کے قائد یا ان کی جماعت پر کڑا وقت آتا ہے یا انہیں کہیں سے مفاد ملتا نظر آتا ہے تو اپنے قائد کا ساتھ دینے کی بجائے بے وفائی کے راستے پر چل نکلتے ہیں۔
شیخ سعدی نے حکمرانوں کی غفلت کے انجام کے حوالے سے مشہور عادل بادشاہ نوشیرواں کا بھی ایک واقعہ نقل کیا ۔ شیخ سعدی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ شکار کے دوران نوشیرواں نے نوکر کو نمک لینے قریبی ہی گاؤں روانہ کیا اور تاکید کی کہ پیسوں کے بغیر نمک لے کر نہ آئے۔ نوشیرواں کے مشیروں نے کہا کہ نمک کی تھوڑی سی مقدار چاہیے اسے بغیر پیسوں کے لانے میں آخر کیا حرج ہے؟ نوشیرواں نے کہا کہ جب ظلم کی بنیاد دنیا میں رکھی گئی تو وہ معمولی تھا پھر جو بھی آتا گیا اس میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ اگر بادشاہ عوام کے باغ میں سے ایک سیب کھائے گا تو اس کے نوکر پورے باغ کو اُجاڑ دیں گے ۔ اگر بادشاہ پانچ انڈوں کے ظلم کو جائز جانے گا تو اس کے سپاہی ہزاروں مرغوں کوسیخ پر چڑھا دیںگے۔ اس حکایت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حکمرانوں کے کردار اور افعال کا عوام الناس پر بڑا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے اگر حکمران بدیانت ہوں تو عوام ان سے بڑھ کر بدیانتی کرتے ہیں۔ اور اگر حکمران اللہ تبارک وتعالیٰ کے خوف اور خشیت سے معمور ہوںتو عوام الناس میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت پیدا ہو جاتی ہے۔
شیخ سعدی نے عوامی اصلاح کے لیے بھی بڑے خوبصورت واقعات نقل کیے۔ جن میں سے دو واقعات درجہ ذیل ہیں:
شیخ سعدی بیان کرتے ہیں کہ ایک نوجوان بے حد حسین وجمیل تھا اور نیک تھا۔ وہ نوجوان علم کی دولت سے بھی مالا مال تھا جب بھی کسی موضوع پرگفتگو کرتا لوگ اس کی جانب متوجہ ہو جاتے اور اس کے فیصلوں کی قدر کی جاتی تھی ۔ ان تمام خوبیوں کے باوصف اس میں یہ عیب تھاکہ وہ الفاظ کا صحیح تلفظ ادا کرنے کی قدرت نہ رکھتا تھا۔ایک روز ایک بزرگ کی محفل میںاس نوجوان کا ذکر ہوا تو میں نے اس نوجوان کی کمزوری کا ذکرکرتے ہوئے کہا اس کی گفتگو میں نقص شاید اس لیے ہے کہ اس کے سامنے کے دانت صحیح نہیں۔ میری بات سننے کے بعد اس بزرگ نے ناراض ہوتے ہوئے کہاکہ مجھے حیرانگی ہوتی کہ اتنی خوبیاں دیکھنے کے بعد بھی تم اس نوجوان کے معمولی عیب پر نظر رکھے ہوئے ہو۔ کیا یہ مقام افسوس نہیں کہ مور کو دیکھنے والے کی نظر اس کے بد نما پیروں پر ہی مرتکز رہے۔ بہتر تو یہ ہے انسان ہنر اور خوبیاں دوسروں کی ذات میں تلاش کرے اورعیب اپنی ذات میں۔ جس کا دل میلا ہو اسے ہر چیز میلی نظر آتی ہے۔ جس کا دل روشن ہو وہ ہمیشہ روشن چیزوں پر نظر رکھتا ہے۔
شیخ سعدی نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر توکل کو اجاگر کرنے کے لیے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک غریب شخص کے بچے کے دانت نکلنا شروع ہو گئے تو وہ پریشان ہو گیا اور اس نے بچے کے کھانے پینے کے متعلق سوچنا شروع کر دیا۔ مگر اسے کچھ سمجھ نہ آیا اس نے اپنی بیوی سے اس معاملے میں مشورہ کیا تو اس نے نہایت پر اعتماد لہجے میں کہا کہ تم اس کی فکر کیوں کرتے ہو اگر تم اس کے کھانے پینے کے ذمے دار ہو گے تو تم اسے مار دو گے۔ جس نے اسے دانت عطا کیے ہیں وہ اس کے کھانے پینے کا بھی یقینا بندوبست کرے گا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ جب کوئی شخص غلام خریدتا ہے تو اس کے کھانے پینے کا بھی بندوبست کرتا ہے ۔ کیا تم اللہ عزوجل پر اتنا بھی بھروسہ نہیں رکھتے کہ جتنا ایک غلام کو اپنے آقا پر ہوتا ہے۔
شیخ سعدی کی اور بھی بہت سی حکایات کتابوں میں مذکور ہیں لیکن میں نے چند حکایات کو فائدے کے لیے قارئین کی نذر کیا ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے حکمرانوں اور عوام کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین