چند روز قبل پی آئی اے کا طیارہ چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے کریش ہوگیا جس کے نتیجے میں 47 مسافر جاں بحق ہو گئے ۔ اس واقعے سے پورے ملک میں تشویش اور کرب کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ہرشخص نے اس واقعے کا گہرا صدمہ اور رنج محسوس کیا۔ جاں بحق ہونے والے مسافروں کے لواحقین کے ساتھ ساتھ عام افراد بھی اس واقعے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ دو سال قبل دسمبر ہی کے مہینے میں پشاور میں آرمی پبلک سکول میں ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں درجنوں معصوم بچوں کو لہو میں نہلادیاگیا۔ اس واقعے پر بھی پوری قوم نے زبردست دکھ اور کرب محسوس کیا۔ ان حادثات سے حاصل ہونے والی نصیحتوں میں سے سب سے بڑی نصیحت یہ ہے کہ موت برحق ہے۔ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنے قریبی عزیز واقارب کو مرتا ہوا دیکھتا ہے۔ کئی لوگوں نے اپنے والدین کے جنازوں کو کندھا دیا اور کئی لوگ جن کے والدین حیات ہیں وہ اپنے دادا، دادی یا نانا ، نانی کو اپنی آنکھوں کے سامنے دنیا چھوڑتے دیکھ چکے ہیں۔ یہ آئے دن کے واقعات بنیادی طورپر انسان کی آنکھوں کو کھولنے کے لیے کافی ہیں لیکن یہ مقام ِتاسف ہے انسان لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھ کر بھی یہ گمان کرتاہے کہ شاید وہ کبھی بھی نہیں مرے گا۔ دنیا کی زندگی کی رنگینیاں اور رونقیں اس کو اپنی طرف مائل کئے رکھتی ہیں اور وہ ان رنگینیوں ، رونقوں، دوستوں کی مجلسوں ، بیوی بچوں کی محفلوںمیں وقت گزارتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کر بیٹھتا ہے کہ ایک دن اسے بھی موت کا جام پینا پڑے گا ۔
تمام مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان موت کے مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ۔ عقائد، معاملات،معاشرت اور طرز زندگی سے متعلقہ بہت سے معاملات میںمختلف مذاہب کے پیروکاروں کی آراء ہمیشہ سے مختلف رہی ہیں لیکن موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں جمیع انسانیت متفق ہے۔ انسانوں کاایک چھوٹا ساگروہ دہریوں پر مشتمل ہے۔ دہریے کارخانہ ٔقدرت کو خودکار سمجھتے ہیں اور ان کا یہ خیالِ خام ہے کہ اس کارخانہ قدرت کو چلانے والی ذات (نعوذباللہ) کوئی بھی نہیں۔ ان کے بالمقابل مختلف مذاہب کے پیرو کار رب تعالیٰ اور خالق کائنات کی ہستی کو مانتے ہیں۔ دہریوں اور مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان جس حقیقت پر اختلاف نہیں وہ'' موت ‘‘ہی ہے۔
موت اتنی بڑی حقیقت ہے کہ اس کا انکار کرنا، اس سے آنکھیں چرانا اور بچ نکلنا ناممکن ہے۔ لیکن اتنی بڑی حقیقت ہونے کے باوجود جس قدر نظر انداز موت اور اس کے بعد والی زندگی کو کیا جاتا ہے‘ اتنی لاپروائی کسی اور معاملے میں نہیں برتی جاتی۔ موت سے قبل اس دنیاوی زندگی میں آنے والے مستقبل کے ایام کی جزئیات کے حوالے سے بھی مکمل پلاننگ اور تیاری کی جاتی ہے۔ اپنے لباس ، وضع قطع، تعلیم، کاروبار، معیشت اور بیوی بچوں کے مستقبل کے حوالے سے بہت زیادہ غور وفکر کیا جاتا ہے لیکن موت جیسی اٹل حقیقت اور اس کے بعد آنے والی زندگی کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں مختلف مقامات پر موت کے اٹل ہونے کا ذکر کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 78میں ارشاد فرماتے ہیںکہ ''جہاں پر بھی تم ہو گے تمہیں موت پا لے گی اور اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہو‘‘ سورہ رحمن کی آیت نمبر 26 اور 27 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشادفرماتے ہیںکہ ''ہر ایک جو اس( زمین )پرہے فنا ہونے والا ہے اور باقی آپ کے رب کا چہرہ رہے گا۔ ‘‘ اسی طرح سورہ قصص کی آیت نمبر88 میں اللہ تبارک وتعالیٰ اعلان فرماتے ہیں ''ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے مگر اس کا چہرہ(باقی رہے گا)۔‘‘ جس طرح موت ایک اٹل حقیقت ہے اسی طرح موت کا وقت بھی مقرر ہے ۔جب وہ وقت آجاتا ہے تو نہ ایک ساعت آگے ہو سکتی ہے نہ ہی ایک ساعت پیچھے۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 34 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اورہر گروہ کے لیے ایک وقت (مقرر )ہے اور پھر جب آ جاتا ہے ان کا وقت(تو نہ پیچھے ہوتا ہے ایک لحظہ کے لیے اور نہ وہ آگے ہوتا ہے) ‘‘ موت کے بعد آنے والی زندگی میں کامیاب ہونے والے لوگ ہی حقیقی معنوں میں کامیاب اور کامران ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر85میں ارشاد فرمایا '' ہر شخص کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور بے شک تمہیں پورا پورا دیا جائے گا تمہارے اعمال کا بدلہ قیامت کے دن۔ پس جو بچا لیا گیا جہنم کی آگ سے اور وہ داخل کر دیا گیا جنت میں تو یقینا وہ کامیاب ہو گیااور نہ ہی دنیاوی زندگی مگر دھوکے کا سامان۔‘‘ قرآن مجید نے فکر آخرت کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہنم کی ہولناکیوں کا ذکر کیا وہاں پر کھلائے جانے والے کھانے یعنی ضریع کی جھاڑی اور زقوم کے درخت کا ذکر کیا ، کھولتے ہوئے پانی کاذکر کیا، جہنمیوں کی چیخ وپکار کا ذکر کیا، جہنم کی گہرائی اور تنگ وادی کا ذکر کیا، جہنم میں موجو د پہنائی جانے والی زنجیروں کا ذکر کیا، مجرموں کے جلتے ہوئے گوشت کا ذکر کیا اور ان کی آہ وکراہ ، اذیتوں اور پکار کا ذکر کیا‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں جنت کا ذکر بھی بڑی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ محمد ﷺمیں جنت میں بہنے والی شراب، دودھ، پانی اور شہد کی نہروں کا ذکر کیا کہ جس کے پانی میں باسی پن نہیں ہو گا، جس کے دودھ کا ذائقہ متغیر نہیں ہو گا، جس کی شراب انسان کو لذت اور سکون عطا کرے گی اور جس کا شہد نفیس اورصاف ہو گا۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ رحمن، سورہ واقعہ، سورہ دھر اور سورہ نباء میں جنت کی نعمتوں کی بڑی خوبصورت انداز میں منظر کشی کی ہے۔ جنت کے بلندوبالا محلات، جنت میں رہنے والی حوروں اور جنت کے خدام کا ذکر بڑی وضاحت سے ان سورتوں میں موجود ہے۔ سورہ دھر میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں جنت کے چشمے کا ذکر کیا وہاں پر اس کے موسم کا بھی ذکر کیا کہ وہاں پر نہ سورج کی تپش ہوگی اور نہ ہی چبھنے والی ٹھنڈک۔اس کے ساتھ ساتھ جنت کی بادشاہت اور وہ نعمتیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ جنتیوں کو عطا فرمائیں گے ان کا ذکر بھی بڑی وضاحت کے ساتھ کیا گیا ہے ۔
جنت کو پانے کے لیے انسانوں کو اسی طرح جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے جس طرح وہ مادی نعمتوں کے حصول کے لیے کوششیں کرتا ہے۔ اسی طرح جہنم سے بچنے کے لیے بھی انسان کو اسی طرح محنت اور جستجو کرنے کی ضرورت ہے جس طرح وہ اس دنیا میں آنے والی تکالیف اور آزمائشوں سے بچنے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ جنت کی نعمتوں کے حصول اور جہنم کی تکالیف سے بچنے کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگ یقینا عقل مند ہیں۔ اس کے بالمقابل وہ لوگ جو ان حقائق کو اہمیت نہیں دیتے یقینا ان کو خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں بہت سے ایسے لوگوں کا ذکر کیا جو دنیا میں بظاہر بڑے مقام کے باوجود جہنمی ٹھہرے۔ فرعون، نمرود، ہامان، شداد اور ابولہب دنیا میں کروفر کی زندگی گزارنے کے بعد اخروی اعتبار سے ناکام اور نامراد ٹھہرے۔ان تمام لوگوں کے عہدے‘ مناصب اور چودھراہٹ ان کے کسی کام نہیں آئے۔ اس کے بالمقابل فرعون کی اہلیہ حضرت آسیہ، حضرت رسول اللہ ﷺکے اُمتی حضرت بلال، حضرت زنیرہ، حضرت سمیہ اور ان جیسی دیگر بہت سی ہستیاں دنیا میں اذیتیں سہنے کے باوجود جنتی ٹھہریں۔ موت کی نصیحت یقینا ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن اس نصیحت کو سمجھنے کے لیے بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت کی بھی ضرورت ہے اور اس نصیحت کو پانے کے لیے سماعت کے ساتھ ساتھ غوروفکر کی ضرورت ہے۔ جس بندے نے اپنی بصیرت ، عقل اور دانائی کو استعمال کرتے ہوئے اس حقیقت کا ادراک کر لیا کامیابیاں اس کے قدم چومیں گی اور جس نے اس حقیقت کو فراموش کر دیا وہ ناکام و نامراد ٹھہرے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو موت اور اس کے بعد آنے والی زندگی کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !