انسانی معاشرے میں مختلف طرح کے تغیرات دیکھ کر انسان کے ذہن میں مختلف طرح کے خیالات اُبھرتے ہیں ۔ انسان ظلم کو دیکھ کر اور غربت ‘ افلاس اور غموں کود یکھ کر اسی طرح اپنی ذاتی زندگی میں صحت کو بیماری میں بدلتا دیکھ اور نفع کو نقصان میں تبدیل ہوتا دیکھ انسان کئی مرتبہ مایوسی کا شکار بھی ہوجاتا ہے۔ کلام حمید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کائنات میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ‘اس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت پنہاں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کئی مرتبہ ہم ان حکمتوں کو جاننے سے قاصر ہوجاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین پر فرعون کو ایک لمبا عرصہ اقتدار عطا کیا۔ اس اقتدار میں اہل دین کے لیے ایک آزمائش تھی اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک خاص وقت کے گزرنے کے بعد اس آزمائش کو مٹا دیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین پر اقتدار عطا فرمایا اور اس بات کو ثابت کیا جو زُہد‘ تقویٰ اور صبر کو اختیار کرتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے اجر کو ضائع نہیں فرماتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت نمبر 112میںایک بستی کا ذکر کیا‘ جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے نوازنے کے بعد اپنے عذاب کو مسلط کر دیا تھا۔اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: ''اور بیان کی اللہ نے مثال ایک بستی کی (جو) تھی ؛امن والی اطمینان والی آتا تھا اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے تو اس نے ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی‘ تو چکھایا (پہنایا) اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کا لباس اس وجہ سے جو وہ کرتے تھے۔‘‘
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ہود میں بہت سی اقوام کا ذکر کیا‘ جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنیں۔ ان کی تباہی اور ہلاکت کا سبب ان کے گناہ تھے؛ چنانچہ قوم نوح پر سیلاب ‘ قوم ہود پر آندھی‘قوم ثمود اور قوم مدین پر چنگھاڑ اور قوم لوط کو آسمان سے پتھروں کی بارش اس وجہ سے ہوئی کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کیا کرتے تھے۔ اس کے مدمقابل اصحاب الاخدود کو اُن کے ایمان کی وجہ سے آگ کی خندقوں میں پھینک دیا گیا۔ اس تکلیف سے گزرنے بعد ان سب کا مقدر جنت کے باغات کو بنا دیاگیا۔ گویا کہ بسا اوقات مجرموں کی بستیاں اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب کی زدّ میں آکر تباہ وبرباد ہو جاتی ہیں‘ جبکہ نیکو کاروں پر ظلم وجبر ان کی اخروی نجات اور بخشش کا سبب بن جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نیکو کاروں پر آنے والی آزمائش کا ذکر سورہ بقرہ کی آیت نمبر 155‘156میں یوں فرماتے ہیں: ''اور البتہ ضرور ہم آزمائیں گے‘ تمہیں کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مالوں میں اور جانوں میں کمی کرکے اور پھلوں میں (کمی کرکے) اور خوشخبری دے دیں صبر کرنے والوں کو۔ وہ لوگ جب پہنچتی ہے‘ انہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں‘ بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘
انسانی ذہن میں کئی مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی اور دین کے احکامات سے روگردانی کرنے والے والی بستیوںکی خوشحالی دیکھ کر مختلف طرح کے خیالات اُبھرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کے ان تخیلات کا سورہ زخرف کی آیت نمبر33 سے35 میں بڑے خوبصورت انداز میں جواب دیا: ''اور اگر (یہ خیال) نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک (ہی) اُمت ہو جائیں گے (تو) ضرور ہم بنا دیتے (ان) کے لیے جو رحمان کے ساتھ کفر کرتے ہیں‘ ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی اور سیڑھیاں (بھی )جن پر وہ اوپر چڑھتے ہیں‘ان کے گھروں کے دروازے اور تخت (بھی) جن پر وہ تکیہ لگاتے ہیں۔ (یہ سب کجھ چاندی کے بنا دیتے) اور سونے (کے) ۔اور نہیں ہے یہ سب کچھ ‘مگر دنیوی زندگی کا (عارضی) سامان اور آخرت (تو) آپ کے رب کے نزدیک متقی لوگوں کے لیے ہے۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں کئی جنگوں کے پس منظر میں یہ حکمت بھی بتلائی کہ اللہ تعالیٰ ان جنگوں کے نتیجے میں زمین سے فساد ختم کرتے ہیں؛ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 251میں ارشاد ہوا: ''اور اگر نہ ہٹاتا اللہ لوگوں کو (یعنی) ان کے بعض (شرپسندوں) کو بعض (صالح لوگوں) کے ذریعے (تو) یقینا زمین (کا نظام) بگڑ جاتا اور‘ لیکن اللہ فضل کرنے والا ہے‘ تمام جہان والوں پر۔‘‘معاشرے میں بہت سے نیکو کار لوگوں کو رزق کی کشادگی نہیں دی جاتی‘ جس پر انسان کئی مرتبہ حیران ہو جاتا ہے کہ یہ اللہ کی عبادت کرنے والا بندہ مادی نعمت سے کیوں محروم ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 27میں ارشاد فرمایا : ''اور اگر اللہ فراخ کر دیتا رزق کو اپنے بندوں کے لیے (تو) یقینا وہ سرکش ہو جاتے زمین میں اور‘ لیکن وہ اُتارتا ہے ایک اندازے کے ساتھ جتنا وہ چاہتا ہے ‘بے شک وہ اپنے بندوں سے بہت باخبر خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کی ملاقات کا ذکر کیا ۔ حضرت خضرعلیہ السلام‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے تکوینی امور کو انجام دیا کرتے تھے اور ان تمام امور کے پیچھے اللہ کی کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی تھی۔ یہ خوبصورت واقعہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی حکمتوں کو جاننے میں معاون ہے: ''تو ان دونوں (موسیٰ اور یوشع ) نے پایا ایک بندے (خضر) کو ہمارے بندوں میں سے ہم نے دی تھی اسے رحمت اپنی طرف سے اور ہم نے سکھایا اسے اپنے پاس سے ایک (خاص) علم۔ کہا اس سے موسیٰ نے کیا میں تیری پیروی کر سکتا ہوں‘ اس (شرط) پر کہ تو سکھائے مجھے اس سے جو تو سکھایا گیا ہے بھلائی۔ اس نے کہا بے شک تو ہرگز نہیں تو استطاعت رکھے گا میرے ساتھ صبر کی اور کیسے تو صبر کر سکے گا اس پر جو (کہ) نہیں تو نے احاطہ کیا اس کا علم کے لحاظ سے۔ (موسیٰ نے) کہا: عنقریب تو پائے گا‘ مجھے اگر اللہ نے چاہتا صبر کرنے والا اور میں نافرمانی نہیں کروں گا آپ کے کسی بھی حکم کی۔ (خضر نے) کہا‘ پھر اگر تو پیروی کرنا چاہتا ہے میری تو نہ سوال کرنا مجھ سے کسی چیز کے بارے میں یہاں تک کہ میں بیان کروں تیرے لیے اس کا ذکر‘ پھر وہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ دونوں سوار ہوئے کشتی میں (تو) اس نے شگاف کر دیا اس میں۔ (موسیٰ نے) کہا: کیا تو نے شگاف کر دیا ہے اس میں تاکہ تو غرق کر دے اس کے رہنے والوں (سواروں) کو بلاشبہ یقینا تو آیا ہے بڑے غلط کام کو۔ اس نے کہا کیا میں نے نہیں کہا تھا (کہ) بے شک تو ہرگز استطاعت نہیں رکھے گا میرے ساتھ صبر کی۔ (موسیٰ نے) کہا نہ تو مؤاخذہ کر میرا اس پر جو میں بھول گیا اور نہ تو ڈال مجھ پر میرے معاملے میں تنگی‘ تو وہ دونوں چل پڑے‘ یہاں تک کہ جب وہ دونوں ملے ایک لڑکے کو تو اس نے قتل کر دیا اسے (موسیٰ نے) کہا کیا تو نے قتل کر دیا ایک پاک (بے گناہ) جان کو بغیر کسی نفس کے بلاشبہ یقینا تو آیا ہے بہت برے کام کو۔ اس نے کہا: کیا نہیں میں نے کہا تھا تم سے (کہ) بے شک تو ہرگز استطاعت نہیں رکھے گا میرے ساتھ صبر کی۔ کہا (موسیٰ نے) اگر میں پوچھوں آپ سے کسی چیز کے بارے میں اس کے بعد تو نہ ساتھ رکھنا مجھے‘ یقینا تو پہنچ چکا ہے میری طرف سے عذر (قبول کرنے میں غایت) کو‘ پھر وہ دونوں چل پڑے‘ یہاں تک کہ جب وہ دونوں آئے ایک بستی والوں کے پاس‘ ان دونوں نے کھانا مانگا اس کے رہنے والوں سے تو انہوں نے انکار کر دیا کہ وہ مہمان نوازی کریں‘ ان دونوں کی‘ پھر ان دونوں نے پائی اس (بستی) میں ایک دیوار کہ وہ گراہی چاہتی تھی تو اس نے سیدھا کر دیا اس کو ‘(موسیٰ نے) کہا اگر آپ چاہتے آپ ضرور لے لیتے اس پر اجرت۔ اس نے کہا: یہ (وقت) ہے جدائی کا میرے درمیان اور تیرے درمیان عنقریب میں بتاؤں گا تجھے اس کی حقیقت جو (کہ) نہیں تو کر سکا اس پر صبر۔ رہی کشتی تو وہ چند مسکینوں کی تھی (جو) کام کرتے تھے سمندر میں تو میں نے ارادہ کیا کہ میں عیب دار کردوں اسے اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا (جو) لے لیتا تھا ہر کشتی زبردستی۔ اور رہا لڑکا تو اس کے ماں باپ دونوں مومن تھے تو ہم ڈرے کہ وہ پھنسا دے گا ان دونوں کو سرکشی اور کفر میں۔ تو ہم نے چاہا کہ بدلے میں دے ان دونوں کو ان دونوں کا رب اس سے بہتر پاکیزگی میں اور زیادہ قریب ہو شفقت میں‘اور رہی دیوار تو تھی وہ دو یتیم لڑکوں کی (اس) شہر میں اور اس کے نیچے خزانہ تھا اور ان دونوں کا ان دونوں کا باپ نیک تھا ۔ تو ارادہ کیا تیرے رب نے کہ وہ دونوں پہنچ جائیں اپنی جوانی کو اور وہ دونوں نکال لیں اپنا خزانہ (یہ) تیرے رب کی رحمت کی وجہ سے ہے اور نہیں کیا میں نے اسے (یعنی یہ سب کام) اپنی مرضی سے یہ حقیقت ہے (ان باتوں کی) جو نہیں تم کر سکے اس پر صبر۔‘‘
اس واقعے سے یہ سمجھناکچھ مشکل نہیں رہتا کہ دنیا میں ہونے والے تمام نقصانات اور پریشانیوں کے پس منظر میں حکیم ودانا پروردگار کی کوئی نہ کوئی حکمت پنہاں ہوتی ہے؛ چنانچہ انسان کو ہر نعمت پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ہر تکلیف پر صبر کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے ‘اسی طرح انسان کو اس حقیقت کو ضرور سمجھ لینا چاہیے کہ کائنات میں جو کچھ بھی ہو رہا‘ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کا کوئی امر اور کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان حقائق اور حکمتوں پر غور کرنے کے بعد اپنی تابعداری کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین )