اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو مختلف طرح کی نشانیاں دکھلائیں اور ان کو کئی ایسے معجزات عطا فرمائے‘ جن میں لوگوں کے لیے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے بڑی نشانیاں ہوتی تھیں؛ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 260میں ارشاد ہوا: ''اور جب ابراہیم نے کہا : اے میرے رب! تو دکھا مجھے کیسے تو زندہ کرے گا مُردوں کو۔ فرمایا: اور کیا نہیں تم ایمان رکھتے‘ کہا(ابراہیمؑ نے) نے: کیوں نہیں اور لیکن (میں دیکھنا اس لیے چاہتا ہوں) تاکہ مطمئن ہو جائے میرا دل ‘ فرمایا: (اچھا) تو لو چار پرندے پھر انہیں مانوس کر لو اپنے ساتھ پھر رکھ دو ہر پہاڑ پر ان سے (ایک ایک ) ٹکڑا پھر پکارو انہیں وہ آئیں گے‘ تیرے پاس دوڑتے ہوئے اور جان لو کہ بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘
اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام جب اپنے اہل خانہ کے ساتھ کوہ ِطور کے پاس سے گزرے اور آپ نے انگارہ لینے کی نیت سے کوہ ِ طور کی طرف پیش قدمی کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو اپنے سے ہم کلام ہونے کا شرف عطا فرمایا اور آپ کو معجزاتی اعصاء اور یدبیضاعطا فرمایا جو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اورآل فرعون کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نشانی تھی۔ نبی کریم ﷺ کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے اعجازات سے نوازا‘ جن کا ذکر کتب احادیث میں موجود ہے۔ ان تمام معجزات میں سے نزول قرآن کے بعد سب سے بڑا معجزہ معراج ہے۔ معراج کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ جناب ابو طالب اور حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے انتقال کے بعد نبی کریم؍ﷺ کی زندگی میںدکھ اور غم کی ایک کیفیت پیدا ہوئی۔ نبی کریمﷺ جب طائف کی وادی میں دعوت وتبلیغ کے لیے تشریف لے گئے طائف کے لوگوں نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا‘ وہ کسی بھی صورت قابل قبول نہ تھا۔ یہ صدمہ جناب ابو طالب اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ کی موجودگی میں مزید دُکھ اور کرب کا باعث تھا۔ ایسے عالم میں نبی کریم ﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے معراج کے معجزے سے نواز ادیا۔ جس کی تفصیلات مختلف کتب احادیث میں بیان ہوئی ہیں ‘جن کا خلاصہ درج ذیل ہیں:
بعض روایت کے مطابق ؛نبی کریمﷺ اُم ہانی کے گھر میں آرام فرما تھے جب کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد الحرام حطیم یا حجر کے مقام پر سوئے ہوئے تھے۔جبریل علیہ السلام نے آپﷺ کو جگایا اور آپ ﷺکو زمزم کے کنویں کے پاس لائے۔ یہاں جبرائیل علیہ السلام نے آپ ﷺکے گلوئے اطہر سے قلب اطہر کے نیچے تک سینہ چاک کیا اور سینے اور پیٹ کو زمزم کے پانی سے اپنے ہاتھ سے دھویا ‘ پھر آپ کے پاس سونے کا طشت لایا گیا ‘جس میں سونے کا ایک برتن ایمان و حکمت سے بھرا ہوا تھا۔ اس سے آپ کے سینے اور حلق کی رگوں کو سیا اور اسے برابر کر دیا۔
مسلم شریف میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''میرے سامنے براق لایا گیا اور وہ ایک جانور ہے سفید رنگ کا گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا اپنے سم وہاں رکھتا ہے‘ جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے۔میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس تک آیا۔ وہاں اس جانور کو حلقہ سے باندھ دیا‘ جس سے اور پیغمبر اپنے اپنے جانوروں کو باندھا کرتے تھے ‘پھر میں مسجد کے اندر گیا اور دو رکعتیں نماز پڑھیں۔صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم ‘حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام بیت المقدس میں موجود تھے۔ جب نماز کا وقت ہوا تو رسول کریمﷺ نے تمام انبیاء علیہما السلام کی امامت کروائی۔
اس کے بعد نبی کریمﷺ مسجد سے باہر نکلے تو جبریل علیہ السلام دو برتن لے کر آئے ایک میں شراب تھی اور ایک میں دودھ ‘ آپ ﷺ نے دودھ پسند کیا۔ جبریل علیہ السلام میرے ساتھ آسمان پر چڑھے تو فرشتوں سے دروازہ کھولنے کیلئے کہا۔ انہوں نے پوچھا کون ہے؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: جبریل ہے۔ انہوں نے کہا: تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے۔؟ جبریل علیہ السلام نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا: کیا بلائے گئے تھے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: ہاں بلائے گئے ہیں‘ پھر دروازہ کھولا گیا ہمارے لئے اور ہم نے آدم علیہ السلام کو دیکھا‘ انہوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے دعا کی بہتری کی‘ پھر جبریل علیہ السلام ہمارے ساتھ چڑھے دوسرے آسمان پر اور دروازہ کھلوایا‘ پھر دروازہ کھلا تو میں نے دونوں خالہ زاد بھائیوں‘ یعنی عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کو دیکھا ان دونوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے بہتری کی دعا کی ‘پھر جبریل علیہ السلام ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا‘ پھر دروازہ کھلا تو میں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا اللہ نے حسن (خوبصورتی) کا آدھا حصہ ان کو دیا تھا۔ انہوں نے مرحبا کہا مجھ کو اور نیک دعا کی‘ پھر جبریل علیہ السلام ہم کو لے کر چوتھے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا پھر دروازہ کھلا تو میں نے ادریس علیہ السلام کو دیکھا‘ انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے اچھی دعا دی‘پھر جبریل علیہ السلام ہمارے ساتھ پانچویں آسمان پر چڑھے۔ انہوں نے دروازہ کھلوایا۔ تو میں نے ہارون علیہ السلام کو دیکھا ‘انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے نیک دعا دی‘پھر جبریل علیہ السلام ہمارے ساتھ چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا ‘ پھر دروازہ کھلا تو میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا‘ انہوں نے کہا: مرحبا اور اچھی دعا دی مجھ کو‘ پھر جبریل علیہ السلام ہمارے ساتھ ساتویں آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا ‘پھر دروازہ کھلا تو میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا وہ تکیہ لگائے ہوئے تھے‘ اپنی پیٹھ کا بیت المعمور کی طرف اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں ‘جو پھر کبھی نہیں آتے ‘پھر جبریل علیہ السلام مجھ کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لے گئے۔ اس کے پتے اتنے بڑے تھے جیسے ہاتھی کے کان اور اس کے پیر ایک بڑے گھڑے جیسے تھے‘ پھر جب اس درخت کو اللہ کے حکم نے ڈھانکا تو اس کا حال ایسا ہو گیا کہ کوئی مخلوق اس کی خوبصورتی بیان نہیں کر سکتی‘ پھر اللہ تعالیٰ نے ڈالا میرے دل میں جو کچھ ڈالا اور پچاس نمازیں ہر رات اور دن میں مجھ پر فرض کیں‘ جب میں اترا اور موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا: تمہارے پروردگار نے کیا فرض کیا‘ تمہاری امت پر؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں فرض کیں۔ انہوں نے کہا: پھر لوٹ جاؤ اپنے پروردگار کے پاس اور تخفیف چاہو‘ کیونکہ تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی اور میں نے بنی اسرائیل کو آزمایا ہے اور ان کا امتحان لیا ہے۔ میں لوٹ گیا اپنے پروردگار کے پاس اور عرض کیا: اے پروردگار! تخفیف کر میری اُمت پر‘ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ میں لوٹ کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف کر دیں۔ انہوں نے کہا: تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی ‘تم پھر جاؤ اپنے رب کے پاس اور تخفیف کراؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اس طرح برابر اپنے پروردگار اور موسٰی علیہ السلام کے درمیان آتا جاتا رہا‘ یہاں تک کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد! وہ پانچ نمازیں ہیں‘ ہر دن اور ہر رات میں اور ہر ایک نماز میں دس نماز کا ثواب ہے‘ تو وہی پچاس نمازیں ہوئیں۔‘‘
جب نبی کریم ﷺ سفر معراج سے تشریف لائے‘ تو آپﷺ نے اہل مکہ کو اس سفر سے آگاہ کیا تو اہل مکہ نے آپ ﷺکی تکذیب کی صحیح مسلم میں ایک حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا : '' میں نے اپنے آپ کو حجر ( حطیم ) میں دیکھا ‘ قریش مجھ سے میرے رات کے سفر کے بارے میں سوال کر رہے تھے ‘ انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزوں کے بارے میں پوچھا ‘جو میں نے غور سے نہ دیکھی تھیں ‘ میں اس قدر پریشانی میں مبتلا ہواکہ کبھی اتنا پریشان نہ ہوا تھا ‘ آپ نے فرمایا : ''اس پر اللہ تعالیٰ نے اس ( بیت المقدس ) اٹھا کر میرے سامنے کر دیا ‘میں اس کی طرف دیکھ رہاتھا ‘ وہ مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی پوچھتے ‘ میں انہیں بتا دیتا ۔ ‘ ‘
سفر معراج کے حوالے سے ابو جہل نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو جب نبی کریمﷺ کے سفر سے آگاہ کیاتو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے فوراً سے پہلے آپ ﷺ کے سفر کی تصدیق کی ۔ نبی کریمﷺ کے اس غیر معمولی سفر معراج سے کئی اہم اسباق حاصل ہوتے ہیں ‘ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں :
1۔ نماز کی اہمیت: باقی تمام ارکان اسلام اور عبادات کو زمین پر اتارا گیا۔ جب کہ نماز کی فرضیت آسمان کی بلندیوں پر ہوئی۔ معراج کے واقعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے۔
2۔ راہ راست اور رزق طیب کی اہمیت: نبی کریمﷺ نے سفر معراج میں شراب کے جام کو ٹھکرا کر دودھ کو اختیار کرکے راہِ راست اور رزق ِطیب کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
3۔ مقام ِمصطفی : نبی کریمﷺ کا مقام اور رفعت بھی معراج کے اسباق میں سے ایک اہم سبق ہے اور آپ ﷺکے مقام کی معرفت حاصل کرنے کے بعد تمام مسلمانوں کو آپﷺ سے والہانہ محبت کرنی چاہیے اور غیر مشروط اطاعت کا جذبہ اپنے دل میں پیدا کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو سفر معراج کے اسباق ذہن نشین کرنے اورا ن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین