رمضان المبارک کا مہینہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ ہر عاقل ‘بالغ اور تندرست مسلمان پر اس مہینے کے روزے رکھنا فرض ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی ماہ مبارک میں لوح ِمحفوظ سے آسمانِ دنیا پر قرآن کریم کانزول فرما دیا ۔ ان حقائق کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 185 میں یوں فرماتے ہیں''رمضان کا مہینہ وہ ہے کہ نازل کیا گیا ہے اس میں قرآن (جو) ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور روشن دلائل ہیں ہدایت کے اور (حق وباطل کے درمیان) فرق کرنے کے پس جو موجود ہو تم میں سے کوئی (اس) مہینے میں تو اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے اس (مہینے)کے اور جو بیمار ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرے دوسرے دنوں سے ۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تمہارے ساتھ آسانی کرنا اور وہ نہیں چاہتا تمہارے ساتھ سختی کرنا اور تاکہ تم پورا کر لو گنتی (تعداد) کو اور تاکہ تم بڑائی بیان کرو اللہ کی اس (احسان) پر جو اس نے ہدایت دی تم کو اور (اس لیے بھی) تاکہ تم شکر ادا کرو‘‘۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس مہینے کی جس رات میں قرآن مجید کو لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر منتقل فرمایا اسے ایک ہزار مہینے کے برابر قرار دے دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ قدر میں ارشاد فرماتے ہیں ''بے شک ہم نے نازل کیا ہے اس (قرآن ) کو شب قدر میں۔ اور آپ کیا جانیں کیا ہے شب قدر۔ شب قدر (کی عبادت) بہتر ہے ہزار مہینے (کی عبادت) سے۔ فرشتے اور روح الامین (جبریل علیہ السلام)اتر تے ہیں اس میں اپنے رب کے حکم سے ہر کام سے۔ سلامتی (ہی سلامتی) ہے وہ (رات) فجر طلوع ہونے تک‘‘۔ سورہ بقرہ کی آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ روزہ کی فرضیت کا بنیادی مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔
انسان ان اعمال کے ارتکاب سے گناہ گار بنتا ہے جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی ہو۔ جب انسان متقی بن جاتا ہے تو اس کا دل اور تمام جوارح اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کے تابع ہو جاتے ہیں۔ روزے میں چند گھنٹوں کے لیے بھوک اور پیاس کو برداشت کیا جاتا اور شریک زندگی سے اجتناب کیا جاتا ہے اوراس برداشت اور صبر کے پسِ منظر میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے ان تمام حلال کاموں کو عارضی طور پر چھوڑ دیا جائے گا۔ اگر اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے چند گھنٹوں کے لیے حلال کاموں سے اجتناب کیا جاسکتا ہے تو انسان کو اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جن چیزوں کو ہمیشہ کے لیے حرام قرار دے دیا ہے ان سے بھی مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر189میں اس حقیقت کا ذکر یوں فرماتے ہیں ''اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاجاؤ‘‘۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر ان کامیابیوں کا ذکر کیا جو انسان کو تقویٰ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے بیان کردہ چند کامیابیاں درج ذیل ہیں:
1: تنگی سے نجات اور بلا حساب رزق کا حصول : قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص متقی بن جاتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی تنگیوں کو دور فرما دیتے ہیں اور اس کو رزق وہاں سے دیتے ہیں جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت نمبر23 میں ارشاد ہوا''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اُس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ۔ اور وہ رزق دیتا ہے اُسے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرتا‘‘۔
2: معاملات میں آسانی: تمام انسان مختلف طرح کے معاملات میں مصروف رہتے ہیں‘جو شخص تقویٰ کو اختیار کر لیتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے جملہ معاملات کو آسان بنا دیتے ہیں؛ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت نمبر4 میں ارشاد ہوا:''اور جو اللہ سے ڈرے گا (تو) وہ کر دے گا اُس کے لیے اس کے کام میں آسانی ‘‘۔
3: گناہوں کی معافی اور اجر کا دو چندہونا: بہت سے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس لیے یہ کام نہیں کر پاتے کہ وہ ماضی کے گناہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تصور کرتے ہیں کہ شاید ان کے گناہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کے راستے میں رکاوٹ نہ بن جائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس وہم کا بڑے ہی خوبصورت انداز میں ازالہ فرما دیا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ طلاق کی آیت نمبر5 میں اس امر کا اعلان فرما دیا :''اور جو اللہ سے ڈرے گا (تو) وہ دور کر دے گا اُس سے اُس کی برائیاں اور وہ زیادہ دے گا اُس کو اجر‘‘۔
4: عزت کا حصول: دنیا میں ہر شخص عزت والی زندگی کو پسند کرتا ہے اور بہت سے لوگ عزت کے حصول کے لیے ہی اپنی معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہیں ۔ دنیا میں بالعموم عزت ‘ چہرے ‘ مہرے ‘ حسب ونسب اور مال ومتاع کی وجہ سے ملتی ہے لیکن حدیث پاک کے مطابق اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے چہروں اور ان کے اموال کو نہیں دیکھتے بلکہ ان کے دلوں اور اعمال کو دیکھتے ہیں؛چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجرات کی آیت نمبر 13میں ارشاد فرماتے ہیں''اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا ایک مرد سے اور ایک عورت (سے) اور ہم نے بنا دیا تمہیں قومیں اور قبیلے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا (وہ ہے جو) تم میں سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔
5: زمین وآسمان سے برکتوں کے دروازوں کا کھل جانا : اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ اعراف میں مغضوب قوموں کا ذکر کیا جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان تمام اقوام کا تذکرہ کرنے کے بعد اس بات کو واضح فرماتے ہیں کہ ان اقوام کے لوگ اگر حقیقی معنوں میں تقویٰ اور ایمان کے راستے کو اختیار کرلیتے تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان کیلئے آسمان وزمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتا۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 96 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور اگر واقعی بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے (تو) ضرور ہم کھول دیتے اُن پر برکتیں آسمان سے زمین سے اور لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے پکڑ لیا انہیں اس وجہ سے جو تھے وہ کمایا کرتے‘‘۔
6: نیکی اور بدی کے درمیان پہچان کرنے کی صلاحیت پیدا ہونا : انسان کے لیے یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اُس کو ایسی بصیرت سے نواز دیں جس کے نتیجے میں وہ حق اور باطل کے درمیان امتیاز کرنے کے قابل ہوجائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انفال کی آیت نمبر 29میں ارشاد فرماتے ہیں '' اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! اگر تم ڈرو اللہ سے (تو) وہ بناد ے گا تمہارے لیے (حق اور باطل میں) فرق کرنے کی (کسوٹی)اور دورکر دے گا تم سے تمہاری برائیاں اور بخش دے گا تمہیں اور اللہ بڑے فضل والا ہے ‘‘۔
چنانچہ ان فوائد کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں روزے کی ظاہری کیفیت کے ساتھ ساتھ اس کی باطنی کیفیت کی اصلاح کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جو شخص روزہ رکھنے کے باوجود صحیح معنوں میں تقویٰ ‘ تزکیہ اور طہارت کے حصول پر توجہ نہیں دیتا اللہ تبارک وتعالیٰ کو اس کی بھوک اور پیاس کی کوئی ضرورت نہیں۔صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ( روزہ کی حالت میں ) جھوٹ بات کرنا اور فریب کرنا اور جہالت کی باتوں کو نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو تقویٰ والا روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین