غم سے نجات اور خوشی کا حصول ‘ہر انسان کی خواہش ہے۔ وسیع کاروبار اور اچھی ملازمتوں کا بڑا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ خوشیاں حاصل کر سکے اور بیچارگی اور بے بسی کی زندگی سے محفوظ رہ سکے‘ تاہم اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ عصر ِ حاضر کا انسان ماضی کے مقابلے میں زیادہ نفسیاتی عارضوں کا شکار نظر آتا ہے۔ دنیا بھر میں نفسیاتی مریض بکثرت موجود ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے‘ جہاں پر نفسیاتی عارضوں اور تکالیف کا شکار لوگ پسماندہ ممالک میں پائے جاتے ہیں‘ وہیں پر صنعتی‘ معاشی اور سائنسی اعتبار سے ترقی یافتہ معاشروں میں بھی نفسیاتی مریضوں کی تعداد کچھ کم نہیں ۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میںبھی لاکھوں کی تعداد میں لوگ نفسیاتی امراض کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ فقط مادی ترقی اور وسائل کی فراوانی کے ساتھ ہی نفسیاتی عارضوں کا علاج ممکن نہیں ‘بلکہ اس کے لیے روحانی اسباب اختیار کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ نفسیاتی بیماریوں کے اسباب پر جب غور کیا جاتا ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ بیماریاں مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہیں:
1۔ حادثات اور صدمات: کئی مرتبہ انسان کی زندگی میں رونما ہونے والے حادثات اور صدمات انسان کو نفسیاتی اعتبار سے کمزور کر دیتے ہیں اور بعد ازاں یہی نفسیاتی کمزوری مستقل نفسیاتی بیماری کی شکل اختیار کر دیتی ہے۔ کئی لوگ والدین اور جوان اوالاد کی اموات کو بھول نہیں پاتے‘ اسی طرح کاروباری لین دین کے دوران ہونے والے بڑے نقصانات بھی انسان کو نفسیاتی طور پر مجروح کردیتے ہیں اور بعد ازاں انسان نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔
2۔ مایوسی در مایوسی: کئی مرتبہ انسان ایسے حالات سے دوچار ہو جاتا ہے‘ جن سے نکلنا بظاہر بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ مناسب تدابیر کرنے کے باوجود جب بحرانی کیفیت دور نہیں ہوتی تو انسان مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ مایوسی بھی نفسیاتی امراض پر منتج ہوتی ہے۔
3۔ بداعتمادی: انسان دنیا میں بہت سے لوگوں پر اعتماد کرتا ہے‘ لیکن کئی مرتبہ انسان کے قریبی دوست‘ رشتہ دار ہی اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا دیتے ہیں۔ اس بداعتمادی کی وجہ سے بھی اکثر اوقات انسان نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے اور ہر کسی کو شک اور وہم کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔
4۔خود اعتمادی کی کمی: کئی لوگ اپنی شخصیت میں پائی جانے والی کمزوریوں کے سبب بھی نفسیاتی عارضوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
5۔شیطانی اثرات اور جادو: شیطانی اثرات اور جادو کا ہو جانا بھی ایک حقیقت ہے۔ ان کے نتیجے میں بھی کئی مرتبہ انسان مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریوں کو شکار ہو جاتا ہے۔
6۔ نظر بد: نظر بد بھی ایک حقیقت ہے ۔کئی مرتبہ یہ انسان کوموت کے منہ تک پہنچا دیتی ہے۔ نظر بد بھی کئی دفعہ انسان کو نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔
7۔ گناہوں کی کثرت: گناہوں کے بھی انسانی زندگی پر نہایت گہرے اثرات ہیں۔ یہ گناہ جہاں انسان کی آخرت کیلئے نقصان دہ ہیں‘ وہیں پر ان کی وجہ سے دنیاوی زندگی میں بھی انسان کو مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
8۔ ناشکری:کئی مرتبہ نعمتوں کی فراوانی کے باوجود انسان ناشکری کے راستے پر چل پڑتا ہے اور ہر وقت شکوے شکایات کرنے کی وجہ سے اس کے دل میں ایک غم اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اس وجہ سے بھی انسان نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔
9۔بے راہروی: حد سے بڑھی ہوئی جنسی خواہشات اور شہوات کے غلبے کے دوران جب انسان ان خواہشات کو حلال طریقے سے پورا نہیں کر پاتا اور غلط راستوں کو اختیار کرتا ہے‘ تو اسے احساس ِجرم اور ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ جس کی وجہ سے انسان نفسیاتی عارضوںکا شکار ہو جاتا ہے۔
10۔ حسد: جب انسان کسی شخص کو اپنے سے آگے بڑھتا دیکھتا ہے‘ تو کئی مرتبہ وہ اس سے حسد کرنا شروع ہو جاتا ہے اور جس شخص سے حسد کر رہا ہوتا ہے ‘اس کو نقصان نہ پہنچا سکنے کی وجہ سے انسا ن مختلف طرح کی بیماریوںکا شکار ہو جاتا ہے۔
نفسیاتی بیماریوں کے اسباب پر غور کرنے کے بعد انسان کو بیماریوںکا مقابلہ کرنے کے طریقے پر بھی غور کرنا چاہیے۔اگر‘ انسان ان بیماریوں سے نکلنا چاہتا ہے ‘تو اس کو مندرجہ ذیل تدابیر کو اختیار کرنا ہو گا:
1۔ ایمان: اگر‘ انسان کا ایمان پختہ ہو اور وہ اس کو شرک سے آلودہ نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو امن کی دولت سے نواز دیتے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورہ انعام کی آیت نمبر 82 میں یوںفرمایا: ''جو لوگ ایمان لائے او ر نہیں مخلوط کیا اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے وہی ہیں (کہ) ان کے لیے ہی امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں۔‘‘
2۔ تقویٰ :جب انسان اللہ تعالیٰ کے ڈر کو اختیار کرتے ہوئے گناہوں کو چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی تنگیوں کو دور کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو سورہ طلاق کی آیت نمبر 2میںیوں بیان فرمایا : ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو)وہ بنا دیتا ہے‘ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ۔‘‘
سورہ یونس میں اللہ تعالیٰ نے ایمان اور تقویٰ کا راستہ اختیار کرنے والوں کو اپنا ولی قرار دیا اور ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے خوف اور غم سے آزاد کرنے کی نوید سنائی۔سورہ یونس کی آیت نمبر 62‘63میں ارشاد ہوا ہے: ''خبردار بے شک اولیاء اللہ نہ خوف زدہ ہوں گے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘
3۔ توکل: اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انسان کے لیے کافی ہو جاتے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورہ طلاق کی آیت نمبر3 میں یوں فرمایا: ''اور جو اللہ پر بھروسہ کرے‘ تووہ کافی ہے‘ اُسے بے شک اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے کام کو ۔‘‘
4۔ صبر: جب انسان پیش آنے والی مشکلات پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی تائید اور نصرت سے نوازتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 153میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو !جو ایمان لائے ہو‘ مددحاصل کر و‘ صبر سے اور نماز سے‘ بے شک اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
5۔ انفاق فی سبیل للہ: جب انسان اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے مال کو خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے خوف اور غم کو دور فرمادیتے ہیں۔ اس حقیقت کا اظہار اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 274میں یوں فرمایاہے: ''وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال کو‘رات اور دن کو ‘ چھپا کر اور اعلانیہ طور پر تو ان کے لیے ان کا اجر ہے‘ ان کے رب کے پاس اور نہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘
6۔ دعا: جب انسان خلوص دل سے دعا کرتا ہے‘ تو اللہ تعالیٰ اس کی تکالیف کو دور فرما دیتے ہیں۔
7۔ توبہ اور استغفار: تو بہ واستغفار کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ انسان پر اپنی رحمتوں کا نزول فرماتے ہیں اور اس کو خوشحالی سے نواز دیتے ہیں۔ استغفار کی برکات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے سورہ نوح کی آیت نمبر 10‘11 اور12میں حضرت نوح ؑکی بات کو یوںبیان فرمایا: ''تو میں نے کہا ؛بخشش مانگو‘ اپنے رب سے بے شک وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ بھیجے گا بارش تم پر موسلا دھار اور وہ مدد کرے گا‘ تمہاری مالوں اور بیٹوں کے ساتھ اور وہ (پیدا) کردے گا‘ تمہارے لیے باغات اور (جاری) کر دے گا‘ تمہارے لیے نہریں۔‘‘
8۔ ذکر الٰہی اور استعاذہ: جب انسان جادو‘ نظر بد اور شیطانی اثرات کا شکار ہو جاتا ہے تو اس وقت اس کو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔ کثرت ذکر اور استعاذہ کا راستہ اختیار کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انسانوں کی زندگی کے اندھیروں کو دور فرما دیتے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 42‘43میںیوں فرمایا: ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘یاد کرو اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنا۔ اور تسبیح (پاکیزگی) بیان کرو‘ اُس کی صبح وشام۔ وہی ہے ‘جو رحمتیں بھیجتا ہے تم پر اور اُس کے فرشتے (دعائے رحمت کرتے ہیں) تاکہ وہ نکالے تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف اور وہ ہے مومنوں پر بہت رحم کرنے والا۔‘‘
9 ۔ شکر گزاری: جب انسان اللہ تعالیٰ کا شکر یہ ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوںکو بڑھا دیتے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 7میں یوںفرمایا: ''اور جب آگاہ کر دیا تمہارے رب نے یقینا اگر تم شکر کرو گے (تو) بلاشبہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم ناشکری کرو گے (تو) بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت ہی سخت ہے۔‘‘
10۔ نکاح: قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ انسانوں کو رحمت اور سکینت سے نواز دیتے ہیں۔ نتیجتاً انسان کی جنسی بے راہ روی کا علاج ہو جاتا ہے اور وہ نفسیاتی اعتبار سے پرسکون ہو جاتا ہے۔ نکاح کے نتیجے میں حاصل ہونے والی سکینت ‘رحمت اور مودّت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورہ روم کی آیت نمبر 21میں یوں فرمایا: ''اور اُس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اُس نے پیدا کیا تمہارے لیے تمہارے نفسوں (یعنی تمہاری جنس) سے بیویوں کو‘ تاکہ تم سکون حاصل کرو ‘اُن کی طرف (جاکر) اور اُس نے بنا دی تمہارے درمیان محبت اور مہربانی۔ بے شک اس میں یقینا نشانیاں ہیں‘ اُن لوگوں کے لیے جو غورکرتے ہیں۔‘‘
الغرض ‘اگر نفسیاتی بیماریوں کے اسباب اور ان سے نکلنے والے راستوں کو سمجھ کر اختیار کر لیا جائے ‘تو اللہ تعالیٰ انسان کے جملہ عارضوں کو دور فرما دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی نفسیاتی بیماریوں کو دور فرمائے۔ (آمین )