"AIZ" (space) message & send to 7575

خوابوں کی حقیقت !

دنیا کا ہر شخص خواب دیکھتا ہے ۔ انسا ن کو اپنی پوری زندگی کے دوران اچھے اور برے خواب دکھائی دیتے ہیں۔ اچھے خواب کا انسانی طبیعت پر بڑا خوشگوار اثر ہوتا ہے‘ جبکہ برا خواب انسان کی طبیعت کو بوجھل بنا دیتا ہے۔ خوابوں کی تعبیرکے حوالے سے بہت سے لوگ تعبیر کے ماہرین اور علماء سے رجوع کرتے رہتے ہیں‘ جبکہ اس کے برعکس کئی لوگ خوابوں کی نفسیاتی توجیح کرتے ہیں اور اسی طرح بعض لوگ خواب اور ان کی تعبیر پر سرے سے یقین نہیں رکھتے۔ خوابوں کے حوالے سے کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں بہت سی اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ قرآن وسنت کا مطالعہ ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے خواب‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ہوا کرتے تھے اور ان خوابوں کی ذریعے اللہ تبارک وتعالیٰ نبیوں کو احکامات دیتے یا مستقبل کے حالات کی خبر دیا کرتے تھے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ صفت کی آیت نمبر 100 سے کر 107 تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خواب کا کچھ اس انداز میں ذکر کیا ہے : ''توہم نے خوشخبری دی اُنہیں ایک بردبار لڑکے کی‘ پھر جب وہ پہنچا اُن کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو۔ اُنہوں نے کہا: اے میرے بیٹے بے شک میں دیکھتا ہوں خواب میں کہ بے شک میں ذبح کررہا ہوں تجھے‘ پس تو دیکھ تو کیا خیال کرتا ہے۔ اس نے کہا: اے میرے ابا جان !آپ کر گزریے‘ جو آپ کو حکم دیا جا رہاہے‘ آپ عنقریب ضرور پائیں گے مجھے اگر اللہ نے چاہا صبر کرنے والوں میں سے‘ پھر جب وہ دونوں مطیع ہو گئے اورانہوں نے لٹا دیا اسے پیشانی کے بل ‘ ہم نے پکارا کہ اے ابراہیم ! یقینا آپ نے سچ کر دکھایا (اپنا ) خواب۔ بے شک ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں نیکی کرنے والوں کو۔ بے شک یہی یقینا کھلی آزمائش ہے۔ اور ہم نے بدلے میں دیا اس (اسماعیل) کے ایک عظیم ذبیحہ۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے اس خواب کا ذکر بھی قرآن مجید میں کیا ہے جب وہ بالکل چھوٹی عمر ہوا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس خواب کا ذکر سورہ یوسف کی آیت نمبر 4‘5 میں کچھ یوں فرماتے ہیں: ''جب کہا یوسف نے اپنے والد سے اے میرے اباجان ! بے شک میں نے دیکھا گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو میں نے دیکھا ان کو اپنے لیے سجدہ کرتے ہوئے۔ (یعقوب نے) کہا: اے میرے چھوٹے بیٹے مت بیان کرنا اپنا خواب اپنے بھائیوں پر ‘ورنہ وہ تدبیر کریں گے‘ تیرے لیے کوئی (بری) تدبیر‘ بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فتح کی آیت نمبر 27 میں نبی کریمﷺ کے اس خواب کا ذکر کیا کہ جس میں آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہمراہ اپنے آپ ﷺکو مسجد الحرام میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تھا اور بعدازاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس خواب کو پورا فرما دیا۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :''بلاشبہ یقینا اللہ نے اپنے رسول کو سچی خبر دی خواب میں حق کے ساتھ (کہ) تم ضرور بالضرور داخل ہو گے مسجد حرام میں‘ اگر اللہ نے چاہا امن کی حالت میں اپنے سروں کو منڈاتے ہوئے اور بال کترواتے ہوئے۔ (اور) تم نہ ڈرتے ہو گے‘ پس اس نے وہ جانا جو تم نے نہیں جانا تو اس نے (عطا) کر دی اس سے پہلے ایک جلد فتح۔‘‘ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ نبی کریمﷺ کو نزول وحی سے قبل ایسے سچے خواب دکھائی دیتے رہے کہ آپ ‘جس خواب کو دیکھتے وہ سپیدہ سحر کی طرح پورا ہو جاتا۔ 
انبیاء علیہم السلام کا تو ہر خواب من جانب اللہ ایک حکم یا مستقبل کے بارے میں آگہی کی حیثیت رکھتاہے‘ لیکن بسا اوقات غیر نبیوں کو بھی ایسے خواب آتے ہیں‘ جو پورے ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام کے عہد میں بادشاہ وقت کو خواب آیا اور اُس نے اِس خواب کی حقیقت کے بارے میں اپنے درباریوں سے معلوم کرنے کی کوشش کی ۔ اس سارے واقعہ کو سورہ یوسف کی آیت نمبر 43 سے 49 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کچھ یوں بیان فرمایا : ''اور کہا بادشاہ نے بے شک میں دیکھتا ہوں سات موٹی گائیں (کہ) کھا رہی ہیں انہیں سات دبلی (گائیں) اور سات سبز بالیاں اور دوسری خشک ۔اے سردارو! بتاؤ مجھے میرے خواب (کے بارے) میں اگر تم خواب کی تعبیر کر سکتے ہو۔ انہوں نے کہا :(یہ) پریشان باتیں ہیں خوابوں کی اور نہیں ہیں ہم (ایسے) خوابوں کی تعبیر کو جاننے والے اور کہا: اس نے جس نے نجات پائی ان دونوں میں سے اور یاد آیا اسے ایک مدت بعد میں بتاتا ہوں تمہیں اس کی تعبیر سو بھیجو مجھے۔ اے نہایت سچے یوسف! ہمیں تعبیر بتا سات موٹی گائیوں (کے بارے) میں (کہ) کھاتی ہیں انہیں سات دبلی(گائیں) اور سات سبز بالیوں اور دوسری خشک (کے بارے میں)‘ تاکہ میں واپس آ جاؤں لوگوں کی طرف (اور) تاکہ وہ جان لیں (یوسف نے) کہا: تم کاشت کرو گے سات سال لگاتار تو جو تم کاٹو تو چھوڑ دو اسے اس کی بالی میں ہی‘ پھر آئیں گے اس کے بعد سات (سال) سخت وہ کھا جائیں گے (اسے ) جو تم نے پہلے رکھا ہو گا ان کیلئے‘ مگر تھوڑا سا اس (ذخیرے) میں سے جو تم محفوظ رکھو گے (بیج کے لیے)‘ پھر آئے گا اس کے بعد ایک سال (کہ) اس میں بارش دیے جائیں گے لوگ اور اس میں وہ نچوڑیں گے۔‘‘ 
حضرت یوسف علیہ السلام کی بتلائی ہوئی تعبیر من وعن اسی طرح پوری ہو گئی‘ اسی طرح احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قیامت کے قریب اہل ایمان کے خواب سچے ہوں گے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ''جب قیامت قریب ہو گی تو مومن کا خواب جھوٹا نہیں ہو گا اور مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔‘‘
خوابوں کی بنیاد ی طور پر تین اقسام ہیں؛بعض خواب انسان کی خواہشات اور تخیل کی پیدا وار ہوتے ہیں‘ ایسے خوابوں کی بالعموم کوئی تعبیر نہیں ہوتی۔ بعض خواب بہت اچھے اور خوبصورت ہوتے ہیں یہ اہل ایمان کے لیے بشارت کی حیثیت رکھتے ہیں‘ جبکہ بعض خواب ڈراؤنے اور خطرناک ہوتے ہیں‘ ان خوابوں کے انسانی طبیعت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ایسے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور ان خوابوں کے برے نتائج سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ کار بھی نبی کریمﷺ کی احادیث مبارکہ میں موجود ہے۔ 
جامع ترمذی میں حدیث ہے : ''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب زمانہ قریب ہو جائے گا تو مومن کے خواب کم ہی جھوٹے ہوں گے‘ ان میں سب سے زیادہ سچے خواب والا وہ ہو گا جس کی باتیں زیادہ سچی ہوں گی‘ مسلمان کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ خواب تین قسم کے ہوتے ہیں بہتر اور اچھے خواب اللہ کی طرف سے بشارت ہوتے ہیں‘ کچھ خواب شیطان کی طرف سے تکلیف و رنج کا باعث ہوتے ہیں اور کچھ خواب آدمی کے دل کے خیالات ہوتے ہیں‘ لہٰذا جب تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہے‘ تو کھڑا ہو کر تھوکے اور اسے لوگوں سے نہ بیان کرے۔ ‘‘
اسی طرح مسند احمد میں حدیث ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: (سورہ یونس کی آیت نمبر64 میں )اللہ تعالیٰ کے فرمان ''ان کے لیے دنیوی زندگی میں خوشخبری ہے‘‘ ۔اس خوشخبری سے مراد اچھا خواب ہے‘ جس میں مومن کو خوشخبری دی جاتی ہے‘ یہ نبوت کا انچاسواں حصہ ہے‘ جو ایسا خواب دیکھے‘ وہ دوسرے کو بتائے اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور قسم کا خواب ہو‘ (جو اچھا نہ ہو) تو وہ شیطان کی طرف سے ہے‘ جو اسے پریشان کرتا ہے‘ وہ کسی کو اس کی خبر نہ دے اور تین مرتبہ بائیں طرف تھوکے اور خاموش ہو جائے اور کسی کو نہ بتلائے۔ کتب احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی خوابوں کو نبی کریم ﷺ کے سامنے رکھا کرتے تھے اور ان کی تعبیر نبی کریمﷺ فرمایا کرتے تھے۔ 
عصر حاضر میں بہت سے لوگوں نے خوابوں کی تشریح اور تعبیر کو جدید ماہرین نفسیات کی تشریح اور تعبیر سے جوڑا ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خوابوں کے بارے میں جو معلومات اور مصدقہ باتیں کتاب وسنت سے حاصل ہوئیں ہیں‘ ہمیں کسی اور ذریعے سے حاصل نہیں ہو سکتیں؛ چنانچہ مسلمان معاشرے میں بسنے والے لوگوں کو خوابوں کے حوالے سے دیگر ذرائع کی بجائے کتاب وسنت سے حاصل ہونے والی معلومات پر ہی اعتماد کرنا چاہیے اور خوابوں کی تعبیر کے لیے کتاب وسنت کے ماہر اہل تعبیر سے رجوع کرنا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں