"AIZ" (space) message & send to 7575

صبر کا اجر

انسان بنیادی طور پر عجلت پسند واقعہ ہوا ہے اور اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہداف کو جلد ازجلد حاصل کر لے‘ اسی طرح انسان خواہشات کا اسیر بھی ہے اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے بے تاب رہتا ہے۔ بہت سے لوگ اس حوالے سے جائز اور ناجائز کی تمیز کرنے سے بھی قاصر ہو جاتے ہیں‘ اسی طرح یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان کسی پریشانی یا صدمے کے موقع پر بے قرار ہو جاتاہے اور اس کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ صدمے اور بیقراری کی کیفیت سے جلد از جلد نکلا جائے اور پریشانی‘ تکلیف یا بیماری کی طوالت پر بالعموم بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ انسان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ صبر کا پھل انتہائی میٹھا ہوتا ہے اور صبر کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید انسان کے شامل حال ہو جاتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر صبر کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 153میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو‘ مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ زندگی کے نشیب وفراز درحقیقت ہمارے قبضہ اختیار میں نہیں ‘ بلکہ زندگی میں آنے والی آسانیوں اور مشکلات کا علم اور اختیار درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کے پاس ہے؛ چنانچہ زندگی میں پیش آنے و الی مشکلات پر اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر راضی ہوتے ہوئے انسان کو صبر کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 155سے157میںارشاد فرماتے ہیں: ''اور البتہ ضرور ہم آزمائیں گے‘ تمہیں کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مالوں میں اور جانوروں میں کمی کرکے اور پھلوں میں (کمی کرکے) اور خوشخبری دے دیں‘ صبر کرنے والوں کو۔ وہ لوگ جب پہنچتی ہے ‘انہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں ‘بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ وہی لوگ ہیں (کہ) ان پر عنایات ہیں‘ ان کے رب کی طرف سے اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
اسی طرح قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ پیش آنے والی تکالیف پر صبر کرنے والے کی تکلیف کو اللہ تبارک وتعالیٰ فقط دور ہی نہیں فرماتے‘ بلکہ اس سے محبت بھی فرماتے ہیں ؛ چنانچہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 146میں ارشاد ہوا: '' اور کتنے ہی نبی (ایسے گزرے ہیں کہ) جہاد کیا‘ ان کے ساتھ (مل کر) بہت سے اللہ والوں نے پس نہ (تو) انہوں نے ہمت ہاری اور (اُس) پر جو مصائب درپیش ہوئے انہیں اللہ کے راستے میں اور نہ انہوں نے کمزوری دکھائی اور نہ وہ (کافروں سے) دبے اور اللہ محبت کرتا ہے صبر کرنے والوں سے۔‘‘ 
قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو کی جانے والی نصیحتوں کا بڑے خوبصورت انداز میں ذکر کیا ہے۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے جہاں پر اپنے بیٹے کو توحید باری تعالیٰ‘ والدین کی اطاعت ‘ نماز کے قیام‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا‘ وہیں پر اپنے بیٹے کو صبر کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ لقمان کی آیت نمبر17 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور صبر کر اس (تکلیف) پر جو تجھے پہنچے بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔‘‘ تکالیف پر کیے جانے والے صبر کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں خواہشات پر کیے جانے والے صبر کے فوائد اوراس موقع پر کی جانے و الی بے صبری کی بھی مذمت کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت 249میں لشکر طالوت کے واقعے کو نہایت خوبصورت انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں: ''پھر جب نکلا طالوت (اپنے) لشکروں کے ساتھ اس نے کہا :بے شک اللہ تمہیں آزمانے والا ہے ایک نہر سے پس جو پی لے گا اس سے تو نہیں ہے وہ مجھ سے (میرا ساتھی) اور جو نہ چکھے گا اسے پس بے شک وہ مجھ سے (میرا ساتھی ) ہے‘ مگر جو بھر لے ایک چلو اپنے ہاتھ سے پھر انہوں نے پی لیا اس سے سوائے تھوڑے (لوگوں) کے ان میں سے پھر جب اسے پار کر لیا‘ اس نے اور ان لوگوں نے جو ایمان لائے اس کے ساتھ وہ کہنے لگے :کوئی طاقت نہیں ہمیں آج جالوت اور اس کے لشکروں سے (لڑنے کی) کہا ان لوگوں نے جو یقین رکھتے تھے کہ بے شک وہ اللہ سے ملنے والے ہیں بہت سے چھوٹے گروہ غالب آ گئے بڑے گروہ پر اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ 
قرآن مجید کے ساتھ ساتھ کتب احادیث میں بھی صبر کی اہمیت کو نہایت احسن انداز میں اجا گر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:۔ 
1۔صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے بحرین میں کچھ قطعات اراضی بطور جاگیر ( انصار کو ) دینے کا ارادہ کیا تو انصار نے عرض کیا کہ ہم جب لیں گے کہ آپ ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اسی طرح کے قطعات عنایت فرمائیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد ( دوسرے لوگوں کو ) تم پر ترجیح دی جایا کرے گی تو اس وقت تم صبر کرنا‘ یہاں تک کہ ہم سے ( آخرت میں آ کر ) ملاقات کرو۔
2۔صحیح بخاری میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تو آپﷺ نے انہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور آپ ﷺ نے پھر دیا۔ یہاں تک کہ جو مال آپ ﷺ کے پاس تھا۔ اب وہ ختم ہو گیا‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس جو مال و دولت ہو تو میں اسے بچا کر نہیں رکھوں گا‘ مگر جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے۔ اور جو شخص بے نیازی برتتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بے نیاز بنا دیتا ہے اور جو شخص اپنے اوپر زور ڈال کر بھی صبر کرتا ہے‘ تو اللہ تعالیٰ بھی اسے صبر و استقلال دے دیتا ہے۔ اور کسی کو بھی صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ بے پایاں خیر نہیں ملی۔ ( صبر تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے ) ۔بعض لوگ مصائب پر بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے واویلا کرنا شروع کر دیتے ہیں‘ انہیں درج ذیل حدیث سے عبرت حاصل کرنی چاہیے:۔ 
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کا گزر ایک عورت پر ہوا‘ جو قبر پر بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ وہ بولی :جاؤ جی پرے ہٹو۔ یہ مصیبت تم پر پڑی ہوتی تو پتہ چلتا۔ وہ آپ ﷺ کو پہچان نہ سکی تھی‘ پھر جب لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ نبی کریم ﷺ تھے‘ تو اب وہ ( گھبرا کر ) نبی کریم ﷺ کے دروازہ پر پہنچی۔ وہاں اسے کوئی دربان نہ ملا‘ پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو پہچان نہ سکی تھی۔ ( معاف فرمائیے ) تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ صبر تو جب صدمہ شروع ہو‘ اس وقت کرنا چاہیے ۔ انسانی زندگی میں آنے والی ابتلاؤں میں سے جنگ بھی ایک بڑی مصیبت ہے۔ 
نبی کریم ﷺ نے جنگ کے دوران بھی صبر کی تلقین کی ہے۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:۔ 
1۔صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : ''دشمن سے لڑنے بھڑنے کی تمنا نہ کرو ‘ ہاں! اگر جنگ شروع ہو جائے تو پھر صبر سے کام لو‘‘۔
2۔صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے صحابہ ؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ''لوگو! دشمن کے ساتھ جنگ کی خواہش اور تمنا دل میں نہ رکھا کرو‘ بلکہ اللہ تعالیٰ سے امن و عافیت کی دعا کیا کرو؛ البتہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو ہی جائے ‘ تو پھر صبر و استقامت کا ثبوت دو۔ یاد رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے‘‘ اس کے بعد آپ ﷺ نے یوں دعا کی: ''اے اللہ! کتاب کے نازل کرنے والے‘ بادل بھیجنے والے‘ احزاب ( دشمن کے دستوں ) کو شکست دینے والے‘ انہیں شکست دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد کر‘‘۔
3۔صحیح بخاری میں انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ام الربیع بنت برأ رضی اللہ عنہا جو حارثہ بن سراقہ ؓ کی والدہ تھیں ‘ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: اے اللہ کے نبیؐ! حارثہ کے بارے میں بھی آپ مجھے کچھ بتائیں۔ حارثہ ؓ بدر کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے ‘ انہیں نامعلوم سمت سے ایک تیر آ کر لگا تھا کہ اگر وہ جنت میں ہے تو صبر کر لوں اور اگر کہیں اور ہے تو اس کے لیے روؤں دھوؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا :اے ام حارثہ! جنت کے بہت سے درجے ہیں اور تمہارے بیٹے کو فردوس اعلیٰ میں جگہ ملی ہے‘‘۔
مندرجہ بالااحادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو کسی بھی موقع پر صبر کے دامن کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے اور مقابلہ چاہیے لشکر کفار سے ہو یا مسئلہ کسی عزیز کی جدائی کا ہو ‘ ہر حالت میں صبر کو اختیار کرنا چاہیے اور صبر کے بارے میں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ صبر وہ ہے جو صدمے کی پہلی چوٹ کے موقع پر کیا جائے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں زندگی میں پیش آنے والے مشکلات پر صبر کرنے کی توفیق دے ۔ (آمین) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں