ہمارے معاشرے میں جھوٹ کا چلن عام ہے اور لوگ ہر معاملے میں جھوٹ بولنے پر آمادہ وتیار رہتے ہیں۔ سچائی کی اہمیت کو معاشرے کی اکثریت فراموش کر چکی ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر آپ کسی شخص سے اس کی عمر پوچھیں تو بلا سبب اس مسئلے میں جھوٹ بولے گا‘ اگر آپ اس سے گاڑی ‘ موٹر سائیکل یا کسی چیز کی قیمت پوچھیں تو پھر بھی جھوٹ سے کام لے گا‘ بہت سے لوگ اپنی تعلیم کے حوالے سے بھی جھوٹ بولتے ہیں۔کئی لوگ اپنے کاروبار اور آمدنی کو بھی بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ جھوٹ کا یہ چلن ہماری سیاست میں بھی عام ہے۔ بہت سے سیاسی امیدوار انتخابی مہم کے دوران عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے اُن سے جھوٹے وعدے کرتے اور ان کے ذہن میں پہلے ہی سے یہ خیال موجود ہوتا ہے کہ انہوں نے کسی بھی طور پر اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرنا؛چنانچہ الیکشن جیت جانے والے امیدواروں کی اکثریت اگلے انتخابات تک کے لیے لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ لوگ ان وعدوں کے ایفا کے لیے اپنے امیدواروں کا تعاقب کرتے رہتے ہیں لیکن مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ سادہ لوح لڑکیوں کو شادی کا جھانسہ دے کر ان کے مال اور عزت تک سے کھیل جاتے ہیں اور بعد ازاں اپنی کسی بھی بات کو پورا کرنے کے لیے آمادہ وتیار نہیں ہوتے۔ اس جھوٹ کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی زندگی تاریک ہو جاتی ہے اور بہت سے معاشرتی المیوں کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ بہت سے کاروباری لوگ لین دین کے معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ جھوٹے وعدے کرتے ہیں اور ان وعدوں کا مقصد کسی کی رقم واپس پلٹانے کی بجائے فقط وقت گزارنا ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے پیسے کا تقاضا کرنے والا ہر تاریخ پر ایک نئی اُمید کے ساتھ پیسے کے حصول کے لیے پہنچتا ہے اور وعدہ پورا نہ ہونے پر جھنجلاہٹ اور مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں لوگوں کی اکثریت اس حقیقت کو پہنچاننے سے قاصر ہے کہ سچائی میں بہت زیادہ برکت اور جھوٹ میں سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 70‘71میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور بالکل سیدھی بات کہو۔ وہ درست کر دے گا تمہارے لیے تمہارے اعمال اور وہ بخش دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ اور جو کوئی اطاعت کرے اللہ اوراُس کے رسولؐ کی تو یقینا اُس نے کامیابی حاصل کی بہت بڑی کامیابی ‘‘ ۔ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سیدھی بات کہنے کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے گناہوں کو بھی معاف فرما دیتے ہیں اوراس کے معاملات بھی سنوار دیتے ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید میں ہمیں اس بات کی بھی تلقین کی ہے کہ ہمیں ہمیشہ سچوںکا ساتھ دینا چاہیے۔ ہم بالعموم اپنے گردو پیش میں دیکھتے ہیں کہ لوگ برادری ‘ پارٹی‘ علاقہ‘ جغرافیہ ‘ رنگ اور نسل کی بنیاد پر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں اور اس حوالے سے سچ اور جھوٹ کی تمیز کو چھوڑ دیتے ہیں۔ جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ اہلِ ایمان کو سچوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 119میں ارشاد فرمایا : ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور ہو جاؤ سچ بولنے والوں کے ساتھ‘‘۔قرآن مجید نے اپنے قریبی دوست اور اعزا واقارب کے حق میں بدیانتی کا ارتکاب کرنے سے روکا ہے اور اہل ایمان کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ انہیں قرابت داری کے معاملات میں بھی سچائی اور عدل کے راستے کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ سورہ نساء کی آیت نمبر 135 میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں : ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! ہو جاؤ انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دینے والے اللہ کی خاطر اور اگرچہ اپنے آپ کے خلاف ہی ہو یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے (خلاف ہی کیوں نہ ہو) اگر ہو وہ امیر یا فقیر تو اللہ تعالیٰ (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے اُن دونوں کا تو نہ پیروی کرو خواہش نفس کی کہ تم عدل (نہ) کرو اور اگر توڑ مروڑ کر بات کرو گے (گواہی دیتے ہوئے) یا منہ موڑو گے (گواہی دینے سے) تو بے شک اللہ (اُس) پر جو تم عمل کرتے ہوخوب خبر دار ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں دشمن اقوام کے خلاف بھی ناانصافی والے طرز عمل سے روکا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 8میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! ہو جاؤ قائم رہنے والے اللہ کے لیے گواہی دینے والے انصاف کی اور نہ ہرگز آمادہ کرے تم کو کسی قوم کی دشمنی اس بات پر کہ تم عدل نہ کرو عدل کیا کرو (کہ) وہ زیادہ قریب ہے تقویٰ کے اور اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ‘ بے شک اللہ تعالیٰ خوب باخبر ہے اس سے جو تم عمل کرتے ہو‘‘۔
ان آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں زندگی کے تمام معاملات میں صداقت اور عدالت سے کام لینا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ اپنے بعثت سے قبل بھی اپنی سچائی کے حوالے سے ممتاز تھے اور جاہلیت کے زمانے کے لوگ نبی ٔ رحمت حضرت محمد ﷺ کی سچائی کی گواہی دیاکرتے تھے؛ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے روایت ہے: جب آیت''اور آپ اپنے خاندانی قرابت داروں کو ڈراتے رہیے‘‘ نازل ہوئی تو نبی کریمﷺ صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارنے لگے: اے بنی فہر! اور اے بنی عدی! اور قریش کے دوسرے خاندان والو! اس آواز پر سب جمع ہو گئے‘ اگر کوئی کسی وجہ سے نہ آ سکا تو اس نے اپنا کوئی سربراہ بھیج دیا تاکہ معلوم ہو کہ کیا بات ہے۔ ابولہب قریش کے دوسرے لوگوں کے ساتھ مجمع میں تھا۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں خطاب کر کے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے‘اگر میں تم سے کہوں کہ وادی میں (پہاڑی کے پیچھے) ایک لشکر ہے اور وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری بات سچ مانو گے؟ سب نے کہا کہ ہاں‘ ہم آپ کی تصدیق کریں گے ہم نے ہمیشہ آپ کو سچا ہی پایا ہے۔نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ میں بھی سچائی کی اہمیت اور جھوٹ کی قباحت کو بہت ہی واضح انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں :
1۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق ہی ہے‘ جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ (وہ یہ ہیں) جب اسے امین بنایا جائے تو (امانت میں) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب (کسی سے) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب (کسی سے) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔
2۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت زبیر ؓسے پوچھا کہ میں نے کبھی آپ سے رسول اللہ ﷺکی احادیث نہیں سنیں‘ جیسا کہ فلاں‘ فلاں بیان کرتے ہیں۔کہا: میں کبھی آپ سے الگ تھلگ نہیں رہا لیکن میں نے آپ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
3۔صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا‘ تین طرح کے لوگ وہ ہوں گے جن کی طرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر بھی نہیں اٹھائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا‘ بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔ ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور اس نے کسی مسافر کو اس کے استعمال سے روک دیا۔ دوسرا وہ شخص جو کسی حاکم سے بیعت صرف دنیا کے لیے کرے کہ اگر وہ حاکم اسے کچھ دے تو وہ راضی رہے ورنہ خفا ہو جائے۔ تیسرے وہ شخص جو اپنا (بیچنے کا) سامان عصر کے بعد لے کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں‘ مجھے اس سامان کی قیمت اتنی اتنی مل رہی تھی‘ اس پر ایک شخص نے اسے سچ سمجھا (اور اس کی بتائی ہوئی قیمت پر اس سامان کو خرید لیا)۔
4۔صحیح بخاری میں حضرت حکیم بن حزام ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا‘ خریدنے اور بیچنے والوں کو اس وقت تک اختیار (بیع ختم کر دینے کا) ہے جب تک دونوں جدا نہ ہوں۔آپ ﷺ نے مزید ارشاد فرمایا‘ پس اگر دونوں نے سچائی سے کام لیا اور ہر بات صاف صاف کھول دی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہوتی ہے لیکن اگر کوئی بات چھپا رکھی یا جھوٹ کہی تو ان کی برکت ختم کر دی جاتی ہے۔
5۔ صحیح بخاری میں حضرت اُم سلمہ ؓ نے رسول کریم ﷺ سے روایت کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی جھگڑے میں ایک فریق کی بحث دوسرے فریق سے عمدہ ہو اور یوں محسوس ہو کہ وہ سچا ہے اور اس طرح اس کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے لیکن اگر اس کو کسی مسلمان کا حق دلوایا جائے تو دوزخ کا ایک ٹکڑا اس کو دیا جا رہا ہے وہ لے لے یا چھوڑ دے۔
6۔صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ان احادیث مبارکہ سے سچائی کی اہمیت اور جھوٹ کی قباحت کھل کر واضح ہو جاتی ہے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں زندگی کے تمام معاملات میں جھوٹ سے بچنے سے سچائی سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین