شمسی کیلنڈر کی طرح قمری کیلنڈر بھی وقت کا پتا دیتا ہے۔قمری کیلنڈر پر مسلمانوں کی دو اہم عبادات کا بھی انحصار ہے۔ رمضان المبارک میں مسلمان روزے رکھتے ہیں جبکہ ذی الحجہ کے مہینے میں حج جیسی مقدس عبادت اور فریضے کو انجام دیا جاتاہے۔ یہ دونوں عبادات چاند دیکھ کر ہی کی جاتی ہیں۔رویتِ بصری یعنی آنکھوں سے چاند دیکھنے کی اہمیت مختلف احادیث مبارکہ سے بھی واضح ہو جاتی ہے۔ اس ضمن میں چند اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا‘ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب رمضان کا چاند دیکھو تو روزہ شروع کر دو اور جب شوال کا چاند دیکھو تو روزہ افطار کر دو اور اگر اَبر ہو تو اندازہ سے کام کرو۔
2۔صحیح بخاری میں ہی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے رمضان کا ذکر کیا تو فرمایا کہ جب تک چاند نہ دیکھو روزہ شروع نہ کرو‘ اسی طرح جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ موقوف نہ کرو اور اگر بادل چھا جائے تو تیس دن پورے کر لو۔
3۔صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا مہینہ کبھی انتیس راتوں کا بھی ہوتا ہے اس لیے (انتیس پورے ہو جانے پر) جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ شروع کرو اور اگر بادل ہو جائے تو تیس دن کا شمار پورا کر لو۔
ان احادیثِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو رمضان المبارک یا کسی بھی مہینے کا آغاز چاند دیکھ کر کرنا چاہیے اور چاند دیکھ کر ہی عید کرنی چاہیے اور اگر بادل ہوں تو 30دن پورے کر لینے چاہئیں۔ رویتِ بصر ی کی اسی اہمیت کے پیش نظر دنیا بھر میں‘ جہاں پر مسلمان چاند کو دیکھتے ہیں ‘وہیں پر پاکستان میں بھی اس کام کو انجام دینے کے لیے مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کو تشکیل دیا گیا ہے جس کا کام ملک بھر سے گواہیوں اور شہادتوں کو حاصل کر کے نئے چاند کا اعلان کرنا ہے تاکہ لوگ رمضان المبارک کے روزے رکھ سکیں یا ذی الحجہ کا آغاز کر سکیں۔
جہاں پر چاند کے حوالے سے رویتِ بصر ی کی اہمیت مسلّم ہے وہیں پر ماہرین ِفلکیات بھی اس حوالے سے مختلف انداز میں تخمینہ لگاتے رہتے ہیں اور نئے چاند کے بارے میں پیشین گوئیاں کی جاتی ہیں۔ نئے چاند کے نظر آنے کا تعلق چاند کی عمر‘ چمک اور سورج کے غروب ہونے اور چاند کے غروب ہونے کے درمیانی وقفے کے ساتھ ہے۔جب چاند کی عمر اٹھارہ گھنٹے سے زائد ہو جاتی ہے تو ایسی صورت میں چاند نظر آنے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں‘ جبکہ پندرہ گھنٹے سے کم عمر چاند کے نظر آنے کے امکانات نہ ہونے کی برابر ہوتے ہیں۔ اُنتیسویں رات کو اگر نیا چاند نظر نہ آئے تو تیس دن پورے کرنے کے بعد چاند کی عمر میں چوبیس گھنٹے کا اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے تیس تاریخ مکمل ہونے پر نظر آنے والا چاند اُنتیس دن مکمل ہونے پر نظر آنے والے چاند کے مقابلے میں بہت نمایاں ہوتا ہے۔ پاکستان میں پہلے تو یہ کام رویت ہلال کمیٹی انجام دیا کرتی تھی لیکن کچھ عرصے سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وزارتِ سائنس وٹیکنالوجی بھی اس حوالے سے اپنا تجزیہ پیش کرتی ہے اور وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی تجزیے کے ساتھ ساتھ وقت سے پہلے ہی چاند کے نظر آنے کا اعلان بھی کر دیتے ہیں۔ اس اعلان کی وجہ سے ملک بھر میں رائے عامہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ بعض لوگ رویتِ ہلال کمیٹی کے اعلان کے منتظر ہوتے ہیں تو بعض لوگ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف سے ہونے والے اعلان کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں۔ سائنس تجربے‘ مشاہدے سے حاصل ہونے والے علم کا نام ہے۔ سائنسی تجزیہ اگرچہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے لیکن اس کا ہمیشہ درست ہونا یقینی نہیں ؛ چنانچہ چاند کے بارے میں کی جانے والی سائنسی پیشین گوئیاں کئی مرتبہ ماضی میں غلط ثابت ہو چکی ہیں۔ بہت سے لوگ سائنس سے استفادہ کرتے ہوئے مستقل بنیادوں پر کیلنڈر بنانے کے حامی ہیں اور اس ضمن میں سعودی عرب اور بعض دیگر ممالک کے حوالوں کو بھی پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سعودی عرب میں قمری کیلنڈر کو تشکیل دیا جاتا ہے تاکہ نظام الاوقات کو وضع کیا جا سکے‘ لیکن ہر نئے چاند کے موقع پر رویتِ بصری کی روشنی میں اس کیلنڈر کی تجدید اور تصحیح بھی کی جاتی ہے۔ سعودی عرب میں اجرامِ سماویہ کی حرکت پر نظر رکھنے کے لیے کلاک ٹاور میں ایک بڑی رصد گاہ قائم کی گئی ہے جوکہ جدید ترین آلات اور دوربینوں پر مشتمل ہے۔ اس رصد گاہ کے علاوہ بھی سعودی عرب میں اس فن پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے‘ لیکن اس کے باوجود یہ بات بالکل واضح ہے کہ رویتِ بصری کی روشنی میں حاصل ہونی والی گواہیوں‘ شہادتوں اور معلومات کی بنیاد پر ہی کیلنڈرکو چلایا جاتا ہے۔
اس دفعہ ذی الحجہ کے چاند پر ایک تنازع کی کیفیت اس انداز میں پیدا ہو گئی کہ وزیر موصوف نے 21جولائی کی رات کو چاند نظر آنے کا اعلان کیا تھا ‘لیکن ملک بھر سے چاند کے وجود کے بارے میں کوئی گواہی موصول نہ ہو سکی۔ اگلے دن جب چاند نظر آیا تو انہوں نے اس چاند کے پہلی تاریخ کا چاند ہونے کے حوالے سے شکوک وشبہات کا اظہار کیا اور عوام الناس کے سامنے چاند کی تصویر رکھ کر سوال کیا کہ کیا یہ پہلی تاریخ کا چاند ہے؟ اس ضمن میں چند اہم باتوں کو سمجھنا ضروری ہے کہ 29 تاریخ کے بعد نظر آنے والے چاند اور 30 تاریخ کے بعد نظر آنے والے چاند کی عمر میں چونکہ 24 گھنٹے کا فرق ہو تا ہے اس لیے 30تاریخ کے بعد نظر آنے والے چاند کا حجم 29تاریخ کے بعد نظر آنے والے چاند سے زیادہ ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آسمان پر چاند کے سائنسی وجود سے زیادہ چاند کا حقیقت میں نظر آنا شریعت میں معتبر ہے۔ اگر چاند نظر ہی نہ آیا ہو تو ایسی صورت میں اس کے وجود پر اصرار کرنا بے معنی ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ اگر مطلع ابر آلود ہو اور چاند نظر آنے کے امکانات مطلع کی وجہ سے باقی نہ رہیں تو ایسی صورت میں چاند کے وجود پر اصرار کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں۔فقط شک وشبہ کی بنیاد پر پہلی تاریخ کے چاند کو بڑا کہنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح مسلم میں حصین‘ عمر بن مرہ‘ ابوالبختری سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم عمرہ کے لیے نکلے تو جب ہم وادی نخلہ میں اترے تو ہم نے چاند دیکھا‘ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تیسری کا چاندہے اور کسی نے کہا کہ یہ دو راتوں کا چاند ہے۔ تو ہماری ملاقات ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ہوئی تو ہم نے ان سے عرض کیا کہ ہم نے چاند دیکھا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ تیسری تاریخ کا چاندہے‘ کوئی کہتا ہے کہ د وسری کا چاند ہے۔ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ تم نے کس ر ات چاند دیکھا تھا؟تو ہم نے عرض کیا کہ فلاں فلاں رات کا تو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دیکھنے کے لیے اسے بڑھا دیاہے۔ در حقیقت اسی رات کا چاند ہے جس رات تم نے اسے دیکھا۔
کتب احادیث سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ چاند کا بڑا نظر آنا علامت قیامت میں سے ایک ہے۔ اس حوالے سے سلسلہ احادیث صحیحہ کی ایک حدیث ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ قرب قیامت کی علامات میں سے (ایک) یہ بھی ہے کہ چاند معمول سے بڑا نظر آئے گا‘ پہلی رات کے چاند کو دیکھ کر کہا جائے گا کہ یہ تو دوسری رات کا چاند ہے۔
نئے چاند کا معاملہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اوراس معاملے پر سیاست کرنا یا اس معاملے کو مذاق کا موضوع بنانا کسی بھی طور پر درست نہیں۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی دو اہم عبادات‘ حج اور روزہ اور دو اہم تہوار ‘عید الفطر اور عیدالاضحی کا تعلق اسی نئے چاند کے ساتھ ہے۔ ماضی میں اس بات کا بھی مشاہدہ کیا جا چکا ہے کہ وزیر سائنس اینڈٹیکنالوجی مذہبی طبقات کے بارے میں مختلف طرح کے تحفظات رکھتے ہیں‘ لیکن نئے چاند کی آڑمیں ان تحفظات کا اظہار کرنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں۔ اس ضمن میں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو بھی اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہر موضوع پارٹی بازی یا جماعتی تعصب کے اظہار کا نہیں ہوتا۔ جن معاملات کا تعلق ہماری عبادات اور ہمارے تہواروں کے ساتھ ہے ان معاملات کو سنجیدگی کے ساتھ لینا چاہیے۔ چونکہ حج ‘ روزہ‘ عید الفطر اور عید الاضحی شرعی ایام اور تہوار ہیں اس لیے چاند سے متعلقہ معلومات کے حوالے سے بھی سائنس سے زیادہ شرعی معیار معتبر ہو گا۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ذریعے رویتِ ہلال کمیٹی کی معاونت کرنے میں کوئی قباحت نہیں‘ لیکن سائنس کی آڑ لے کر شرعی اصول وضوابط اور رویتِ بصری کو کلی طور پر نظر انداز کرنا کسی بھی طور درست نہیں ۔ اگر ایسا کرنا رواہوتا تو سعودی عرب میں کیلنڈرکی تصحیح کے لیے رویت بصری کو معیار نہ بنایا جاتا۔ نئے چاند کے تنازعہ کو اب ختم ہونا چاہیے اور اس معاملے کو رویت بصری اور شہادتوں کے شرعی معیار کی روشنی میں طے کر لینا چاہیے تاکہ پاکستانی قوم کو مخمصے سے نکالا جا سکے اور اپنی عبادات اور عیدوں کو اچھے طریقے سے نبھایا جا سکے۔