اخروی فلاح اُسی شخص کو حاصل ہو گی جو صراطِ مستقیم پر ہو گا۔جو شخص ہدایت کو پا لیتا ہے وہ حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ اس کے مدمقابل کوئی شخص خواہ کتنا بھی مادی عروج کیوں حاصل نہ کر لے‘ اگر وہ نعمتِ ہدایت سے محروم ہے تو اس کی عاقبت اور انجام انتہائی دردناک ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام کے مطالعے سے ہمیں بہت سے ایسے لوگوںـ کا پتا چلتا ہے جو نعمتِ ہدایت سے محروم ہونے کی وجہ سے ذلت اور رسوائی کے گڑھے میں گر گئے۔ فرعون اور نمرود حاکم تھے لیکن ہدایت سے محروم ہونے کی وجہ سے نشانِ عبرت بن گئے‘ ہامان اعلیٰ عہدے دار تھا لیکن اس کا عہدہ ومنصب اس کے کسی کام نہ آیا‘ قارون بہت بڑا سرمایہ دار تھا لیکن اپنے سرمائے کے باوجود ذلت اور رسوائی اس کا مقدر بن گئی۔ شداد جاگیر دار ہونے کے باوجود ناکام اور نامراد رہا‘ ابولہب مکہ کا بزرگ، سردار اور بڑے قبیلے سے تعلق رکھنے کے باوجود ہدایت سے محروم ہونے کی وجہ سے ناکام ونامراد ہو گیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں پوری ایک سورت اس کے کردار کی مذمت میں نازل فرما دی۔ اس کے مدمقابل دنیا میں ہدایت کے راستے پر چلنے والے لوگ نہ صرف یہ کہ اخروی سربلندی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ دنیا میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو نیک نامی عطا فرمائی اور ان کے کردار اور عمل کو آنے والی نسلوں کے لیے ایک نمونہ بنا دیا۔
ہدایت کی نعمت یقینا جملہ نعمتوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ سورہ فاتحہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی نعمت کی طلب کا ذکر کیاہے۔ کتاب وسنت میں ہدایت کی اہمیت بہت زیادہ اجاگر کیا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے انسانوں کی ایک بڑی تعداد اس کی اہمیت کوپہچاننے سے قاصر ہے اور متعدد وجوہات کی وجہ سے انسان راہ ِ ہدایت سے بھٹک جاتا ہے۔ کتاب وسنت کی روشنی میں غور کیا جائے تو گمراہی کے متعدد اسباب سامنے آتے ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ آبائواجداد کی اندھی تقلید: ہر انسان کو اپنے آبائو اجداد کے ساتھ محبت ہوتی ہے اور یہ محبت اس کو کئی مرتبہ اس سطح پر بھی لے جاتی ہے کہ وہ اللہ کے دین اور اس کے واضح احکامات کے مقابلے پر اپنے آباؤ اجداد کی بات کو ترجیح دینے پر آمادہ وتیار رہتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے گمراہی کے اس سبب کا ذکر قرآن مجید کے متعدد مقامات پر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ زخرف کی آیات نمبر 23تا 24میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور اسی طرح ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا مگر اس (بستی) کے خوشحال لوگوں نے کہا: بے شک ہم نے پایا اپنے آباؤ اجدادکو ایک طریقے پر اور بے شک ہم ان کے قدموں کے نشانات کے پیچھے چلنے والے ہیں۔ اس (ڈرانے والے) نے کہا اور کیا (بھلا) اگر میں لے آؤں تمہارے پاس زیادہ ہدایت والے طریقے کو (اُس) سے جس پر تم نے پایا اپنے آباؤ اجداد کو۔ انہوں نے کہا: بے شک ہم جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو‘ انکار کرنے والے ہیں‘‘۔اسی طرح سورہ بقرہ میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے گمراہی کے اس سبب کو بڑے ہی واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 170میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جب کہا جائے ان سے پیروی کرو (اس چیز کی) جو نازل کی ہے اللہ نے (تو) کہتے ہیں بلکہ ہم پیروی کریں گے (اس راہ کی) جس پر ہم نے پایا ہے اپنے آبائواجداد کو ،اگرچہ ہوں ان کے آبائواجداد نہ سمجھتے کچھ (بھی) اور نہ ہی وہ سیدھے راستے پر ہوں‘‘۔
2۔ علماء اور مذہبی رہنماؤں کی ہر بات کو بلا چون و چراں ماننا: جس طرح انسان کواپنے والدین سے والہانہ محبت ہوتی ہے اسی طرح انسان کو اپنے مذہبی رہنماؤں سے بھی بہت زیادہ عقیدت ہوتی ہے۔ یہ عقیدت انسان کو کئی مرتبہ اس سطح پر پہنچا دیتی ہے کہ وہ ان کی کسی بھی بات کو نظر انداز کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتا۔ انسان کو اپنے مذہبی رہنماؤں کا ادب واحترام کرنا چاہیے لیکن جہاں پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات ہو وہاں پر اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی بات ہی کو ترجیح دینی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام ِ حمید میں یہوود نصاریٰ کے اس چلن کا ذکر کیا کہ انہوں نے اپنے مذہبی رہنماؤں کی شان میں غلو کرتے ہوئے ان کو منصبِ ربوبیت تک پہنچا دیا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 31میں ارشاد فرماتے ہیں: ''انہوں نے بنا لیا ہے اپنے علماء اور درویشوں کو (اپنا) رب اللہ کے سوا اور مسیح بن مریم کو (بھی) حالانکہ نہیں وہ حکم دیے گئے مگر یہ کہ وہ عبادت کریں ایک معبود کی،نہیں ہے کوئی معبود مگر وہی‘ پاک ہے وہ اس سے جسے وہ شریک بناتے ہیں ‘‘۔ اُمتِ مسلمہ کویہود ونصاریٰ کے طرزِ عمل سے عبرت حاصل کرنا چاہیے اور علماء کے احترام کے باوجود اللہ اور رسولﷺ کی بات ہی کو جملہ معاملات پر فوقیت دینی چاہیے۔
3۔ سرداروں کی غیر مشروط پیروی: بہت سے لوگ اپنے سرداروں اور سیاسی رہنماؤں کی بات کو بھی غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں اور شخصیت پرستی میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ان کے مقابلے پر کتاب وسنت کی تعلیمات کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیات 66تا 67میں اس حقیقت کو واضح فرمایا :''جس دن اُلٹ پلٹ کیے جائیں گے اُن کے چہرے آگ میں وہ کہیں گے: اے کاش ہم نے اطاعت کی ہوتی اللہ کی اور ہم نے اطاعت کی ہوتی رسول کی، اور وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! بے شک ہم نے اطاعت کی اپنے سرداروں کی اور بڑوں کی تو انہوں نے گمراہ کر دیا ہمیں(سیدھے )راستے سے‘‘۔
4۔ بری صحبت: انسان کی گمراہی کا ایک بڑا سبب بری صحبت بھی ہے۔ بہت سے لوگ سیدھے راستے سے فقط بری صحبت کی وجہ سے بھٹک جاتے ہیں۔ بری صحبت کی وجہ سے انسان کے افکار، نظریات اور اعمال میں منفی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن ایسے لوگوں کی ناکامی کا ذکر سورہ فرقان کی آیات نمبر 27سے 29میں کچھ یوں فرماتے ہیں: ''اور جس دن دانتوں سے کاٹے گا ظالم اپنے ہاتھوں کو‘ کہے گا: اے کاش میں اختیار کرتا رسول کے ساتھ راستہ۔ ہائے بربادی! کاش میں نہ بناتا فلاں کو دلی دوست۔ بلاشبہ یقینا اس نے گمراہ کر دیا (اس) ذکر (یعنی قرآن) سے اس کے بعد کہ جب وہ آیا میرے پاس ‘‘۔اولادوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے والدین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی صحبت پر نظر رکھیں تاکہ بچہ غلط صحبت کی وجہ سے گمراہی کا شکار نہ ہو جائے۔
5۔ اکثریت کی پیروی: عوام اور دانشوروں کی اکثریتی رائے کو ملکی معاملات میں اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن جب اکثریت کی رائے وحی الٰہی سے متصادم ہو تو ایسے موقع پر اکثریت کی رائے کی پیروی کرنا یقینا انسان کی گمراہی کا ایک بڑا سبب ہے۔سورہ انعام کی آیت نمبر116میں ارشاد ہوا: ''اور اگر آپ اطاعت کریں اکثر کی جو زمین میں ہیں (تو) وہ آپ کو بہکا دیں گے اللہ کے راستے سے۔نہیں وہ پیروی کرتے مگر (اپنے) گمان کی اور نہیں ہیں وہ مگر اٹکل دوڑاتے‘‘۔
6۔خواہشات کی پیروی: انسان کی خواہشات بھی کئی مرتبہ اس کو راہِ ہدایت سے بھٹکا دیتی ہیں اور انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے جائز اور ناجائز راستے میں تفریق کیے بغیر اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر قسم کے ذرائع استعمال کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۃ النازعات میں طغیانی کے راستے پر چلنے والے ناکام لوگوں کا ذکر کیا اور اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا بھی ذکرکیا جو قیامت کے دن کامیاب ہوں گے۔ ناکام لوگ وہ ہیں جنہوں نے طغیانی کا راستہ اختیار کیا اور کامیاب وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی خواہشات کو دبا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نازعات کی آیات نمبر 37سے 41میں ارشاد فرماتے ہیں: ''پس رہا (ناکام) جس نے سرکشی کی۔ اور اس نے ترجیح دی دنیوی زندگی کو۔ تو بے شک جہنم ہی (اس کا) ٹھکانا ہے۔ اور رہا وہ (کامیاب) جو ڈرگیا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے اور اس نے روکا (اپنے) نفس کو (بُری) خواہش سے اور بے شک جنت ہی (اس کا )ٹھکانہ ہے‘‘ ۔
7۔ جہالت: بہت سے لوگ صراطِ مستقیم کی اہمیت سے لا علمی کی وجہ سے غافل ہوتے ہیں۔ دنیاوی معاملات میں اس حد تک جذب ہو جاتے ہیں کہ دینی حقائق کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اسلام ہمیں توازن کا حکم دیتا ہے اور بیک وقت دین ودنیا میں ترقی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ دنیاوی معاملات کو ترجیح دیتے ہوئے دینی معاملات کو یکسر نظر انداز کر دینے والے لوگ آخرت میں ناکام اور نامراد ٹھہریں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کا ذکر سورہ روم کی آیت نمبر 7میں کچھ یوں فرماتے ہیں :''وہ جانتے ہیں ظاہرکو دنیوی زندگی سے اور آخرت سے (بالکل)وہ غافل ہیں۔‘‘ اسی حقیقت کا بیان سورہ کہف کی آیات نمبر 103سے 106میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ بڑے واضح انداز میں کچھ یوں فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے کیا ہم خبر دیں تمہیں زیادہ خسارہ پانے والوں کی‘ اعمال کے اعتبار سے وہ لوگ جو (کہ) ضائع ہوگئی ان کی کوشش دنیوی زندگی میں‘ حالانکہ وہ گمان کرتے ہیں کہ بے شک وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے انکار کیا اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا تو ضائع ہو گئے ان کے اعمال‘ سو نہیں ہم قائم کریں گے ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن ‘‘۔
گمراہی کے ان اسباب کو اگر اچھے طریقے سے سمجھ لیاجائے تو یقینا انسان گمراہی کے راستے سے محفوظ ہو کر صراطِ مستقیم پر چل سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو گمراہی سے بچ کر صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین!