اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بہترین تقویم میں پیدا کیا اور دو صنفوں میں تقسیم کیا ہے۔ اللہ نے جہاں پر بڑی تعداد میں مردوں کو پیدا کیا وہیں پر عورتوں کو بھی تخلیق کیا۔ عورت تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف حیثیت کی حامل رہی۔ زمانۂ جاہلیت میں عورت کو سامانِ لذت سمجھا جاتا تھا اور مرد اپنی سوتیلی ماں سے بھی شادی کر لیا کرتے تھے۔ بیوی کی حیثیت سے اس کے حقوق کی وضاحت نہ تھی اور اس کو مملوکہ لونڈی کی حیثیت دی جاتی تھی۔ بیٹی کے پیدا ہونے پر زمانۂ جاہلیت کے لوگ اس قدر غم اور تذلیل محسوس کرتے تھے کہ اس کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ کی تشریف آوری کے بعد عورت کو مختلف حیثیت سے ایک بلند مقام حاصل ہوا اور اس کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے معاشرے میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہوئی۔ خصوصاً ماں کے مقام کو بہت زیادہ اجاگر کیا گیا۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ''اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، کسی کی جان لینا اور جھوٹی گواہی دینا‘‘۔
2۔صحیح بخاری میں حضرت مغیرہؓ بن شعبہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم پر ماں اور باپ کی نافرمانی، لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا، (واجب حقوق کی) ادائیگی نہ کرنا اور (دوسروں کا مال ناجائز طریقہ پر) دبا لینا حرام قرار دیا ہے اور فضول گفتگو کرنے اور کثرت سے سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
3۔صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہا: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: لوگوں میں سے حسنِ معاشرت (خدمت اور حسن سلوک) کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں! اس نے کہا: پھر کون؟ فرمایا: پھر تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا: اس کے بعد کون؟ فرمایا: پھر تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: پھر تمہارا والد۔
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ماں کو اتنا بلند مقام عطا کیا ہے کہ اس کے ساتھ حسنِ سلوک کی اہمیت والد کے ساتھ حسنِ سلوک سے بھی زیادہ ہے۔
عورت کو بیٹی کے روپ میں بھی بہت زیادہ عزت سے نوازا گیا اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی شدید انداز میں مذمت کی گئی۔ بیٹی کے نکاح کے موقع پر اس کی رضامندی کو ضروری قرار دیا گیا اور والد یاسرپرست کو اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ نکاح کے معاملے میں بیٹی پر زبردستی کرے۔ گو احادیث مبارکہ کے مطابق بیٹی کے لیے بھی اپنے ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنے کی گنجائش نہیں؛ تاہم اگر ولی بیٹی کے ساتھ زبردستی والا معاملہ کرتا ہے تو بیٹی کوایسے نکاح کو فسخ کروانے کا بھی اختیار دیا گیا۔ اس حوالے سے اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ایک خاتون کو اس کا خطرہ ہوا کہ ان کا ولی (جن کی وہ زیر پرورش تھیں) ان کا نکاح کر دے گا، حالانکہ وہ اس نکاح کو ناپسند کرتی تھیں؛ چنانچہ انہوں نے قبیلہ انصار کے دو شیوخ عبدالرحمن اور مجمع کو‘ جو جاریہ کے بیٹے تھے‘ کہلا بھیجا۔ انہوں نے تسلی دی کہ کوئی خوف نہ کریں کیونکہ خنساء بنت خذام رضی اللہ عنہا کا نکاح ان کے والد نے ان کی ناپسندیدگی کے باوجود کر دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نکاح کو رد کر دیا تھا۔
اسی طرح بیٹی کو بھی بیٹے کی طرح وراثت میں حقدار قرار دیا گیا ہے اور وراثت کو ہڑپ کرنے کی شدید انداز میں مذمت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ مالِ وراثت کی تقسیم میں ناانصافی سے کام لینے والے لوگ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ اور رسول اللہﷺ کے حکم سے انحراف کرتے ہیں۔
بیوی کی حیثیت سے بھی عورت کو بلند مقام عطا کیا گیا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 19میں اس امر کا اعلان فرمایا : ''اور زندگی بسر کرو اُن کے ساتھ اچھے طریقے سے‘ پھر اگر تم ناپسند کرو اُن کو تو ہو سکتا ہے کہ تم ناپسند کرو کسی چیز کو او ر رکھ دی ہو اللہ نے اُس میں بہت بھلائی‘‘۔ شریعت میں بیوی کے مالی حقوق کو بھی متعین کیا گیا اورحق مہر کے ساتھ ساتھ اس کے نان نفقے کی ذمہ داری بھی مرد پر عائد کی گئی ہے۔ اسی طرح مرد کو بیوی کو بلاوجہ ایذا دینے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ عورت کو خاندان میں رہتے ہوئے جہاں پر ایک نمایاں حیثیت دی گئی ہے وہیں پر اس کے لیے زندگی کے مختلف معاملات میں حصہ لینے کے امکانات بھی برقرار رکھے گئے ہیں۔ لیکن ان تمام معاملات میں حصہ لینے کے لیے اس کو پردے کی پابندی کرنا ہوگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 31میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور کہہ دیجئے مومن عورتوں سے (بھی) (کہ) وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور وہ حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی اور نہ وہ ظاہر کریں اپنی زینت کو مگر جو (خود) ظاہر ہو جائے اس میں سے اور چاہیے کہ وہ ڈالے رکھیں اپنی اوڑھنیوں کو اپنے گریبانوں پر، اور نہ وہ ظاہر کریں اپنی زینت (بناؤ سنگھار) کو مگر اپنے خاوندوں کے لیے یا اپنے باپوں (کے لیے) یا اپنے خاوندوں کے باپوں (کے لیے) یا اپنے بیٹوں (کے لیے) یا اپنے شوہروں کے (دیگر) بیٹوں (کے لیے) یا اپنے بھائیوں (کے لیے) یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں (بھتیجوں کے لیے) یا اپنے بہنوں کے بیٹوں (بھانجوں کے لیے) یا اپنی (جیسی) عورتوں (کے لیے) یا (ان کے لیے) جن کے مالک بنے ان کے دائیں ہاتھ (یعنی زر خرید غلاموں کے لیے) یا تابع رہنے والے (خدمت گار) مردوں میں سے (جو) شہوت والے نہیں (ان کے لیے) یا ان بچوں (کے لیے) جو نہیں واقف ہوئے عورتوں کی چھپی باتوں پر اور نہ وہ مارا کریں اپنے پاؤں (زمین پر) تاکہ جانا جائے وہ جو چھپاتی ہیں اپنی زینت سے اور تم توبہ کرو اللہ کی طرف سے اے ایمان والو! تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ‘‘۔ مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو اپنے پردے کا بھرپور انداز میں تحفظ کرنا چاہیے تاکہ وہ معاشرے میں عزت اور وقار سے زندگی گزار سکے۔
اسلا م میں عورت کے شرف کو بلند کرنے کے لیے اس کی تجارت کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ جن عورتوں کو ناجائز دھندے پر مجبور کیا جاتا ہے اور وہ اس حوالے سے رضامند نہیں ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو مجرموں اور گناہ گاروں میں شمار نہیں کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 33 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور نہ تم مجبور کرو اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر اگر وہ چاہیں پاکدامن رہنا تاکہ تم تلاش کرو دنیوی زندگی کا سامان اور جو مجبور کرے گا انہیں تو بے شک اللہ ان کے مجبور کیے جانے کے بعد بہت بخشنے والا نہایت رحم والا ہے‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورتوں کی کردار کشی کرنے والوں کی سختی سے مذمت کی ہے اور ایسے لوگ جو عورت پر چار گواہوں کے بغیر تہمت لگاتے ہیں‘ان پر حد قذف قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 4 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ لوگ جو تہمت لگائیں پاکدامن عورتوں پر پھر نہ لائیں چار گواہوں کو تو مارو انہیں اسّی کوڑے اور نہ قبول کرو ان کی گواہی کو کبھی اور وہی لوگ نافرمان ہیں‘‘۔
اسلام میں غیرت کے نام پر قتل کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ یہاں تک کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو نازیبا حالت میں دیکھے تو ایسی صورت میں بھی وہ قانون کو ہاتھ میں نہیں لے سکتا بلکہ اس کو شرعی عدالت میں جا کر لعان کے عمل کو مکمل کرنا چاہیے جس کی تفصیل سورہ نور کی آیت نمبر 6 سے 9میں کچھ یوں بیان کی گئی ہے: ''اور وہ لوگ جو تہمت لگاتے ہیں اپنی بیویوں پر اور نہ ہوں ان کے لیے (اس پر) گواہ مگر اُن کے نفس (یعنی وہ خود ) تو گواہی ان میں سے (ہر) ایک کی اللہ کی قسم کے ساتھ چار گواہیاں ہیں کہ بلاشبہ وہ یقینا سچوں میں سے ہے۔ اور پانچویں (بار یہ کہے) کہ بے شک اللہ کی لعنت ہو اس پر اگر ہو وہ جھوٹوں میں سے۔ اور ٹال دے گی اس (عورت) سے سزا کو (یہ بات) کہ وہ گواہی دے چار گواہیاں اللہ کی قسم کے ساتھ (کہ) بلاشبہ وہ یقینا جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار (عورت یوں کہے) کہ بے شک اللہ کا غضب (نازل) ہو اس پر اگر ہو (مرد) سچوں میں سے‘‘۔
ان تمام آیات اور احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام عورتوں کے حقوق کا ضامن اور سب سے بڑا رکھوالا ہے۔ بعض عناصر اسلام کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں بدگمانی پید ا کرکے عورت کے ا ن حقوق کا مطالبہ کرنا چاہتے ہیں جو شرعی، اخلاقی اور قانونی اعتبار سے کسی بھی سلجھے ہوئے معاشرے میں قبول نہیں کیے جا سکتے۔ ''میرا جسم‘ میری مرضی‘‘ کا نعرہ درحقیقت بے راہ روی اور بداخلاقی پر مبنی نعرہ ہے جو عورت کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے عورت کو بے راہ روی کے راستے پر چلانے کا سبق دیتا ہے۔ خواتینِ اسلام کو ان نعروں سے متاثر ہونے کے بجائے کتاب وسنت سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اور ازواجِ مطہراتؓ، بنات النبیﷺالطاہراتؓ اور صحابیاتِ کریمات ؓ کے کردار سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو خواتین کے حقوق ادا کرنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے۔ آمین!