کسی بھی معاشرے کا اعتقادی، فکری اور نظریاتی اعتبار سے ایک ہی نقطہ نظر کا حامل ہونانا ممکن ہے۔ معاشرے میں بسنے والے لوگ مختلف عقائد، نظریات اور افکار کے حامل ہوتے ہیں۔ مختلف نظریات کے حامل لوگ جب معاشرے میں ایک دوسرے کی آرا کو برداشت کرتے ہیں تو معاشرہ تعمیر وترقی کے راستے پر چل نکلتا ہے۔کسی کے نقطۂ نظر سے اختلاف کا ہو جانا یا اس سے اچھے اسلوب سے اختلاف کر لینا کسی بھی طور پر غلط نہیں ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجیدمیں اہلِ کتاب سے احسن طریقے سے مجادلہ کرنے کی تلقین کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ عنکبوت کی آیت 46میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور تم مت جھگڑو اہلِ کتاب سے مگر اس (طریقے ) سے جو (کہ) سب سے اچھا ہو مگر وہ (لوگ) جنہوں نے ظلم کیا اُن میں سے (تو اُن سے ویسا ہی برتاؤ کرو) اور تم کہو: ہم ایمان لائے (اُس) پر جو نازل کیا گیا ہماری طرف اور (جو) نازل کیا گیا تمہاری طرف‘ ہمارا معبود اور تمہارا معبود ایک ہے اور ہم اُسی کی فرمابنرداری کرنے والے ہیں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں جہاں پر اہلِ کتاب سے احسن طریقے سے مجادلے کی تلقین کی ہے‘ وہیں پر سورہ آل عمران میں ان کو نقطۂ مشترکہ پر جمع ہونے کی دعوت بھی دی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت 64میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیں: اے اہلِ کتاب آؤ(ایسی) بات کی طرف (جو) یکساں (مسلم) ہے ہمارے اور تمہارے درمیان یہ کہ نہ ہم عبادت کریں اللہ کے سوا (کسی کی) اور ہم شریک نہ بنائیں اـس کے ساتھ کسی کو اور نہ بنائے ہم میں سے کوئی کسی کو رب اللہ کے علاوہ، پھر اگر وہ منہ موڑ لیں (اس بات سے) تو تم کہہ دو گواہ رہو کہ بے شک ہم تو مسلمان ہیں‘‘۔
اِن آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں معاشرے میں مذہبی اختلافات کو احسن طریقے سے بیان کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس بات کو بھی ذہن نشین کرنا چاہیے کہ جہاں پر حق کا اظہار کرنا ضروری ہے وہیں پر معاشرے میں بقائے باہمی اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنا بھی نہایت اہم ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں تنازعات کے مختلف نقصانات بیان کیے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انفال کی آیات 45 تا 46میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو ! جب ٹکراؤ کسی گروہ سے تو تم ثابت قدم رہو اور یاد کرو اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ‘ تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔ اور تم اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اور مت آپس میں جھگڑو، ورنہ تم کم ہمت ہو جاؤ گے اور جاتی رہے گی تمہاری ہوا اور تم صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تنازعات کی وجہ سے قوموں کے مورال گرتے ہیں اور ان کا رعب اور دبدبہ ختم ہو جاتا ہے جبکہ ہم آہنگی کی برکت سے قوم کی طاقت اور رعب میں اضافہ ہوتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ تفرقے کی بھی سخت انداز میں مذمت کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت 103میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور تم مضبوطی سے تھام لو اللہ کی رسی کو سب (مل کر) اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے متعدد مقامات پر لوگوں کے درمیان اختلاف اور تنازعات کی صورت میں لوگوں کے درمیان صلح کروانے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ رنجشوں اور لڑائی جھگڑے کو بھلا کر صلح صفائی کی اہمیت کو سورہ حجرات میں نہایت احسن انداز میں واضح فرماتے ہیں۔ سورہ حجرات کی آیات 9 تا 10میں ارشاد ہوا: ''اور اگر ایمان والوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو صلح کروادو ان دونوں کے درمیان، پھر اگر زیادتی کرے ان دونوں میں سے ایک (گروہ) دوسرے پر تو تم لڑو (اس سے) جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم (یعنی صلح) کی طرف۔ پھر اگر وہ لوٹ آئے تو تم صلح کرا دو ان دونوں کے درمیان کے درمیان عدل کے ساتھ۔ اور تم انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ یقینا مومن (تو ایک دوسرے) کے بھائی ہیں پس صلح کرا دو اپنے دونوں بھائیوں کے درمیان اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم رحم کیے جاؤ‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جنگ وجدل کی صورت میں بھی مومنوں کے درمیان صلح کروانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کو بھی واضح فرما دیا کہ بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں؛ چنانچہ بھائیوں کے درمیان صلح کروادینی چاہیے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے صلح کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 224میں ارشاد فرمایا : ''اور مت بناؤ اللہ (کے نام) کو ڈھال اپنی قسموں کے لیے (کہ تم قسم کھالو) کہ (نہ) نیکی کرو گے اور (نہ ) برائی سے بچو گے اور (نہ) اصلاح کرو گے لوگوں کے درمیان اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے‘‘۔
تنازعات سے بچنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اس بات کی بھی نصیحت کی ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو ان کو اس خبر کی تحقیق کر لینی چاہیے تاکہ وہ غیر مصدقہ اطلاعات کی وجہ سے کسی قوم کی دشمنی آمادہ وتیار نہ ہو جائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجرات کی آیت 6میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو! اگر آئے تمہارے پاس کوئی فاسق کسی خبر کے ساتھ تو تم تحقیق کر لیا کرو اچھی طرح (ایسا نہ ہو) کہ تم تکلیف پہنچاؤ کسی قوم کو نادانی سے‘ پھر تم ہو جاؤ اس پر جو تم نے کیا‘ پشیمان۔‘‘
صلح کی اہمیت کو احادیث مبارکہ میں بھی بہت خوبصورت انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔جامع ترمذی میں حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ جو شخص حق پر ہوتے ہوئے جھگڑا چھوڑ دے‘ اس کے لیے جنت کے بیچ میں ایک مکان بنایا جائے گا۔
2۔سنن ابو داؤد میں حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اس شخص کے لیے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا ترک کر دے، اگرچہ وہ حق پر ہی ہو، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو خوش خلق ہو۔
3۔ سنن ابو داؤد میں حضرت ام کلثومؓ بنت عقبہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی بات میں جھوٹ بولنے کی اجازت دیتے نہیں سنا، سوائے تین باتوں کے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے: میں اسے جھوٹا شمار نہیں کرتا، ایک یہ کہ کوئی لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور کوئی بات بنا کر کہے، اور اس کا مقصد اس سے صرف صلح کرانی ہو، دوسرے یہ کہ ایک شخص جنگ میں کوئی بات بنا کر کہے، تیسرے یہ کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کوئی بات بنا کر کہے اور بیوی اپنے شوہر سے کوئی بات بنا کر کہے۔(تاکہ ناراضی ختم ہو سکے)
4۔ مسند احمد میں سیدہ اسماءؓ بنت یزید سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے ایمان والو! تم لوگوں کو کون سی چیز اس طرح لگاتار جھوٹ بولنے پر آمادہ کرتی ہے، جیسے پتنگے لگاتار آگ میں گرنا شروع ہو جاتے ہیں، ابن آدم پر اس کے ہر جھوٹ کو لکھ لیا جاتا ہے، ما سوائے تین امور کے، (۱) وہ خاوند جو اپنی بیوی سے جھوٹ بولتا ہے، تاکہ اس کو راضی رکھے، (۲) وہ آدمی جو جنگ میں دشمن کے خلاف تدبیر کرنے کے لیے جھوٹ بولتا ہے اور (۳) وہ آدمی جو دو مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ معاشرے میں تنازعات کا خاتمہ کرنے اور معاشرتی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے صلح جوئی کس قدر اہم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کروانے کی وجہ سے تحسین فرمائی تھی۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت ابوبکرہ ؓسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔
ان احادیث مبارکہ سے اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ معاشرے میں ہم آہنگی کو فروغ دینے اور تنازعات کے خاتمے کے لیے صلح کروانی چاہیے۔ بعض لوگ معاشرے اور خاندانوں میں فساد پھیلاتے اور دوست احباب، اعزہ واقارب اور تعلق داروں کو ایک دوسرے سے بدظن اور بدگمان کرتے ہیں، یہ لوگ کسی بھی اعتبار سے معاشرے کی خدمت کو انجام نہیں دیتے۔ اس کے مدمقابل جو لوگ معاشرے میں تنازعات کا خاتمہ کرتے ہیں یقینا وہ معاشرے کی تعمیر وترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے انفرادی اور اجتماعی تنازعات کو ختم کرکے ہمیں ایک مضبوط قوم بننے کی توفیق دے، آمین!