اللہ تبارک وتعالیٰ جب کسی انسان پر اپنا فضل فرماتے ہیں یا اس کو اپنی نعمت سے نوازتے ہیں تو اس کو عاجزی وانکساری اختیار کرنی چاہیے لیکن بہت سے لوگ مالی، سماجی، سیاسی اور عملی حوالے سے کسی مقام پر پہنچنے کے بعد عاجزی اور انکساری اختیار کرنے کے بجائے غرور اور تکبر کے راستے پر چل نکلتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو بلند سمجھنا اور دوسروں کو حقیر جاننا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ظلم، تشدد،قتل وغارت گری اور جنسی استحصال کا ایک بڑا سبب طاقت، اقتدار اور سرمائے پر گھمنڈ ہے۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو نعمتوں سے نوازتے ہیں تو اس کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنی حقیقت و حیثیت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 7میں ارشاد فرماتے ہیں: ''یقینا تم شکر کرو گے (تو) بلاشبہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم ناشکری کرو گے (تو) بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت ہی سخت ہے‘‘۔ اسی طرح انسان کونعمتوں کو پانے کے بعد اُن کی نسبت اپنے پروردگار سے کرنی چاہیے لیکن انسانوںکی بڑی تعداد اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو اپنا استحقاق سمجھ کر اپنے خالق کو فراموش کر دیتی ہے اور دولت، جوانی، حسن، شہرت اور عہدے کو اپنا ذاتی کارنامہ سمجھ کر دوسروں کا استحصال کرنا شروع کر دیتی ہے۔ یہ گھمنڈ کئی مرتبہ انسان کو اس سطح پر بھی لے جاتا ہے کہ وہ حق بات کو قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتا اور اگر اس کو کسی اچھی بات کی تلقین کی جائے تو اس کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کے واقعے کا مختلف مقامات پر بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اس واقعے کو پڑھنے کے بعد یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ابلیس غرور اور تکبرکی وجہ سے ہی راندۂ درگاہ ہو ا تھا؛ چنانچہ سورہ اعراف کی آیات 11 سے 18میں یہ واقعہ کچھ یوں بیان ہوا: ''اور بلاشبہ ہم نے پیدا کیا تمہیں‘ پھر ہم نے شکلیں بنائیں تمہاری، پھر ہم نے کہا فرشتوں سے (کہ) سجدہ کرو آدم کو تو انہوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے‘ نہ ہوا وہ سجدہ کرنے والوں میں سے۔ کہا (اللہ نے) کس (چیز) نے روکا تجھے کہ نہ تو سجدہ کرے جبکہ میں نے حکم دیا تجھے؟ اس نے کہا: میں بہتر ہوں اس سے‘ تو نے پیدا کیا مجھے آگ سے اور تو نے پیدا کیا اسے مٹی سے۔ فرمایا: پھر اتر جا اس (بہشت) سے پس نہ تھا (لائق) تیرے لیے کہ تو تکبر کرے اس میں، پس نکل جا‘ بے شک تو ذلیل ہونے والوں میں سے ہے۔ اس (ابلیس) نے کہا: تو مہلت دے مجھے اس دن تک (کہ) وہ اُٹھائے جائیں گے۔ فرمایا: بے شک تو مہلت دیے جانے والوں میں سے ہے۔ اس نے کہا: تو اس وجہ سے کہ تو نے گمراہ کیا مجھے‘ لازماً میں بیٹھوں کا ان (کو گمراہ کرنے) کے لیے تیرے سیدھے راستے پر۔ پھر ضرور میں آؤں گا ان کے پاس ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے‘ اور نہیں پائیں گے آپ ان کی اکثریت کو شکر کرنے والا۔ فرمایا: نکل جا اس سے مذمت کیا ہوا (اور) دھتکارا ہوا‘ یقینا جس نے پیروی کی ان میں سے (تیری تو) ضرور میں بھر دوں گا جہنم کو تم سب سے ‘‘۔ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ابلیس کی ذلت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کو تسلیم کرنے کے بجائے تکبر کا راستہ اختیار کیا۔ نتیجتاً وہ راندۂ درگاہ بن گیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرعون کی ناکامی اور برے انجام کا بھی ذکر کیا اور بتلایا کہ وہ اور اس کا گروہ زمین پر تکبر کیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ قصص کی آیات 36سے 40میں ارشاد فرمایا: ''پھر جب آئے اُن کے پاس موسیٰ علیہ السلام ہماری واضح نشانیوں کے ساتھ (تو) انہوں نے کہا: نہیں ہے یہ مگر ایک جادو گھڑا ہوا اور نہیں ہم نے سنا اِس (بات) کو اپنے پہلے آباؤ اجداد میں۔ اور کہا موسیٰ علیہ السلام نے: میرا رب خوب جاننے والا ہے (اس) کو جو آیا ہدایت کے ساتھ اس کی طرف سے اور اُسے (بھی کہ) جس کے لیے ہو گا گھر (یعنی آخرت) کا (اچھا) انجام، بے شک یہ (حقیقت ہے کہ) ظالم فلاح نہیں پاتے۔ اور کہا فرعون نے: اے سردارو! نہیں میں نے جانا تمہارے لیے کوئی معبود اپنے سوا تو تو آگ جلا میرے لیے اے ہامان مٹی پر (یعنی اینٹیں بنا) پھر تو بنا میرے لیے ایک محل (اونچی عمارت) تاکہ میں (اس پر چڑھ کر) جھانکوں موسیٰ کے الٰہ کو اور بے شک میں گمان کرتا ہوں اُسے جھوٹوں میں سے۔ اور تکبر کیا اس نے اور اُس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے اور انہوں نے سمجھا کہ بے شک وہ ہماری طرف نہیں لوٹائے جائیں گے۔ تو ہم نے پکڑلیا اُسے اور اُس کے لشکروں کو پھر ہم نے پھینکا اُنہیں سمندر میں‘ پھر آپ دیکھیں کیسا ہوا ظالموں کا انجام ‘‘ ۔ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ فرعون نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت کو تکبر کی وجہ سے مسترد کیا۔نتیجتاً اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو دنیامیں غرقِ آب کر دیا اور آخرت کے دن کی رسوائی کو بھی اس کا مقدر بنا دیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں قارون کے انجامِ بد کا ذکر کیا ہے جس کو بے شمار خزانوں سے نوازا گیا تھا لیکن وہ ان خزانوں کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے ساتھ کرنے کے بجائے اپنے علم اور ہنر سے کیا کرتا تھا۔ بستی کے اہلِ علم اس کو سیدھے راستے کی طرف آنے کی تلقین کرتے رہے لیکن اس نے گھمنڈ کے راستے کو اختیار کیے رکھا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو اس کے گھر اورخزانے سمیت زمین میں دھنسا دیااور اس کو ہمیشہ کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا۔
سورہ قصص میں قارون کے واقعے کو بیان کرنے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا کہ آخرت میں بھی کامیابی اور سرفرازی انہی لوگوں کوحاصل ہو گی جو زمین پر غرور اور تکبر کا راستہ اختیار نہیں کرتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ قصص کی آیت نمبر 83میں ارشاد فرماتے ہیں: ''یہ اُخروی گھر ہم کرتے ہیں اُسے (اُن لوگوں) کے لیے جو نہیں چاہتے کوئی بڑائی زمین میں اور نہ کوئی فساد اور (بہترین) انجام متقین کے لیے ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ کہف میں دو زمینداروں کا ذکر کیا جن میں سے بڑا زمیندار اللہ تبارک وتعالیٰ سے ملاقات کے بارے میں بے یقینی کا شکارتھا جبکہ (دنیاوی اعتبار سے) چھوٹا زمیندار اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈرنے والا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بڑے زمیندار کی بداعتقادی کی وجہ سے اس کی زمین اور جاگیر کو تباہ وبرباد کرکے اس کو آنے والے لوگوں کے لیے عبرت کی علامت بنا دیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں انسانوں کو اکڑکر چلنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 37میں ارشاد ہوا: ''اور مت چل زمین میں اکڑ کر بے شک تو ہرگز نہیں پھاڑ سکے گا زمین کو اور ہرگز نہیں تو پہنچ سکے گا پہاڑوں (کی چوٹی) تک لمباہو کر‘‘۔
قرآنِ مجید کے ساتھ ساتھ احادیث طیبہ میں بھی تکبر کی بڑے سخت انداز میں مذمت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔صحیح بخاری میں حارثہ بن وہب خزاعی ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ فرما رہے تھے کہ میں تمہیں جنتی آدمی کے متعلق نہ بتا دوں؟ وہ دیکھنے میں کمزور‘ ناتواں ہوتا ہے (لیکن اللہ کے یہاں اس کا مرتبہ یہ ہے کہ) اگر کسی بات پر اللہ کی قسم کھا لے تو اللہ اسے ضرور پوری کر دیتا ہے اور کیا میں تمہیں دوزخ والوں کے متعلق نہ بتا دوں؟ ہر بدخو، بھاری جسم والا اور تکبر کرنے والا۔
2۔صحیح مسلم میں حضرت حارثہ بن وہب ؓ ہی سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:کیا میں تمھیں اہلِ جہنم کے بارے میں خبر نہ دوں؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں! آپﷺ نے فرمایا: ہراجڈ، مال اکٹھا کرنے والا‘ اسے خرچ نہ کرنے والا اور تکبر اختیار کرنے والا۔
3۔جامع ترمذی میں حضرت ثوبان ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جو مر گیا اور تین چیزوں یعنی تکبر (گھمنڈ)، مالِ غنیمت میں خیانت اور قرض سے بری رہا‘ وہ جنت میں داخل ہو گا‘‘۔
4۔جامع ترمذی میں حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر (گھمنڈ) ہو گا اور جہنم میں وہ شخص داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا‘‘۔
5۔سنن نسائی میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''ایک دفعہ ایک شخص تکبر سے اپنا تہبند زمین پر گھسیٹتا چلا جا رہا تھا کہ اسے زمین میں دھنسا دیا گیا، وہ قیامت تک زمین میں دھنستا ہی رہے گا‘‘۔
ان تمام احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تکبر کو کس قدر نا پسند فرماتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں زندگی کے جملہ معاملات میں تکبر سے احتراز کرنا چاہیے اور ہمیشہ عاجزی اور انکساری والا رویہ اپنانا چاہیے۔ اگر ہم غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معاشرے میںانتشار اور فساد کی بڑی وجہ تکبر اور غرور بھی ہے۔ تکبر کی وجہ سے معاشرے میں اشتعال اور انتقام پیدا ہوتا ہے۔ اگر ہم عاجزی اور انکساری والا رویہ اختیار کریں تو یقینا معاشرے میں پیار، محبت،اخوت اور خیر خواہی کا چلن عام ہو سکتا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو تکبر سے محفوظ فرماتے ہوئے عاجزی وانکساری کے راستے پر چلنے کی توفیق دے، آمین!