ہمارے ہاں سردیوں میں نکاح اور شادی کی تقریبات کا بکثرت انعقاد ہوتا ہے، والدین اپنی اولاد کے نکاح اور شادی کی تقریبات کے حوالے سے اپنی استعداد کے مطابق وسائل اور توانائیاں استعمال کرتے ہیں۔ اس حوالے سے تکلفات سے بھی کام لیا جاتا ہے اور بہت سے رسوم و رواج کو بھی ان تقریبات کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بھاری اخراجات کرنے کے باوجود بھی بہت سی شادیاں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پاتیں اور شادی کے بعد ازدواجی زندگی میں شوہر اوربیوی کو مختلف قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مشاہدے کے بعد اس بات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہوجاتا ہے کہ شادی فقط وسائل کے استعمال، تکلفات اور رسومات کے اہتمام ہی سے کامیاب نہیں ہو پاتی بلکہ اس کے لیے دیگر بہت سے لوازمات کی بھی ضرورت ہے۔ شادی بیاہ کے حوالے سے جب ہم کتاب وسنت کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کتاب وسنت نے بابرکت نکاح کے حوالے سے بہت سی خوبصورت باتیں بتلائی ہیں۔ اس ضمن میں بہت اہم بات یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مخلوقات کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ یٰسین کی آیت نمبر 36میں ارشاد فرماتے ہیں: ''پاک ہے وہ (ذات) جس نے جوڑے پیدا کیے وہ سب کے سب‘ ان میں (بھی) جو اگاتی ہے زمین اور خود ان سے اور ان چیزوں سے جنہیں وہ نہیں جانتے‘‘۔اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نباء کی آیت نمبر 8میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ہم نے پیدا کیا تمہیں جوڑا جوڑا‘‘۔ سورہ روم میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کے جوڑوں کو اپنی نشانیوں میں سے نشانی قرار دیا اور اس جوڑ کے مقاصد کو بھی واضح فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر 21 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور اُس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے پیدا کیا تمہارے لیے تمہارے نفسوں (یعنی تمہاری جنس) سے بیویوں کو ‘ تاکہ تم سکون حاصل کرو اُن کی طرف (جاکر) اور اُس نے بنا دی تمہارے درمیان محبت اور مہربانی‘ بے شک اس میں نشانیاں ہیں۔
آیتِ مذکورہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو جوڑوں کی شکل میں اس لیے پیدا کیا تاکہ وہ ایک دوسرے سے سکون حاصل کریں اور ان کے درمیان مہربانی اور شفقت کا رشتہ قائم ہو۔ یہ محبت، مہربانی، الفت اور باہمی انجذاب انسان کو زندگی کے بحرانوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور استعداد عطا کرتا ہے اور انسان زندگی کے دکھوں اور تلخیوں کا ایک دوسرے کی رفاقت کے ذریعے اچھے طریقے سے مقابلہ کر سکتا ہے؛ تاہم دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کئی مرتبہ شادی انسان کے لیے اطمینان اور سکون کے بجائے سردرد کا سبب بن جاتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شادی کے حوالے سے جن اہم تقاضوں کو شریعت نے بیان کیا ہے‘ عام طور پر ان کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جب ہم کتاب وسنت کامطالعہ کرتے ہیں تو جوڑوں کے چناؤ کے حوالے سے بہت سی اہم باتیں سامنے آتی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ دُلہا کے اخلاق اور دین کا اچھا ہونا: شریعتِ اسلامیہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دُلہا کا دین اور اخلا ق اچھا ہونا چاہیے۔ دین کا تعلق اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے ساتھ جبکہ اخلاق کا تعلق مخلوقات کے ساتھ ہے۔ اگر انسان کا دین اور اخلاق بہتر ہو تو ایسی صورت میں انسان اپنے گھر والوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کرنے والا بن جاتا ہے۔ اس حوالے سے نبی کریمﷺ کی اہم حدیث درج ذیل ہے:
جامع ترمذی میں حضرت ابو حاتم مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''تمہارے پاس جب کوئی ایسا شخص (نکاح کا پیغام لے کر) آئے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو‘ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد برپا ہو گا۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! اگر اس میں کچھ ہو؟ آپﷺ نے تین بار یہی فرمایا: ''جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو‘‘۔
2۔لڑکی کی دین داری کو اہمیت دینا: عام طور پر نکاح لڑکی کے حسب ونسب، مال اور وجاہت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے لڑکی کی دین داری کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ حسب ونسب، مال وجمال اگر دین داری کے تحت ہو تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں لیکن اگر دین داری کو نظر انداز کرکے ان چیزوں کو اہمیت دی جائے تو نکاح بے برکت ثابت ہوتا ہے۔ اس حوالے سے اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''عورت سے چار چیزوں؛ اس کے مال، اس کے حسب و نسب، اس کے حسن و جمال اور اس کے دین کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے‘ تم دین دار کے ساتھ نکاح کر کے کامیابی حاصل کرو‘‘۔
3۔ ولی کی رضامندی : کامیاب اور بابرکت نکاح کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ عورت اپنے ولی کی رضامندی کے ساتھ نکاح کرے۔ انسان کے والدین اس کی تعلیم وتربیت اور نشوونما کے لیے بہت کوششیں کرتے ہیں اور اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کے بچے کا رشتہ اچھے طریقے سے انجام پائے۔ والدین کی غالب اکثریت اپنی اولاد کے ساتھ انتہائی مخلص ہوتی ہے لیکن بعض دفعہ والدین کی اجازت کے بغیر اور بالخصوص والد کی رضامندی کے بغیر ہی اولاد اپنا نکاح اپنی مرضی سے کر لیتی ہیں جس کی وجہ سے والدین کی نیک تمنائیں اور دعائیں ان کے شاملِ حال نہیں ہوتیں اور شرعی اعتبار سے بھی ایسا نکاح باطل ہے۔ اس حوالے سے اہم حدیث درج ذیل ہے:
مسند احمد میں سیدہ عائشہ صدیقہؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''جب عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لے تو اس کا نکاح باطل ہو گا، اس کا نکاح باطل ہو گا،اس کا نکاح باطل ہو گا‘‘۔
4۔ لڑکی کی رضامندی: جہاں نکاح کے بابرکت ہونے کے لیے ولی کی رضا مندی ضروری ہے وہیں لڑکی کی رائے کو بھی اس حوالے سے خصوصی اہمیت دینی چاہیے۔ بعض لوگ اپنی بیٹیوں کی مرضی کو نظر انداز کرکے ان کا نکاح کر دیتے ہیں یہ طریقہ کسی بھی طرح مناسب نہیں اور اس کے آئندہ آنے والی زندگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے دینِ اسلام کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ایک خاتون کو اس کا خطرہ ہوا کہ ان کا ولی (جس کے وہ زیرِ پرورش تھیں) ان کا نکاح (ان کی مرضی کے خلاف) کر دے گا‘ حالانکہ وہ اس نکاح کو ناپسند کرتی تھیں؛ چنانچہ انہوں نے قبیلہ انصار کے دو شیوخ عبدالرحمن اور مجمع کو‘ جو جاریہ کے بیٹے تھے‘ کہلا بھیجا۔ انہوں نے تسلی دی کہ کوئی خوف نہ کریں کیونکہ خنساء بنت خذام رضی اللہ عنہا کا نکاح ان کے والد نے ان کی ناپسندیدگی کے باوجود کر دیا تھا تو رسول اللہﷺ نے اس نکاح کو رد کر دیا تھا۔
5۔ نکاح میں سادگی: ہمارے معاشرے میں شادی میں بے برکتی کی بہت بڑی وجہ جہیز کے ناجائز مطالبات اور شادی میں اضافی رسوم ورواج کا ہونا ہے۔ اگرشادی کی تقریبات کو سادہ رکھا جائے اور اس کو اخلاص کی بنیاد پر کیا جائے تو اس میں یقینا برکت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے اہم حدیث درج ذیل ہے:
سنن ابی داؤد میں روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: کیا تم اس بات سے راضی ہو کہ میں تمہارا نکاح فلاں عورت سے کر دوں؟ اس نے جواب دیا: ہاں، پھر عورت سے کہا: کیا تم اس بات سے راضی ہو کہ فلاں مرد سے تمہارا نکاح کر دوں؟ اس نے بھی جواب دیا: ہاں! چنانچہ آپﷺ نے ان دونوں کا نکاح کر دیا، اور آدمی نے اس سے صحبت کر لی لیکن نہ تو اس نے مہر متعین کیا اور نہ ہی اسے کوئی چیز دی، یہ شخص غزوہ حدیبیہ میں شریک تھا اور اسی بنا پر اسے خیبر سے حصہ ملتا تھا، جب اس کی وفات کا وقت ہوا تو کہنے لگا کہ رسول اللہﷺنے فلاں عورت سے میرا نکاح کرایا تھا، لیکن میں نے نہ تو اس کا مہر مقرر کیا اور نہ اسے کچھ دیا، لہٰذا میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنا خیبر سے ملنے والا حصہ اس کے مہر میں دے دیا؛ چنانچہ اس عورت نے وہ حصہ لے کر ایک لاکھ میں فروخت کر دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حدیث کے شروع میں ان الفاظ کا اضافہ کیا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''بہتر نکاح وہ ہے جو سب سے آسان ہو۔‘‘
6۔ دعوتِ ولیمہ: نکاح کو بابرکت بنانے کیلئے ولیمہ بھی ازحد ضروری ہے‘ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک عورت سے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونے کے مہر پر نکاح کیا ہے۔ نبی کریمﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے‘ دعوتِ ولیمہ ضرور کرو‘ خواہ ایک بکری ہی ہو۔
مندرجہ بالا نکات پہ عمل پیرا ہوکر نکاح کو آسان اور بابرکت بنایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق دے‘آمین!