وطنِ عزیز میں ہر سال دو دفعہ تعطیلات ہوتی ہیں۔ گرمیوں کی لمبی تعطیلات کے علاوہ سردیوں کی شدت کے دوران بھی مختصر تعطیلات ہوتی ہیں۔ ان چھٹیوں میں طالب علم مفید سرگرمیوں میں حصہ لینے کے بجائے اپنے وقت کا زیادہ حصہ ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ والدین بھی بالعموم اپنے بچوں کی رہنمائی کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور بچے کھیل کود اور موبائل میں اپنا وقت صرف کر بیٹھتے ہیں۔ تعطیلات کا مفید استعمال بھی ممکن ہے بشرطیکہ اس حوالے سے بچوں کی اچھے طریقے سے رہنمائی کی جائے۔ اس حوالے سے والدین کی رہنمائی کرنا بھی ازحد ضروری ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کو ان تعطیلات میں مفید سرگرمیوں کی طرف راغب کر سکیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وقت کی لہریں نہایت تیز ہیں اور ان کے گزرنے کا کچھ اندازہ نہیں ہو پاتا۔ جو لوگ اپنے فارغ وقت کو اچھی اور مثبت مصروفیات میں گزارتے ہیں ان کی آنے والی زندگی پہ اس کے مثبت نتائج مرتب ہوتے ہیں اور ان کے مدمقابل‘ جو لوگ اپنے وقت کو گنوا بیٹھتے ہیں انہیں مستقبل میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ چنانچہ ہمیں تعطیلات کے وقت کو مفید اور بہتر بنانے کے لیے بعض اہم اُمور کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ جب ہم قرآنِ مجید، کتبِ احادیث، تاریخ اور سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں فارغ وقت کو گزارنے کے حوالے سے بھی مفید رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ تعطیلات میں جو بعض اہم اُمور انجام دیے جا سکتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت: انسان کی دنیا میں آمد کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور عبادت میں اپنے وقت کو صرف کرے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ذاریات کی آیت نمبر 56میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو‘ مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہماری زندگی کا حقیقی مقصد اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی ہے۔ چنانچہ ہمیں خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی‘ ان تعطیلات میں کثرت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کی طرف راغب کرنا چاہیے ۔اس حوالے سے بعض اہم اُمور درج ذیل ہیں:
(الف) نمازوں کو قائم کرنا : اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں پر دن میں پانچ نمازوں کو فرض کیا ہے اور نماز ِپنجگانہ کی ادائیگی کے لیے اپنے آپ کو آمادہ وتیار رکھنا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے اہلِ خانہ کو بھی نماز کی تلقین کرنا‘ انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مریم میں اس بات کا ذکر کیا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے اہلِ خانہ کو نماز کی ادائیگی کا حکم دیتے ہیں۔ سورہ مریم کی آیت نمبر 55 میں ارشاد ہوا: ''اور تھا وہ حکم کرتا اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طہٰ کی آیت نمبر 132میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور حکم دیں اپنے گھر والوں کو نماز کا اور آپ (خودبھی) پابند رہیں اس پر‘ نہیں ہم سوال کرتے آپ سے رزق کا‘ ہم (ہی تو) رزق دیتے ہیں آپ کو‘‘۔
(ب)ذکرِ الٰہی: انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرنا چاہیے اور صبح وشام اس کی تسبیح بیان کرنی چاہیے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کی زندگی کے اندھیروں کو دور فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیات 41 تا 42میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یاد کر و اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنا ‘ اور تسبیح (پاکیزگی) بیان کرو اُس کی صبح وشام‘‘۔ اپنی اولادوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر کی طرف راغب کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس کی برکت سے یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید اور نصرت شاملِ حال ہو گی اور مستقبل کی زندگی کے سنورنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔
(ج) دُعا: دُعا مومن کا ہتھیار ہے اور انسان کو زندگی کے مختلف نشیب وفراز کے دوران دعاؤں کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ دُعا انبیاء کرام علیہم السلام اور رسول اللہﷺ کا طریق ہے۔ جو شخص دعا پر مداومت اختیار کرتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید اور نصرت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 186میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جب آپ سے پوچھیں میرے بندے میرے بارے میں‘ تو (بتا دیں) بے شک میں قریب ہوں، میں قبول کرتا ہوں دعا کرنے والے کی پکار کو‘ جب وہ مجھے پکارے ۔ پس چاہیے کہ (سب لوگ) حکم مانیں میرا اور چاہیے کہ وہ ایمان لائیں مجھ پر تاکہ وہ راہِ راست پالیں‘‘۔
2۔ مطالعہ: بچوں کو چھٹیوں میں مطالعہ کی طرف راغب کرنا چاہیے اور انہیں کسی نہ کسی اچھی مذہبی ، تاریخی اورمعلوماتی کتاب کا مطالعہ کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ مطالعہ انسان کی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا کرتا ہے اور انسان میں تجزیے اور تحلیل کی بے پناہ صلاحتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ دورِ حاضر میں یہ بات محسوس کی جاتی ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے مطالعہ کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ سے حاصل ہونے والی معلومات کبھی بھی کتب کا متبادل نہیں ہو سکتیں؛ چنانچہ انسانوں کو مطالعے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ سردیوں کی تعطیلات میں کسی ایک جامع کتاب کا مطالعہ کرنا طالب علموں کے لیے ممکن ہے جس کے نتیجے میں ان کے علمی رسوخ اور پختگی میں اضافہ ہو گا اور مستقبل میں یہ مطالعہ اُن کے کام آئے گا۔
3۔ مفید تقاریر اور لیکچرز کا سننا: چھٹیوں میں مفید تقاریر اور لیکچرز کا سننا بھی انسان کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ انٹر نیٹ پر اس وقت بہت سے مفید اور معلوماتی لیکچر ز موجود ہیں جن کو تواتر سے سننے سے انسان کے علم اور بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ چنانچہ طالب علموں کو ان چھٹیوں میں ہر روز ایک مفید لیکچر سن کر اپنی دینی اور دنیاوی معلومات میں اضافہ کرنا چاہیے۔
4۔ اہلِ علم کی صحبت: اہلِ علم ودانش کی صحبت سے بھی انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ کئی مرتبہ انسان کو کتابوں سے وہ کچھ حاصل نہیں ہوتا جو اہلِ علم اور دانش کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے۔ سال بھر کی تعلیمی مصروفیات کے دوران اہلِ علم تک رسائی حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے لیکن ان تعطیلات میں بہرحال انسان اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ اہلِ علم کی صحبت سے فیض یاب ہو کر اپنے علم کو پختہ کر سکے۔ چنانچہ انسان کو ان چھٹیوں کا مثبت استعمال کرتے ہوئے اہلِ علم تک رسائی حاصل کرنی چاہیے اور اپنے گردو پیش میں رہنے والے علماء، دانشوروں کے ساتھ رابطہ استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر ممکن ہو تو ان سے ملاقاتوں کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ انسان ان کی زندگی کے تجر بات اور مشاہدات سے سبق حاصل کرسکے۔
5۔غریبوں اور مریضوں کی عیادت اور تعاون: چھٹیوں میں انسان کو اپنے گردوپیش میں رہنے والے مجبور، مقہور اور مریض لوگوں کی مدد اور تعاون کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس طریقے سے انسان بہت سی دعاؤں اور نیک تمناؤں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ ہر علاقے میں د کھ، درد ، تکالیف اور پریشانیوں کاشکار لوگ بستے ہیں جو دیگر لوگوں کی مدد اور تعاون کے مستحق اور حقدار ہوتے ہیں لیکن لوگ اپنی مصروفیات کی وجہ سے ان کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ان چھٹیوں میں ان لوگوں تک رسائی حاصل کرنا اور ان کی معاونت کرنا انسان کے لیے یقینا خیر، بھلائی اور دعاؤں کو سمیٹنے کا بہت بڑا ذریعہ بن سکتا ہے اور اس طریقے سے انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو سمیٹنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگ انسانوں کی ہمدردی کی وجہ سے وہ کچھ حاصل کر لیتے ہیں جو اپنے وقت کو دیگر مشغولیات میں لگانے کے ساتھ حاصل نہیں کر پاتے۔
6۔ بزرگ رشتہ داروں سے ملاقات: ان چھٹیوں میں طالب علموں کو اپنے رشتہ داروں خصوصاً بزرگوں سے بھی ملاقاتوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بہت سے بزرگ تنہائی کی زندگی کی وجہ سے غموں اور دکھوں کی گہرائیوں میں اُتر جاتے ہیں اور ان کو دیگر انسانوں کی باز پرس ، ہمدردی، حمایت اور دلاسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ ان چھٹیوں میں ہمیں اس کارِخیر کو بھی انجام دینا چاہیے اور بزرگ رشتہ داروں کی دعاؤں اور نیک تمناؤں کو بھی اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی بھرپور جستجو کرنی چاہیے۔
7۔ تعلیمی معاملات کی طرف توجہ: طالب علموں کو ان چھٹیوں میں تعلیمی حوالے سے لاپروائی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اپنے تعلیمی اُمور پر توجہ دینی چاہیے اور سکولوں اور کالجوں میں جو علم حاصل کیا ہے‘ اس کو دُہرا کر پختہ کرنا چاہیے۔ یقینا دہرائی کے ساتھ انسان کا علم ترقی کرتا اور پختگی کی منازل اورمدارج طے کرتا ہے۔ دُہرائی کے ساتھ اس کا علم دل کی گہرائی تک پہنچ جاتا ہے اور انسان کے نفس پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جو لوگ اپنے علم کو دہراتے رہتے ہیں وہ مستقبل میں ترقی کے مدارج بھی طے کرتے رہتے ہیں؛ چنانچہ ہمیں ان چھٹیوں میں جو علم حاصل ہوا اس کی دہرائی کی کوشش کرنی چاہیے اورا س کے ساتھ ساتھ مستقبل کے اسباق پر بھی نظر رکھنی چاہیے تاکہ جب مستقبل کے اسباق کو پڑھنے کا وقت آئے تو انسان کے دل ودماغ میں مضمون سے شناسائی کی کیفیت موجو د ہو۔ اس کیفیت کے نتیجے میں جب وہ ان اسباق کو پڑھتا ہے تو اس کو انہیں سمجھنے اور ذہن نشین کرنے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔
اگر سردیوں کی تعطیلات کو ان اُمور کو مدنظر رکھتے ہوئے اچھے طریقے سے بسر کرلیا جائے تو یقینا تعطیلات کا بہترین مصرف نکل سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر انسان اپنے وقت کو ضائع کر بیٹھتا ہے اور یہ وقت کا ضیاع یقینا انسان کے مستقبل کے لیے نقصان کا سبب ہوتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ صحیح طور پر ہمیں اپنے فارغ وقت کو استعمال کرنے کی توفیق دے، آمین !