گرمیوں کی تعطیلات میں لوگوں کی بڑی تعداد اپنے اہلِ خانہ اور دوست‘ احباب کے ساتھ مختلف پہاڑی علاقوں کا سفر کرتی ہے اور اِس سفر کا مقصد قدرت کے حسن سے آگاہی کے ساتھ ساتھ گرمیوں کی تپش سے بچنا بھی ہوتا ہے۔ ان سفروں پر جانے کیلئے لوگ لمبے عرصے تک منصوبے بناتے رہتے ہیں اور بچے اس کو تعطیلات کا ایک اچھا مصرف تصور کرتے ہیں۔ مجھے بھی کئی مرتبہ اپنے اہل و عیال اور دوست احباب کے ساتھ شمالی علاقہ جات میں جانے کا موقع ملا۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں تبلیغی اسفار کے دوران بھی مجھے قدرت کے بہت سے حسین مناظر کو دیکھنے کا موقع ملا۔ آسمان پر تیرتے ہوئے خوبصورت بادل، زمین پر ہر طرف لہلہاتا سبزہ اور فضا میں پرواز کرنے والے خوبصورت پرندے دیکھنے والوں کو طمانیت دیتے ہیں۔ پہاڑوں کے دامن میں جاری خوبصورت چشمے انسان کی نگاہوں پر مسحورکن اثرات مرتب کرتے ہیں۔ قرآنِ مجید سے وابستگی رکھنے والے پر یہ مناظر دیکھ کر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے قرآنِ مجید کی بہت سی آیات اُس کے ذہن میں گردش کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
سورۃ النمل کی آیت نمبر 60 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''(کیا یہ معبود بہتر ہیں) یا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اُتارا تمہارے لیے آسمان سے پانی، پھر ہم نے اُگائے اُس سے باغات رونق والے، نہیں تھا تمہارے لیے (ممکن) کہ تم اُگاتے درخت، کیا کوئی (اور) معبود ہے اللہ کے ساتھ؟ بلکہ وہ لوگ (سیدھی راہ سے) ہٹ رہے ہیں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃالرعد میں بھی حسین باغات، پھلوں اور پھولوں کی مختلف اقسام کا ذکر کیا ۔سورۃ الرعد کی آیات 3 تا 4 میں ارشاد ہوا ''اور وہی ہے جس نے بچھایا زمین کو اور بنائے اس میں پہاڑ اور نہریںاور تمام پھلوں میں سے بنائے جوڑے‘ دو دو (قسم کے)‘ وہ ڈھانپتا ہے رات سے دِن کو‘ بیشک اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کیلئے (جو) غور و فکر کرتے ہیں۔ اور زمین میں ٹکڑے ہیں ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور باغات ہیں انگوروں کے اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں زیادہ تنوں والے (اور جڑ ایک) اور زیادہ تنوں کے بغیر (یعنی ایک تنے والے) انہیں سیراب کیا جاتا ہے ایک پانی سے اور ہم فضیلت دیتے ہیں ان میں سے بعض کو بعض پر (پھلوں کے) ذائقے میں، بیشک اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کیلئے (جو) سمجھتے ہیں‘‘۔
اسی طرح سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 164 میں ارشاد ہوا ''بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں اور ( ان) کشتیوں میں‘ جو سمندر میں چلتی ہیں (وہ چیزیں) لے کر جو نفع دیتی ہیں‘ لوگوں کو اور( اس میں) جو اتارا اللہ نے آسمان سے پانی پھر زندہ (آباد) کیا اس کے ذریعے زمین کو، اس کے مردہ (بنجر) ہو جانے کے بعد اور پھیلا دی اس میں ہر طرح کی جاندار مخلوق اور ہواؤں کی گردش میں اور تابع فرماں بادل میں (جو) درمیان ہے آسمان اور زمین کے (ان سب میں) یقینا نشانیاں ہیں اس قوم کیلئے جو عقل رکھتی ہے‘‘۔
انسان سبزہ زاروں، نہروں، دریاؤں اور خوبصورت بلند وبالا پہاڑوں کو دیکھ کرحُسنِ فطرت میں کچھ اس انداز سے کھو جاتا ہے کہ وہ اِن حسین مناظرسے فقط اُس وقت ہی لطف اندوز نہیں ہوتا بلکہ جب بھی اُن کی یاد آتی ہے تو اس وقت اُن دلکش مناظر کے دلفریب اثرات کو اپنے دل و دماغ میں اترتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ قدرت کے حسین مناظر دیکھ کر ایک عام انسان کے ذہن میںجو خاکہ ابھرتا ہے، اس کا نتیجہ فطرت کے مناظر کی تحسین اور تعریف کی شکل میں نکلتا ہے۔ انگریزی زبان میں بہت سے شاعر فقط حُسنِ فطرت کی تعریف اور توصیف کے حوالے سے معروف ہوئے جن میں''ولیم وَرڈز وَرتھ‘‘ کا نام سرفہرست ہے۔ اِن حسین مناظر کو دیکھ کرفقط حسن فطرت ہی سے مرعوب اور مانوس ہو جانا ایک مسلمان کیلئے کافی نہیں ہے بلکہ اُس کو اِن حسین مناظر کو دیکھ کرجہاں فطرت کی دلکشی اور رعنائی کا معترف ہونا چاہیے‘ وہیں اُس خالق کائنات کی عظمت اور کبریائی کا احساس بھی اُس کے دِل میں ابھرنا چاہیے جس نے ان خوبصورت اور حسین مناظرکو پیدا کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اس حقیقت کا ذکر سورہ فاطر کی آیات 27 تا 28 میں اہل علم کے حوالے سے کچھ اِس انداز میں کیا ہے ''کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ بیشک اللہ نے آسمان سے پانی نازل کیا، پھر ہم نے نکالے اس کے ذریعے (ایسے) پھل (کہ) مختلف ہیں اُن کے رنگ اور پہاڑو ں میں سے کچھ سفید قطعات (گھاٹیاں) ہیںاور کچھ سرخ (قطعات) ہیںاُن کے رنگ مختلف ہیں اور کچھ بہت گہرے سیاہ۔ اور لوگوں
میں سے اور جانوروں (میں سے) اور چوپاؤں (میں سے کچھ ایسے ہیں کہ) اُن کے رنگ (بھی) اسی طرح مختلف ہیں، بیشک صرف اہلِ علم اللہ سے ڈرتے ہیں اُس کے بندوں میں سے‘ بیشک اللہ خوب غالب‘ بہت بخشنے والا ہے‘‘۔
ان آیات مبارک سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اہل علم، قدرت کے مناظر پر غور کرکے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کے احساسات سے لبریز ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ کائنات کی وسعتوں کو دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ کائنات اتنی وسیع، خوبصورت اور بڑی ہے تو اس کو بنانے والا کس قدر بڑا ہو گا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی حقیقت کا ذکر سورۃ آل عمران کی آیات 190 تا 191 میں کچھ یوں فرمایا ہے ''بیشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں نشانیاں ہیں عقل والوں کیلئے۔ وہ لوگ جو ذکر کرتے ہیں اللہ کا کھڑے ہوکر اور بیٹھ کر اور اپنے پہلوؤں کے بل اور غور و فکر کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں (اور کہتے ہیں) اے ہمارے رَب! نہیں پیدا کیا تو نے یہ (سب کچھ) بیکار، تو پاک ہے (ہر عیب سے) پس بچا ہمیں آگ کے عذاب سے‘‘۔
اِن آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق پر غور و فکر کرنے کے بعد انسان کے دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی معرفت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ زمین و آسمان کی وسعتوں کو دیکھ کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی کبریائی، بلندی اور اُس کی تخلیق کے غیر معمولی احساسات سے لبریز ہوکر اپنی کم مائیگی کے احساس میں کچھ اس طرح مبتلا ہو جاتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب سے پناہ کا طلبگار بن جاتا ہے۔ اس کے مدمقابل کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیںجو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت سی آیات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے باوجود بھی اُن سے اعراض کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ یوسف کی آیات 105 تا 106 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور کتنی ہی نشانیاں ہیں آسمانوں اور زمین میں (کہ) وہ گزرتے ہیں ان پر سے اس حال میں کہ وہ ان سے اعراض کرنے والے ہوتے ہیں۔ اور نہیں ایمان لاتے ان میں سے اکثر اللہ پر مگر اس حال میں کہ وہ شریک بنانے والے ہیں‘‘۔
انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس وسیع و عریض کائنات میں سفر کرنے کے دوران اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی مختلف قسم کی نشانیوں کو دیکھنے کے بعد یقینا اپنے خالق و مالک کی معرفت حاصل کرنی چاہیے۔ اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کیلئے کوشاں رہنا چاہیے۔ یقینا اللہ تبارک و تعالیٰ کی آیات کو نظر انداز کرکے فقط دنیا ہی کی زندگانی کو اپنا مقصود بنا لینے والے لوگ ناکا م و نامراد ٹھہریں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الکہف کی آیات 103 تا 106 میں ارشاد فرماتے ہیں ''کہہ دیجئے کیا ہم خبر دیں تمہیں اعمال کے اعتبار سے زیادہ خسارہ پانے والوں کی۔ (یہ) وہ لوگ (ہیں) کہ ضائع ہو گئی ان کی کوشش دنیاوی زندگی میں حالانکہ وہ گمان کرتے ہیں کہ بیشک وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے انکار کیا اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا‘ تو ضائع ہو گئے ان کے اعمال‘ سو نہیں ہم قائم کریں گے ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن۔ یہ ان کی سزا ہے جہنم‘ اس وجہ سے کہ انہوں نے کفر کیا اور انہوں نے بنایا (اڑایا) میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق‘‘۔
دُنیا کی زندگی میں کھو جانے والے اور اپنی عاقبت کو فراموش کرنے والے لوگوں کے انجام کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الکہف ہی میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے راستے کو اختیار کریں گے اُن کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بلند جنتوں کو تیار کررکھا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الکہف کی آیات 107 تا 108 میں ارشاد فرماتے ہیں ''بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل کیے نیک، ہوں گے اُن کیلئے فردوس کے باغات بطور مہمانی۔ (وہ) ہمیشہ رہنے والے ہیں اس میں‘ نہیں وہ چاہیں گے اس سے جگہ بدلنا‘‘۔
دنیا دارالعمل اور آخرت دارالجزا ہے؛ چنانچہ دین اور دنیا میں توازن رکھ کے اپنی زندگی کو بسر کرنا، ہر اعتبار سے قابل تحسین ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں بہترین دعا کا ذکر کیا جس میں دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو طلب کیا گیا ہے لیکن دنیا کے حسن میں اس انداز میں کھو جانا کہ انسان ہر چیز کو فراموش کر دے‘ یہاں تلک کہ اپنے خالق و مالک اور مقصد زندگی کو بھی بھول جائے، کسی بھی طور پر درست اور فائدہ مند نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو قدرت کے حسین مناظر کو دیکھ کر درست سمت پر گامزن ہونے کی توفیق دے‘ آمین!