دنیا میں جو بھی آیا ہے اُس کو ایک دن دنیا سے ضرور جانا پڑے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو قرآنِ مجید کے مختلف مقامات پر بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے ۔ سورۂ قصص کی آیت نمبر 88میں ارشاد ہوا: ''ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے مگر اُس کا چہرہ (یعنی ذات)‘ اُسی کے لیے حکم ہے (فرمانروائی) اور اُسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ رحمن کی آیات 26 تا 27میں بھی اس حقیقت کو کچھ یوں فرماتے ہیں : ''ہر ایک جو اس (زمین ) پر ہے فنا ہونے والا ہے۔ اور باقی رہے گا آپ کے رب کا چہرہ (جو) صاحبِ جلال اور عزت والا ہے‘‘۔
بعض لوگ دنیا میں رہتے ہوئے ایسی زندگی گزارتے ہیں کہ لوگ ان کے چلے جانے پر خوشی اور فرحت محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگ زمین پر اپنے خالق و مالک کی بغاوت کرنے والے اور انسانیت کو ظلم کانشانہ بنانے والے ہوتے ہیں۔ آنے والی نسلوں میں بھی اُن کو برے ناموں اور القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ فرعون ، قارون، ہامان، شداد، نمرود اور ابولہب کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے کہ دنیا سے چلے جانے کے کئی صدیوں بعد بھی لوگ انہیں برے انداز سے یاد کرتے ہیں اور اُن کے بارے منفی تبصرے کرتے رہتے ہیں۔ خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے کلام میں ایسے لوگوں کی داستانوں کو عبرت کے طور پر پیش کیا ہے۔ اُس کے مدمقابل ایسے لوگ بھی ہیں کہ جب وہ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو ان کی رحلت پر لوگ انتہائی غمزدہ ہو جاتے ہیں اور اُن کے جانے کے بعد اُن کے تذکرے اچھے الفاظ میں کیے جاتے ہیں۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی رحلت یقینا انسانیت کے لیے سب سے بڑا نقصان تھا ۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے ورثا اس زمین پر علمائے ربانی ہیں۔ علما کرام زمین پر اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے نبیوں کی تعلیمات کو آگے بڑھاتے اور دین کے پیغام کو ہرسُو پہنچاتے ہیں۔ کسی بھی باعمل عالمِ دین کا انتقال یقینا بہت بڑا سانحہ ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے :
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا‘ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے بلکہ وہ (پختہ کار) علما کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا، حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار (پیشوا) بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
صحیح بخاری ہی میں عمل کے حوالے سے ایک اہم اثر موجود ہے ۔حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ تمہارے پاس رسول اللہ ﷺکی جتنی بھی حدیثیں ہوں‘ ان پر نظر کرو اور انہیں لکھ لو کیونکہ مجھے علمِ دین کے مٹنے اور علمائے دین کے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے اور رسول اللہ ﷺ کے سوا کسی کی حدیث کو قبول نہ کرو اور لوگوں کو چاہیے کہ علم پھیلائیں اور (ایک جگہ جم کر) بیٹھیں تا کہ جاہل بھی جان لے اور یقینا علم چھپانے ہی سے ضائع ہوتا ہے۔
احادیث اور آثار سے اس بات کو جاننا کچھ مشکل نہیں کہ عالم کی موت یقینا ایک بہت بڑا سانحہ ہے اور اس کے نتیجے میں علم میں واضح طور پر کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اسی لیے جب بھی کبھی باعمل عالمِ دین کا انتقال ہوتا ہے تو دیگر تشنگانِ علم کی طرح میں بھی اس صدمے کو نہایت گہرے انداز میں محسوس کرتا ہوں۔ اسی قسم کے ایک عالم دین 29 مئی کے روز اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔
حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی ایک عظیم عالم دین تھے۔ آپ نے ساری زندگی دین کی خدمت میں گزار دی۔ آپ قرآنِ مجید کے عظیم مفسر اور احادیث کے بہترین شارح تھے۔ آپ 50 برس سے زیادہ عرصہ درس و تدریس سے وابستہ رہے اور ہزاروں کی تعداد میں تشنگانِ علم نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذکو تہ کیا۔ آپ نے بہت سی دینی کتابوں کا ترجمہ کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو جو قلمی صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں‘ اُن کو بروئے کار لاتے ہوئے قرآنِ حکیم کی ایک عظیم تفسیر کو بھی مرتب کیا۔ یہ تفسیر یقینا اس عہد کی بہترین تفاسیر میں شمار ہوتی ہے۔ اس تفسیر کو بغور پڑھنے والا قرآنِ مجیدکے معانی اور مفاہیم سے نہایت احسن انداز سے واقفیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ حافظ عبدالسلام بن محمد کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے خطابت کی صلاحیتوں سے بھی بہرہ ور کیا تھا۔ آپ جب خطاب کرتے تو آپ کے خطاب میں کتاب وسنت کے دلائل بکثرت موجود ہوا کرتے تھے اور سننے والا آپ کے استدلال اور طرزِ بیان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ آپ کی گفتگو سلیس اور رواں ہوتی تھی۔ لوگ آپ کے خطبات اور دروس نہایت ذوق و شوق سے سُنا کرتے تھے۔
میرا حافظ عبدالسلام بن محمد کے ساتھ کئی اعتبار سے نہایت گہرا تعلق تھا۔ آپ میرے نانا جان حافظ محمد گوندلویؒ کے ارشد تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح والدِ گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر ؒ کے ساتھ بھی آپ کا انتہائی گہرا دوستانہ تعلق تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا۔ جب آپ گفتگو کرتے تو کمال کرتے اور اسی طرح آپ میں گفتگو سننے کی بھی بہت زیادہ صلاحیت تھی۔ آپ جس شخص کی بات کو درست سمجھتے اُس کی بے ساختہ توثیق فرما دیا کرتے تھے اور گفتگو کے جس حصے پر آپ کو اعتراض ہوتا‘ اس پر زیادہ بحث کرنے کے بجائے اُس کو نظر انداز کر دیا کرتے تھے۔ مجھے کئی مجالس میں آپ کے ساتھ ملاقات کا موقع میسر آیا۔ آپ کے ساتھ ایک طویل ملاقات اُس وقت ہوئی جب ملتان آرٹ کونسل ہال میں ہونے والی ایک تقریب اُن کے ہمراہ مجھے بھی بطور مہمان مقرر مدعو کیا گیا تھا۔ سٹیج پر ہم مختلف حوالوں سے تبادلۂ خیال کرتے رہے اور مقررین کے خطاب میں بیان کیے گئے علمی نکات سے محظوظ بھی ہوتے رہے۔ مولانا نے اس دن بہت زیادہ شفقت اور پیار کا مظاہرہ کیا اور بہت سے اُمور پر ان سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا۔ آپ کی گفتگو آپ کے علم اور عمل کی آئینہ دار تھی۔ آپ جہاں ایک بڑے صاحبِ علم تھے وہیں اس علم پر عمل کرنے کو بھی اپنے لیے انتہائی ضروری سمجھتے تھے اور ایک باعمل عالمِ دین ہونے کی وجہ سے عوام الناس آپ کا بہت زیادہ احترام اور اکرام کیا کرتے تھے ۔
عصرِ حاضر میں بہت سے لوگ جماعتی وابستگی کی وجہ سے اپنے مؤقف وغیرہ کو تبدیل کر لیتے ہیں لیکن حافظ عبدالسلام بن محمد کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ وقار اور سلیقہ عطا کیا تھا کہ آپ جس بات کو درست اور حق سمجھتے تھے‘ اس کا اظہار جماعتی وابستگی سے بالا تر ہو کر بلاچون و چرا فرما دیا کرتے تھے۔ آپ کی حق گوئی اور حق پرستی کی وجہ سے بہت سے لوگ بالخصوص علما کرام آپ کی شخصیت کا احترام کرنے پر مجبور ہو جایا کرتے تھے۔
مولانا حافظ عبدالسلام بن محمد ایک بلند پایہ محقق اور مصنف ہونے کے باوجود انتہائی سادہ طبیعت کے حامل تھے۔ آپ سادہ لباس پہنتے اور کسی بھی قسم کی آلائش اور تکبر کو اپنے مزاج کا حصہ نہ بننے دیتے تھے۔ جو شخص بھی آپ سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتا آپ اُس کی طرف متوجہ ہو کر اس کی گفتگو سنتے اور اُس کے سوالات کا تسلی بخش جواب دیا کرتے تھے۔ حافظ صاحب کی مجلس میں بیٹھ کر کبھی یہ بات محسوس نہ ہوتی کہ وہ کوئی اجنبی شخصیت ہیں بلکہ حافظ صاحب سامع کے ساتھ ایک مونس اور غم خوار سرپرست والا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔ ان کے دنیا سے چلے جانے سے یہ محسوس ہوا کہ گویا کہ علم کا ایک سمند ر اور عمل کا ایک پہاڑ دنیا سے چلا گیا ہے۔ مولانا یقینا اس عہد میں علم ، آگہی ، شعور اور عمل کی پہچان تھے اور آپ کی خدمات ہر اعتبار سے سنہری حروف کے ساتھ لکھے جانے کے قابل ہیں۔
مولانا عبدالسلام بن محمد کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس انداز میں قبولیت عطا فرمائی کہ آپ کی تفاسیر اور شروحات سے جہاں مدارس کے طلبہ اور اساتذہ مستفید ہوتے ہیں‘ وہیں کالجز اور یونیورسٹیوں کی سطح پر بھی آپ کی تفاسیر اور مقالا جات سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ مولانا کی تصنیفی خدمات کے حوالے سے پنجاب یونیورسٹی سمیت دیگر بہت سی جامعات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر مقالا جات کا کام جاری ہے۔ مولانا کی خدمات پر ڈاکٹریٹ سطح کے تحقیقی کا م سے اس بات کااندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مولانا کی دینی اور تدریسی خدمات کو کس انداز میں شرفِ قبولیت سے نوازا ہے۔
مولانا حافظ عبدالسلام بن محمد کی وفات یقینا علمی دنیا میں بہت بڑا خلا ہے جو مدتِ مدید تک پُر نہیں ہو سکے گا۔ مولانا کے ساتھ عوام کی والہانہ وابستگی کا اظہار اس وقت بھی ہوا جب 30مئی کو مرکز طیبہ میں مولانا کی نماز جنازہ کو ادا کیا گیا۔ اس جنازے میں ملک بھر سے ہزاروں افراد شریک ہوئے اور جنازے میں اکثریت علمائے کرام اور طالب علموں کی تھی۔ جنازے کے موقع پر تمام افراد نے گڑ گڑا کر مولانا کے لیے دُعائے مغفرت کی اور مولانا کو اشکبار آنکھوں کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ مولانا نے اپنے ترکے میں عظیم تصنیفی کام اور شاگردوں کی ایک عظیم جماعت چھوڑی ہے جو ان شاء اللہ قیامت کی صبح تک کے لیے مولانا کے لیے صدقہ جاریہ کا کردار ادا کرتی رہے گی ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مولانا کی قبر پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے ،اُنہیں کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے ، ان کوغریقِ رحمت کرے اور اُن کے پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، آمین!