"AIZ" (space) message & send to 7575

نماز کی اہمیت

اس زمین پر انسان کی آمد کا حقیقی مقصد کیا ہے؟ اس حوالے سے مختلف علوم کے ماہرین اپنے اپنے انداز میں تجزیہ کرتے رہتے ہیں لیکن اس حوالے سے ہمیں قطعی اور حتمی معلومات بہر حال کتاب وسنت ہی سے حاصل ہو سکتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انبیاء کی آیت نمبر 16میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور نہیں ہم نے پیدا کیا آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کھیلتے ہوئے (یعنی بے مقصد پیدا نہیں کیا)‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بنی نوع انسان کو کسی مقصد کے تحت پیدا کیا ہے۔ اسی حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مومنون کی آیت نمبر 115میں ارشاد فرماتے ہیں: ''تو کیا تم نے سمجھ لیا ہے کہ ہم نے پیدا کیا تمہیں بے مقصد (ہی) اور یہ کہ بے شک تم‘ ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ ذاریات میں مقصدِ تخلیق کو نہایت احسن طریقے سے واضح فرمایا ہے۔ سورہ ذاریات کی آیت نمبر 56میں ارشاد ہوا: ''اور میں نے تمہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔ اس آیتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جن و انس کی تخلیق کا مقصد اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عبادت کے مختلف طریقہ ہائے کار کو اپنے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے بنی نوع انسان پر واضح فرما دیا اور اس کے ساتھ ساتھ انبیاء علیہم السلام نے طاغوت کی بندگی سے بچنے کی تلقین بھی کی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ انعام کی آیت نمبر 36میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور بلاشبہ یقینا ہم نے بھیجا ہر اُمت میں ایک رسول کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو‘‘۔
انبیاء علیہم السلام نے بنی نوع انسان کی اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادات کے جن طریقہ ہائے کار کی طرف رہنمائی کی اُن میں سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں آکر نماز پڑھنا سرفہرست ہے۔ جب ہم انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات اور سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ نماز پر مداومت اختیار کرتے رہے اور اپنے اہلخانہ کو بھی اس کی ادائیگی کی تلقین کرتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مریم کی آیت نمبر 55 میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں: ''اور تھا وہ حکم کرتا اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا اور تھا وہ اپنے رب کے نزدیک پسندیدہ‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے بھی اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن کو نماز کی ادائیگی کی وصیت کی تھی۔ سورہ مریم کی آیت نمبر 31 میں ارشاد ہوا: ''اور اس نے مجھے وصیت کی ہے نماز اور زکوٰۃ کی جب تک میں زندہ رہوں‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام کا ذکر کرتے ہوئے سورہ یونس کی آیت نمبر 87 میں ارشاد فرمایا: ''اور ہم نے وحی کی موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف یہ کہ تم دونوں ٹھکانا بنا لو اپنی قوم کے لیے مصر میں کچھ گھروں کو اور بناؤ اپنے گھروں کو قبلہ رُخ اور قائم کرو نماز اور خوشخبری دے دی مومنوں کو‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ساتھ قرآن مجید میں کئی دوسری مقدس شخصیات کا بھی ذکر کیا جن کو نماز کی ادائیگی کا حکم دیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 43میں حضرت مریم علیہا السلام کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں: ''اے مریم! فرمانبردار رہنا اپنے رب کی اور سجدہ کرو اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ‘‘۔
زمین پر بیت اللہ شریف کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور عبادت ہی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ قرآن مجیدکے سینکڑوں مقامات پر نمازکی ادائیگی کی تلقین کی گئی اور نماز کو احسن اور درست طریقے سے ادا کرنے کے حوالے سے بہت سے مقامات پر مختلف انداز میں ترغیب دی گئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 43میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ‘‘۔ اسی طرح سورہ بقرہ ہی کی آیت نمبر 238میں ارشاد ہوا: ''حفاظت کرو نمازوں کی اور درمیانی نماز کی (یعنی نماز عصر) اور کھڑے ہوا کرو اللہ کے سامنے ادب و نیاز سے‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں پر نمازوں کی حفاظت کا حکم دیا وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی حفاظت کے حوالے سے نمازوں کو وقتِ مقررہ پر ادا کرنے کی بھی تلقین کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 103میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک نماز ہے مومنوں پر فرض مقررہ اوقات میں‘‘۔ نبی کریمﷺ نماز کے ساتھ بہت زیادہ محبت فرمایا کرتے تھے۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔سنن نسائی میں حدیث نمبر 3391ہے کہ ''مجھے دنیا کی چیزوں میں عورتیں اور خوشبو بہت محبوب ہیں، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں کر دی گئی ہے‘‘۔
2۔صحیح بخاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ''اگر تمہارے گھر کے سامنے کوئی نہر بہتی ہو تو تم میں سے کوئی ہر روز پانچ بار اس میں غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی بچے گا‘‘؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: نہیں! اس کے بدن پر کوئی میل نہیں ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ''یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے‘ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے‘‘۔
3۔ صحیح مسلم میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ''جو نمازوں کی حفاظت کرے تو پانچوں نمازیں اور جمعہ کے بعد دوسرا جمعہ پڑھنا گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے بشرطیکہ کبیرہ گناہ نہ کیے جائیں‘‘۔
4۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ''جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائیں گے (یعنی فجر اور عصر)۔
5۔ صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ''جب تک تم اپنے مصلے پر ہو اس وقت تک فرشتے رحمت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک وہ نمازی بے وضو نہ ہو جائے‘‘۔
6۔ صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ''جو شخص عشا کی نماز باجماعت پڑھے تو گویا وہ آدھی رات تک قیام کرتا رہا۔ جو شخص صبح کی نماز باجماعت پڑھتا ہے تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا ہے‘‘۔
7۔ صحیح ابن حبان میں سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صفوں کے درمیان ایک سے دوسرے کونے تک چلتے اور ہمارے کندھوں‘ سینوں کو ہاتھ لگا کر سیدھا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تم باہم اختلاف نہ کرو‘ وگرنہ تمہارے دلوں میں اختلاف ہو جائے گا‘‘۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ''بے شک اللہ تعالیٰ اور فرشتے پہلی صف والوں پر رحمتیں بھیجتے ہیں‘‘۔
8۔ صحیح ابن خزیمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ''صفوں کو درست کرو‘ کندھوں کے درمیان برابری کرو‘ صفوں میں خلل کو بند کرو‘ اپنے ساتھیوں کیلئے نرمی پیدا کرو اور شیطان کیلئے خالی جگہ نہ چھوڑو‘ جو صفوں کو ملاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ملا دیتا ہے‘ جو توڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو توڑ دیتا ہے‘‘۔
9۔سنن ترمذی میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ''فجر کی دو رکعات (سنتیں) دنیا و مافیہا سے بہتر ہیں‘‘۔
10۔ترغیب و ترھیب میں روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ''جو شخص مسلسل چالیس روز تک تکبیر اُولیٰ کے ساتھ نماز پڑھتا رہا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دو آزادیاں لکھ دیتا ہے‘ ایک جہنم سے آزادی اور دوسری منافقت سے آزادی‘‘۔
نماز تو نماز رہی نبی کریمﷺ کو جماعت کیساتھ نماز کی ادائیگی سے اس قدر محبت تھی کہ آپ بلا عذر جماعت سے پیچھے رہنے والوں کے بارے میں شدید غصے کا اظہار فرماتے تھے۔ اس حوالے سے صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو ایک نماز میں غیر حاضر پایا تو فرمایا: ''میں نے (یہا ں تک) سوچا کہ کسی آدمی کو لوگوں کی امامت کرانے کا حکم دوں‘ پھر دوسری طرف سے ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز سے پیچھے رہتے ہیں اور ان کے بار ے میں (اپنے کارندوں کو) حکم دوں کہ لکڑیوں کے گٹھوں سے آگ بھڑکا کر ان کے گھروں کو ان پر جلا دیں۔ ان میں سے اگر کسی کو یقین ہو کہ نماز میں حاضری سے اسے فربہ (گوشت سے بھر ہوئی) ہڈی ملے گی تو وہ اس میں ضرور حاضر ہو جائے گا‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عشا کی نماز تھی۔
عصر حاضر کے مسلمان کو نمازوں کو اُسی طرح اہمیت دینی چاہیے جس طرح کتاب اللہ اور سنت نبوی شریف میں اس کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ لیکن بدنصیبی سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد فجر کی نماز اپنے بستر‘ ظہر کی نماز اپنی دکان‘ عصر کی نماز کاروباری مصروفیت‘ مغرب کی نماز شام کی سیر اور عشاء کی نماز کسی نہ کسی تقریب میں گنوا بیٹھتی ہے۔ کل قیامت کے روز ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے اپنے طرز عمل کے حوالے سے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ نماز کو ہماری ترجیح ہونا چاہیے۔ اگر ہم نماز کو ترجیح دیں گے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہم اللہ کی مدد اور نصرت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سور ہ بقرہ کی آیت نمبر 153میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو‘ مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے‘ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام اہلِ ایمان کو نمازوں کی حفاظت کرنے کی توفیق دے۔ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں