ہمارے ملک میں قیادت کے حوالے سے مختلف طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ ایک لیڈر یا قائد کو بااثر، صاحبِ مال اور بڑے قبیلے کا فرد ہونا چاہیے۔ اس کے مدمقابل بعض لوگ محنت کش، ملنسار اورغریب عوام کے کام آنے والے قائد کی باتیں کرتے ہیں۔ قائد یعنی لیڈر اور راہ نما کے حوالے سے پائے جانے والے کئی تصورات کو عملی اعتبار سے ممکن تصور نہیں کیا جاتااور اس حوالے سے یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ ایسے اوصاف جن کو لوگ اپنے قائدمیں دیکھنا چاہتے ہیں‘ان کا حصول عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ حقیقت میں قیادت کے بارے میں پائے جانے والے تصورات میں کئی دفعہ افراط و تفریط کا معاملہ بھی پایا جاتا ہے اور لوگ کئی مرتبہ ان اوصاف کی بنیاد پر اپنا قائد منتخب کرتے ہیں جن کا حقیقت میں قیادت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس مسئلے میں قرآنِ مجید نے تمام اقوامِ عالم کی نہایت اَحسن انداز میں رہنمائی کی ہے۔ قرآنِ مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کسی بھی قائد میں مندرجہ ذیل اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے۔
(1) علم اور طاقت: قرآنِ مجید کا مطالعہ یہ بات سمجھاتا ہے کہ جس شخص کے پاس علم اور طاقت ہوتی ہے وہ شخص قیادت کا فریضہ بہتر انداز میں سرانجام دے سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حوالے سے قرآنِ مجید میں حضرت طالوت علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا کہ جن کا تقرر بنی اسرائیل کے مطالبے پرکیا گیا تھا۔ حضرت طالوت علیہ السلام صاحبِ مال نہ تھے جس پر بنی اسرائیل کے لوگوں کو اعتراض ہوا ۔اس کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃالبقرہ کی آیت نمبر246 سے247 میں کچھ یوں فرماتے ہیں ''کیا آپ نے موسیٰ کے بعد والی بنی اسرائیل کی جماعت کو نہیں دیکھا کہ جب انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ کسی کو ہمارا بادشاہ بنادیجئے تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ پیغمبر نے کہا کہ ممکن ہے کہ جہاد فرض ہوجانے کے بعد تم جہاد نہ کرو، انہوں نے کہا: بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کردیے گئے ہیں۔ پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سوائے تھوڑے سے لوگوں کے‘ سب پھر گئے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اور انہیں ان کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنادیا ہے تو وہ کہنے لگے: بھلا اس کی ہم پر حکومت کیسے ہوسکتی ہے؟اس سے تو بہت زیادہ بادشاہت کے حقدار ہم ہیں، اس کو تو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی۔ نبی نے فرمایا: سنو!اللہ تعالیٰ نے اسی کو تم پر برگزیدہ کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے، اور اللہ جسے چاہے بادشاہت دے، اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے‘‘۔
(2) حکمت اور قوتِ بیان: جب ہم قرآنِ مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسی عظیم شخصیات کا ذکر کیا جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکومت عطا فرمائی تھی۔ ان شخصیات میں ایک شخصیت حضرت داؤد علیہ السلا م ہیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ ص کی آیت نمبر 20 میں ارشاد فرمایا ''اور ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کردیا تھا اور اسے حکومت دی تھی اور بات کا فیصلہ کرنا‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قائد میں دانائی اورفیصلہ کن بات کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ حکمت اور قوتِ کلام کی وجہ سے قائد اہم امور کی نشاندہی بھی کردیتا ہے اوراپنے پیروکاروں اور رائے عامہ کو صحیح طریقے سے اپنا مؤقف سمجھانے کی پوزیشن میں بھی آجاتا ہے۔
(3) خواہشات سے اجتناب: قرآنِ مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو اپنی ذاتی خواہشات سے اجتناب کرنا چاہیے اور عوام الناس کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرنا چاہیے۔ خواہشات کے پیچھے لگنے کی وجہ سے انسان کئی مرتبہ لوگوں کی حق تلفی کا مرتکب ٹھہرتا ہے اور خواہشات سے اجتناب کرنے کی صورت میں انسان لوگوں کے حقوق کو پامال کرنے سے محفوط رہتا اوران کے حقوق کی ادائیگی کا بہترین راستہ اپنانے کے قابل ہوجاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام ہی کے حوالے سے سورۂ ص کی آیت نمبر 26 میں اس بات کا ذکر کیا کہ ''اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنادیا، (پس) تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو‘ ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکادے گی‘‘۔
(4) رعایا کے اموال کی حفاظت : کامیاب قائد وہ ہوتا ہے جو عوام الناس کے اموال اور ان کی املاک کی اچھے طریقے سے حفاظت کرتا ہے اور جو عوام الناس کے اموال یا بیت المال کے خزانے میں تصرف کرے، اسے قیادت کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کا ذکر حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے سے کیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہِ مصر کو یہ بات کہی تھی جس کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ یوسف کی آیت نمبر55 میں کچھ یوں کیا ''اس (یوسف)نے کہا: آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کردیجئے، میں حفاظت کرنے والا اور باخبر ہوں‘‘۔
(5) کارکنان اور عوام کے ساتھ نرمی: قائد کو اپنے کارکنان، رعایا اور عوام کے ساتھ نرمی والامعاملہ کرنا چاہیے اور اس کے سامنے رسول اللہﷺ کی شخصیت کا بہترین ماڈل ہونا چاہیے جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں رؤف اور رحیم کہہ کر پکارا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کا ذکرقرآنِ مجید کی سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر159 میں کیا ہے کہ آپﷺ کی نرمی کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کے گردمحبین کے ہجوم کو جمع فرما دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں ''اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بدزبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے استغفار کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں، پھر جب آپ کا (کسی کام کی بابت) پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں جہاں قیادت کے اوصاف کا ذکر کیا وہیں قیادت کی بہت سی ذمہ داریوں کا بھی ذکر کیاجن میں سے چار اہم ترین ذمہ داریوں کا ذکر سورۃ الحج کی آیت نمبر 41 میں کیا گیا ہے۔ (1) نماز کا قیام۔ (2) زکوٰۃ کی ادائیگی۔ (3) نیکی کا حکم دینا۔ (4) برائی سے روکنا۔ قیادت پر مزید کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں‘ ان کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
(5) عدل و انصاف کا قیام: معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام کسی بھی قائد کی بنیادی ذمہ دار ی ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمہ وقت عدل وانصاف کے قیام کے لیے کوشاں رہتے۔ آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہونے والے تمام جرائم کے دوران آپﷺ نے انصاف اور عدل سے کام لیا۔ اس حوالے سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے صحیح مسلم میں ایک اہم حدیث بیان کی ہے کہ ''بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، اسے نبی کریمﷺ کے سامنے لایا گیا تو اس نے نبی کریمﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی پناہ لی تو نبیﷺ نے فرمایا:اگر فاطمہ (بنت محمد)بھی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔
(6) خزانے کی تدوین: حکمرانوں کی یہ بھی اہم ذمہ داری ہے کہ وہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی حکومت کا ذکر کیا کہ جب اللہ نے ان کو اقتدار دیا توانہوں نے غلے اور اجناس کو پوری طرح استعمال کرنے کی بجائے اُس کے ایک حصے کو ذخیرہ کر لیا اور جب عالمگیر قحط نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا توان کا ذخیرہ کیا ہوا غلہ نہ صرف اہلِ مصر کے کام آیا بلکہ پوری دنیا سے ضرورت مند لوگ مصر کا رخ کرکے اپنی غذائی ضروریا ت کو پورا کرتے رہے۔
(7) فتنوں کا انسداد: حکمرانوں کی یہ بھی اہم ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں موجود فتنوں کے انسداد کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حضرت ذوالقرنین کا ذکر کیا جنہیں زمین میں بڑا اقتدار دیا گیا تھا۔ انہوں نے یاجوج اور ماجوج کے فتنے کا قلع قمع کرنے کے لیے مؤثر کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ الکہف کی آیت نمبر 93 سے97 میں واقعہ بیان کرتے ہیں ''یہاں تک کہ جب وہ دو دیواروں کے درمیا ن پہنچا تو ان دونوں کے پرے اس نے ایسی قوم پائی جو بات سمجھنے کے قریب بھی نہ تھی۔ انہوں نے کہا: اے ذوالقرنین!یاجوج ماجوج اس ملک میں (بڑے بھاری) فسادی ہیں تو کیا ہم آپ کے لیے کچھ خرچ کا انتظام کردیں (اس شرط پر کہ)آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنادیں؟اس نے جواب دیا کہ میرے اختیار میں میرے پروردگار نے جو دے رکھا ہے وہی بہتر ہے، تم صرف قوتِ طاقت سے میری مدد کرو۔ میں تم میں اور ان میں مضبوط حجاب بنادیتا ہوں۔ مجھے لوہے کی چادریں لادو، یہاں تک کہ جب ان دونوں پہاڑوں کے درمیان دیوار برابر کردی تو حکم دیا کہ آگ تیز جلا ؤ تاوقتیکہ لوہے کی ان چادروں کو بالکل آگ کردیا۔ تو فرمایا: میرے پاس لاؤپگھلا ہوا تانبا کہ اس پر ڈال دوں۔ پس پھر ان میں اس دیوار کے اوپر چڑھنے کی طاقت تھی اور نہ اس میں کوئی سوراخ کر سکتے تھے‘‘۔
نبی کریمﷺ نے قرآنِ مجید کے مطابق احکامات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مثالی حکومت کی اور بہترین انداز سے حکمرانی کے فرائض کو سرانجام دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حقوق کو بھی احسن طریقے سے ادا کرتے رہے اور مخلوق کی خدمت کو بھی بطریق احسن ادا کرتے رہے۔ خلفائے راشدین کی مثالی حکومتوں نے تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا اور خدمتِ انسانیت کے حوالے سے‘ بعد میں آنے والے حکمران اُن کے کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہاں تلک کہ غیر مسلم لوگ بھی ان کی حکومتوں کا احسن انداز سے ذکرکرتے رہے۔ موجودہ دور میں ہمارے حکمران اور قائدین اُن اوصاف سے محروم ہیں جو مثالی حکمرانوں میں ہونے چاہئیں اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو بھی اس طریقے سے ادا نہیں کررہے، جس طریقے سے انہیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہیے۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اچھے اوصاف والی ایسی قیادت عطا کرے جو اُن ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن ادا کرے جو اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے حوالے سے ان پر عائد ہوتی ہیں، آمین!