دنیا میں جو شخص بھی آیا ہے اس کو اس دارِ فانی سے ایک نہ ایک دن کوچ کرنا ہے لیکن بعض لوگ دنیا سے ایسے رخصت ہوتے ہیں کہ انسانوں کے اذہان وقلوب پر بڑے گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ کسی بھی بڑے عالم کے انتقال کے بعد اس کی محبت اور یاد میں کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ لوگ جس طرح زندگی میں اس سے پیار‘ محبت اور اس کا عزت واحترام کرتے ہیں اس کی وفات کے بعد بھی اس کے ساتھ محبت اور احترام کا معاملہ جاری رہتا بلکہ پہلے سے بڑھ جاتا ہے۔ آئمہ دین‘ جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی خدمت کے لیے وقف کیے رکھا‘ ان کو ہم سے جدا ہوئے سینکڑوں برس بیت چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی تصانیف اور تحقیقات سے ہم آج بھی استفادہ کرتے اور ان کے کام کی وجہ سے ان کی عزت‘ احترام اور ان کی محبت کو اپنے دل میں اترتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ برصغیر میں بڑے بڑے جید علماء پیدا ہوئے‘ جنہوں نے علمِ دین کی روشنی کو برصغیر کے طول وعرض میں پھیلایا اور لوگ ان کے علم سے مستفید ہوتے رہے۔ وہ آج دنیا میں نہیں لیکن ان کے کاموں کی خوشبو آج بھی لوگوں کے اذہان و قلوب کو معطر کرتی رہتی ہے۔ برصغیر میں جو بڑے صاحبِ قلم علماء گزرے ان میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا نام سر فہرست ہے۔ لوگ آج بھی آپ کی تصنیفات اور تحقیقات سے استفادہ کرتے اور آپ کے کاموں کی وجہ دین کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کے علاوہ بھی بہت سے جید علماء یہاں پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کیے رکھا‘ تقسیم ہند کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔
کچھ علماء ایسے ہوتے ہیں جن کو جماعتی اور تنظیمی اعتبار سے نمایاں حیثیت حاصل ہوتی ہے اور ان کے انتقال پر لوگ بہت زیادہ صدمہ محسوس کرتے ہیں۔ والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ جمعیت اہلحدیث پاکستان کے ناظم اعلیٰ تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ علمی اعتبار سے بھی تحقیق وتصنیف اور تقاریر میں مشغول رہا کرتے تھے۔ آپ کے حلقہ درس میں لوگ کثیر تعداد میں شریک ہوتے اور آپ کے جلسوں میں بڑے شوق سے شرکت کرتے۔ والد گرامی کے انتقال کو آج 38 برس سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے لیکن اس کے باوجود آپ کی یادوں کی خوشبو سے دل کا چمن مہک رہا ہے اور ہرخوشی وغمی کے موقع پرآپ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ والد گرامی کے بعد بھی بہت سے ممتاز اہلِ علم اور جماعتی عمائدین دنیا سے رخصت ہوئے‘ مولانا سمیع الحقؒ اور قاضی حسین احمدؒ ان شخصیات میں شامل ہیں جن کی وفات کی خبر میرے لیے بہت بڑا صدمہ تھی۔ اس لیے کہ یہ دونوں افراد ملک میں اللہ کے دین اور شعائرِ دین کے دفاع کے لیے ہمہ وقت وقف رہا کرتے تھے۔
گزشتہ چند ہفتوں سے ملک کے ممتاز رہنما اور عالم دین پروفیسرساجد میر صاحب علیل تھے۔ انہوں نے راولپنڈی سے ریڑھ کی ہڈی کے مہرے کا آپریشن کرایا تھا جس کے بعد بظاہر تو ان کی طبیعت بہتر نظر آ رہی تھی لیکن اس کے باوجود وہ نقاہت کا شکار تھے۔ تین مئی کے روز اچانک یہ اطلاع ملی کہ پروفیسر صاحب اس دنیائے فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ یہ خبر جہاں مرکزی جمعیت اہلحدیث کے علما اور پروفیسر ساجد میر صاحب کے چاہنے والوں کیلئے شدید صدمے کا باعث تھی وہیں ان کے چاہنے والے اور ہر جماعت اور ہر مکتبِ فکر کے لوگوں نے بھی اس خبر پر گہرے غم اور دکھ کو محسوس کیا۔ یہ خبر سنتے ہی مجھے والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ کی شہادت کے بعد سے پروفیسر ساجد میرؒ کی وفات تک کے بہت سے واقعات یاد آنے لگے۔ والد گرامی کے انتقال کے بعد پروفیسر صاحب گاہے گاہے ہمارے گھر تشریف لاتے اور صدمے کے ایام میں دکھ بانٹنے میں مصروف رہا کرتے تھے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میرا ان سے بہت گہرا تعلق رہا اور ان کے ہمراہ بہت سے اسفار کا بھی موقع ملا۔ اندرونِ ملک سفر کرنے کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک بھی ان کے ہمراہ سفر کرنے کا موقع ملتا رہتا۔ سعودی عرب کے ایک سرکاری دورے میں پروفیسر ساجد میر‘ حافظ عبدالکریم اور قاری صہیب احمد میر محمدی کے ہمراہ میں نے ایک بڑا ہی یادگار دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں سعودی عرب کے اہم وزرا کے علاوہ امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں شیخ سدیس نے پروفیسر ساجد میر صاحب کے ساتھ بہت زیادہ محبت کا اظہار کیا۔ زندگی میں بعض ایسے لمحات بھی آئے جب تنظیمی امور پر آرا کا اختلاف ہوا لیکن اس کے باوجود باہمی پیار‘ محبت اور ادب واحترام میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔
رواں سال فروری میں بنگلہ دیش کے تبلیغی دورے پر بھی ہمیں اکٹھے جانے کا موقع ملا۔ ڈھاکہ کی بین الاقوامی کانفرنس میں جہاں پروفیسر ساجدمیر صاحب نے خطاب کیا وہیں مجھے بھی اپنی معروضات کو سامعین کے سامنے رکھنے کا موقع ملا۔ اس دوران ایک ساتھ جمعیت اہلحدیث بنگلہ دیش کے دفاتر اور ان کے تنظیمی نیٹ ورک کو دیکھنے کا موقع ملا۔ اس سفر میں کئی مقامات پر ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال کا موقع ملتا رہا۔ ہم جب بھی ایک دوسرے سے ملتے‘ ماضی کی یادیں تازہ ہو جایا کرتی تھیں۔ جب پروفیسر صاحب علیل ہوئے تو میں راولپنڈی کے مقامی ہسپتال میں ان کی عیادت کرنے گیا تھا۔ اس وقت وہ مجھے بالکل ہشاش بشاش محسوس ہوئے اور تب بھی ماضی کے حوالے سے بہت سی باتیں ہوتی رہیں۔ پروفیسر صاحب علاج کے بعد اپنے گھر منتقل ہو گئے اور اس بات کی اطلاعات ملتی رہیں کہ اب ان کی طبیعت میں بہتری آ رہی ہے مگر تین مئی کو جب اچانک یہ خبر ملی کہ پروفیسر صاحب کا انتقال ہو گیا ہے تو گزشتہ تیس‘ پینتیس برس کے دوران پیش آئے بیشمار واقعات دماغ میں گردش کرنا شروع ہو گئے۔
پروفیسر ساجد میر صاحبؒ ایک مصروف تنظیمی اور مذہبی رہنما تھے لیکن اس کے باوجود عبادات کی بجاآوری پر خصوصی توجہ دیتے اور تلاوتِ قرآن مجید کی طرف بھی مائل رہا کرتے۔ ان کی طبیعت میں اپنے قریبی دوستوں کے لیے ایک خاص قسم کی شگفتگی پائی جاتی تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں زبان وبیان کی نزاکتوں کو سمجھنے کی صلاحیت عطا کر رکھی تھی اور ان کے مزاج میں خوش طبعی کا ایک عنصر بھی موجود تھا۔ اس خوش طبعی کا اظہار ان کی گفتگو سے ہوتا رہتا تھا‘ جب وہ اپنے مخصوص حلقے میں بیٹھتے تھے۔ وہ ایک خوش لباس اور باوقار انسان تھے اور اپنے وقت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ایک بھرپور تنظیمی اور جماعتی زندگی گزاری۔ ان کے جنازے میں سیاسی اور مذہبی طبقات سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات نے شرکت کی۔ پروفیسر ساجد میر کے جنازے کو سیالکوٹ کی تاریخ کا ایک بڑا جنازہ قرار دیا گیا ہے۔ حافظ مسعود عالم نے بڑے دردِ دل سے ان کے لیے دعائے مغفرت کی اور سیاسی ومذہبی رہنمائوں نے ان کی وفات پر دل کی گہرائیوں سے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ وفاقی وزرا خواجہ آصف اور احسن اقبال کے علاوہ سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق‘ مولانا عبدالغفور حیدری‘ مولانا اسد محمود‘ حافظ طلحہ سعید اور مولانا محمد احمد لدھیانوی نے دل کھول کر پروفیسر ساجد میر کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ میں نے بھی اس موقع پر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ جنازے کے موقع پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل سوگوار تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہم سے ہماری قیمتی متاع چھن گئی ہے اور ہمارا قریبی عزیز اس دنیا سے رخصت ہو گیا ہے۔ یقینا اس طرح کے جنازے انسان کو موت کا احساس بھی دلاتے ہیں اور انسان یہ بات سمجھنے کے قابل ہوتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور جلد یا بدیر‘ یہاں سے ہر کسی کو کوچ کرنا ہوگا۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ پروفیسر ساجد میرؒ صاحب کی حسنات کو قبول ومنظور فرمائے‘ ان کے گناہوں سے درگزر فرمائے اور ان کے لواحقین‘ پسماندگان اور اہلِ جماعت کو صبرِ جمیل عطا فرمائے‘ آمین!