احتساب کی جرأت

تمہیں اس کی جرأت کیسے ہوئی؟ اپنی حدود میں رہو! تمہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ! تمہیں مسئلہ کیا ہے؟ تم پوچھنے والے کون ہوتے ہو؟وغیرہ وغیرہ۔ ان سیاست دانوں، تجزیہ کاروں اور دانشوروں کے رد ِعمل کو اگر ایک لفظ میں بیا ن کرنا چاہیں تو وہ یہی '' اشتعال انگیز لہجہ‘‘ ہے ۔ یہ افراد ''اداروں ‘‘ کی اس جسارت پر سیخ پا ہیں کہ اُنہیں سیاست دانوں، سرکاری افسروں ، بزنس مین اور سول سوسائٹی سے یہ پوچھنے کی جرأت کیسے ہوئی کہ اُن کے افعال قانون کے دائرے میں کیوں نہیں ہیں۔ جن سیاست دانوں سے اُن کے بھاری بھرکم غیر دستاویزی اثاثوںکی بابت پوچھ گچھ ہورہی ہے، وہ چیخ چیخ کر اس عمل کو ''تیسرے فریق ‘‘ کی مداخلت کا نام دے رہے ہیں۔ تجزیہ کار اس چکردار صورت ِحال کی حمایت یا مخالفت کررہے ہیں۔حمایت یا مخالفت کا دارومدار اُن کے زاویہ ٔ نگاہ پر ہے ۔ کاروباری طبقہ اور دانشور وغیرہ، جوبڑھتے ہوئے احتساب کے عمل سے خائف ہیں، عدالتوں اور نیب کی فعالیت، قانون، زبان، الفاظ، لہجے، اندازاوراقدام کی جراحت کرتے ہوئے غلط کو صحیح کرنے کی کوشش میں ہیں۔ 
مشتعل''جمہوریت بچائو'' گروپ کا خوف قابل ِ فہم ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی اشرافیہ سے اس کے ذائع آمدنی، اثاثہ جات، عوامی فنڈز کے غلط استعمال، غیر اعلانیہ دولت یا کم ظاہر کیے گئے اثاثوں کی بابت اتنے سنجیدہ سوالات نہیں پوچھے گئے ہیں۔ ان کا گزشتہ تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ زیادہ تر سیاست دانوں کی فائلیں اور کیس چلتے رہتے ہیں۔ انہیں وقتاً فوقتاً اٹھایا جاتا ہے ۔ اُس وقت وہ اہم ترین ایشو بن کر ابھرتے ہیں، لیکن پھر ''بہتر سوچ ‘‘غالب آجاتی ہے، ''قانونی وضاحت ‘‘ کی سند مل جاتی ہے، ''سیاسی پختگی کا مظاہرہ ‘‘ دیکھنے میں آتا ہے اور ''جمہوریت کی خاطر ‘‘فائلیں اور کیسز میز کے نیچے چلے جاتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہورہا ۔ اب اُن کی فائلیں میز کے نیچے نہیں، اس کے اوپر کھلی پڑی ہیں۔ اس سے پہلے کبھی اتنی رفتار سے یہ امور سرانجام نہیں پائے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ''پاکستانی جمہوریت پر سب سے بڑا شب خون ‘‘ قرار دیا جارہا ہے ۔ 
تاہم جعلی جمہوری رہنما چاہے کتنے ہی تجربہ کار کیوں نہ ہوں، اُن کی زبان پھسل ہی جاتی ہے ۔ جمہوریت کے نجات دہندہ کا کردار ادا کرتے ہوئے سابق وزیر ِاعظم کی زبان پھسل گئی اور سچ منہ سے نکل گیا۔۔۔''اگر میرے اثاثے آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے تو تمہیں کیا؟‘‘نہیں جناب، ہمیں مسئلہ ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ اعلیٰ ترین عوامی عہدے پر فائز ایک شخص، جس کے پاس کھربوں روپے کے عوامی فنڈز ہوتے ہیں، حقیقی جمہوریت میں ایک ایک پائی خرچ کرنے پر جواب دہ ہوتا ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں بدعنوانی سے فائدہ اٹھانے والا ایک نیٹ ورک وجود میں آچکا ہے ۔ اس میں خاندان اور دوستوں پر مشتمل ٹولہ براہ ِراست فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہے ۔ بالواسطہ فائدہ اٹھانے والوں میں سرکاری افسران، اداروں کے سربراہان، سول سوسائٹی ، وکلا، صحافی اور بزنس مین شامل ہیں۔ گزشتہ چار عشروں سے جاری یہ نظام اس قدر رچ بس گیا ہے کہ ایک طرح کا معمول دکھائی دیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی بدعنوانی کا ارتکاب کرنے والوں اور ان کے سہولت کاروں پر ہاتھ ڈالا جائے گا تو ''متاثرین ‘‘ کی طرف سے ردعمل آنا لازمی امر ہے ۔ عشروںسے معاف کرائے گئے قرضے، تشہیر پر اربوں روپوں کے اخراجات، مہنگی مشاورت، اداروں کے پرکشش عہدوں،مہنگے غیر ملکی دوروں، ہائوسنگ کے منصوبوں اور کنٹریکٹس سے حاصل کی دولت کی سلطنت اب تنکوں کی طرح بکھرنا شروع ہوگئی ہے ۔ 
احتساب پر کیے جانے والے ا س ''احتجاج ‘‘ کے ساتھ مسلۂ یہ ہے کہ سابق وزیر ِاعظم اور اُن کی فیملی کے اثاثہ جات کا انکشاف پاناما لیکس کے ذریعے ہوا۔ یہ ایک عالمی سطح کا اسکینڈل تھا، چنانچہ اسے کسی ملکی ادارے کی جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کی سازش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور پھر حکمران خاندان نے ان اثاثوں کا وجود تسلیم بھی کرلیا ۔ اربوں روپے کی منی ٹریل فراہم کرنے میں ناکامی کی پاداش میں اُنہیں نااہلی ، اور احتساب ریفرنس کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن کی طرف سے اعتراض، اور ان کے بیانیے کو پھیلانے والوں کا موقف یہ ہے کہ اگر پاناما ہی حقیقی کیس تھا تو سابق وزیر ِاعظم کو اقامے کی بنیاد پر کیوں نکالا گیا۔ کیا احمقانہ دلیل ہے! یہ اسی طرح ہے کہ اگر کسی چور کے خلاف کیش چرانے کی ایف آئی آر درج کی جائے ، اور اس سے چوری شدہ جیولری برآمد ہوجائے تو کیا چور کو چھوڑ دیا جائے کہ اس جیولری کا ایف آئی آر میں ذکر نہ تھا۔ اقامہ کا بیانیہ بذات ِخود بدعنوان ٹولے اور ان کے سہولت کاروں کی مایوسی کو ظاہرکررہا ہے ۔ درحقیقت اُن کا مطلب ہے کہ چند ہزار کی بدعنوانی پر وزیر ِاعظم کو کیوں برطرف کیا گیا۔ گویا اُن کے نزدیک بدعنوانی کا پیمانہ اربوں کھربوں کی خورد برد ہے ۔ اس سے کم پر جمہوریت کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے ۔
ایک ایسے ملک، جہاں کئی عشروں سے اشرافیہ اور طاقت ور حلقے اربوں روپے آرپار کرچکے ہوں اور کوئی پتا تک نہ کھڑکا ہو، وہاں احتساب کے موجودہ عمل کو شک و شبے کی نظروںسے ہی دیکھا جائے گا۔ فیصلے پر پہلا ردِعمل یہ تھا کہ یہ ایک ''کمزو ر فیصلہ ‘‘ ہے ۔ دوسرا یہ کہ فوج قبضہ کرنے کے لیے تیار کھڑی ہے ،اور تیسرا اور تازہ ترین بیانیہ اسے ''جوڈیشل مارشل لا ‘‘ قرار دے رہا ہے ۔ خاطر جمع رکھیں، ایسا کچھ نہیں ہونے جارہا۔ اب احتساب کا دائرہ پھیل رہا ہے ۔اس کی زد میں دیگر سیاسی جماعتیں بھی آئیں گی۔ ایسے افراد پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا جن کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا۔ چنانچہ ان خوفزدہ حلقوں کے پاس ایک ہی بیانیہ باقی رہ گیا ہے کہ یہ احتساب جمہوریت کے خلاف ایک طے شدہ سازش ہے ۔ 
اس دلیل کے ساتھ واحد مسئلہ یہ ہے کہ احتساب کا عمل ''انجینئرڈ ‘‘ نہیں ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یوں ہے کہ پنجاب میں 56 کمپنیاں عوام کے مال پر بے رحم دعوت اُڑا رہی تھیں۔ ''صاف پانی کمپنی ‘‘ نے 400 کروڑ روپوں پر ہاتھ صاف کرلیے ، لیکن عام آدمی کو صاف پانی کا ایک قطرہ تک نہ ملا۔ یہی صورت ِحال تعلیم، صحت ، ماحولیات وغیرہ کی ہے ۔ حقیقی جمہوریت ایسی لوٹ مار ، اور عوام کے استیصال کی اجازت کس طرح دے سکتی ہے ؟ 
احتساب کی جرأت کی حقیقی جانچ یہ ہوگی کہ اس کی رسائی کس قدروسیع، گہری اور بلند ہے ، اور کیا یہ مہم خاص و عام، سب کو قانونی مساوات میں کھڑا کرتی ہے یا نہیں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ طاقت ور ''ڈان ‘‘ کو چھوڑ کر معمولی کارندوں کو ہی پکڑنے پر اکتفا کرلے ؟ کیا یہ سابق حکمرانوں کو بھی گرفت میں لائے گی جو ملک کو لوٹ کر بیرونی ممالک میں مزے سے رہ رہے ہیں ؟کیا یہ پیشہ ور رائے سازوں سے اغماض تو نہیں برتے گی جو پیسے لے کر رائے عامہ پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں ؟کیا احتساب کا ہاتھ اُن کے گریبان تک بھی پہنچے گا جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر تقدیس کے پردے میں چھپے بیٹھے ہیں؟اگر ایسا ہوتا ہے، یا اس سے نصف بھی ہوپاتا ہے تو پھر اس ''جمہورت بچائو ‘‘گروپ کو اپنی دھماچوکڑی چھوڑ کر کچھ اور سوچنا پڑے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں