ووٹر کو بااختیار بنانا

پچیس جولائی‘ فیصلے کے دن کی اب الیکشن کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے ۔ جس دوران سیاسی جماعتیں اور الیکشن کمیشن اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف ہیں ‘ ووٹر کو آگاہی دنیا اور باخبر رکھنا ضروری ہے‘ تاکہ وہ درست طریقے سے ملک کے مستقبل کا تعین کرسکے ۔ اپنی تعریف کے اعتبار سے جمہوریت کا مطلب اکثریتی رائے قائم ہونے والی حکومت ہے ۔ اس اکثریتی رائے کے دائرے کے اندر آگاہی اور چوائس کا معیار ووٹر کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ ملک کو بہتر حکومت دے سکے ۔ 
بہت سے عوامل ایک ووٹر کو کسی پارٹی یا کسی مخصوص امیدوار کو ووٹ دینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ عوامل جذباتی اور حقیقت پسندی کے ادغام سے تشکیل پاتے ہیں۔ جذباتی عوامل کا تعلق اس بات سے ہے کہ ایک ووٹر کے لیے کسی جماعت سے تعلق کیا اہمیت رکھتا ہے‘ نیز امیدوار کی تاریخ اور پس ِ منظر‘ اور امیدوار کی چلائی گئی انتخابی مہم ووٹر کو کس درجہ متاثر کرتی ہے ۔حقیقت پسندی کا تعلق اس فائدے سے ہے جو کسی مخصوص امیدوار یا جماعت کی کامیابی کی صورت ووٹر کو ملنے کی امید ہوتی ہے ۔ ان میں قومی اہمیت کے مسائل ‘ جیسا کہ لوڈ شیڈنگ اورمہنگائی کا حل اورعلاقے میں ترقیاتی منصوبوں اور ملازمت کے مواقع کے امکانات بھی شامل ہیں۔
ووٹر کی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا آسان نہیں۔ حتیٰ کہ ترقی یافتہ جمہوریتوں کے تعلیم یافتہ ووٹر وں کی کسی پارٹی سے وابستگی بھی غیر متزلزل ہوتی ہے ۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں روایتی طور پر دوجماعتی نظام رائج ہے ۔ برطانیہ میں کنزرویٹو اور لیبر‘ جبکہ امریکہ میںرپبلکن اور ڈیموکریٹ بڑی پارٹیاں ہیں۔ تاہم بہت سی دیگر جماعتیں پریشر گروپس کے طور پر حکومت پر دبائو برقرار رکھتی ہیں‘ یا حکومت کے کولیشن پارٹنرزبن کر حکومت سازی میں مدد دیتی ہیں۔ بھارت میں بھی مرکزی جماعتوں‘ کانگرس اور بی جے پی کے درمیان انتخابی معرکہ ہوتا ہے ۔پاکستان میں بھی دوجماعتی نظام رہا ہے ۔ یہاں روایتی طور پر ووٹوں کا ایک بڑا حصہ پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کے درمیان تقسیم ہوجاتا تھا۔ تاہم 2013 ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے اور اس طرح ایک تیسر ی چوائس کے طور پر ووٹروں کے سامنے آئی۔ یہ جمہوری تاریخ کا ایک نادر واقعہ ہے ۔ 
ووٹر جتنے تعلیم یافتہ اور باخبر ہوں گے‘ اتنی ہی سیاسی جماعتیں زیادہ محتاط ہوںگی۔ اور اس سے جمہوریت کو تقویت ملے گی ۔ زیادہ تر غیر ترقی یافتہ ممالک میں ووٹروں کی اکثریت‘ ووٹ دینے کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتی۔ دیہی علاقوں کے ووٹر پہلے سے طے شدہ چوائس کے مطاق ووٹ دیتے ہیں۔ یہ چوائس خاندان‘ یا علاقے کے بڑے یک طرفہ طور پر طے کردیتے ہیں۔ ان علاقوں میں روایتی طور پر برادری سسٹم ہوتا ہے‘ جو خاندان کے کسی بڑے کے ہاتھ غیر مشروط طور پر قوت ِ فیصلہ دے دیتاہے۔ اس طرح خاندان کا بڑا ہی اس بات کا تعین کرتا ہے کہ تمام خاندان کس جماعت یا امیدوار کو ووٹ ڈالے گا۔ پاکستان کے دیہاتی اور نیم دیہاتی ساٹھ فیصد انتخابی حلقوں میں یہی سیاسی ماڈل دیکھنے میں آتا ہے ۔ 
ووٹروں کو تعلیم دینے کے لیے الیکٹرانک میڈیا پر انحصار کرتے ہوئے مہنگی ریلیاں نکالنے کا مطلب تھا کہ برادریوں اور جماعتوں کے ساتھ جڑی عشروں پرانی روایت کا تسلسل پی ایم ایل (ن) اور پی پی پی کو باری باری حکومت میں لاتا رہتا۔ لیکن اس دوران ایک نئی پیش رفت ‘ سوشل میڈیا‘ نے عام رائے دہندگان تک آسان رسائی کو ممکن بنا دیا۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ ماہرین کے مطابق‘ پاکستان خطے میں بیس فیصد اضافے کے ساتھ انٹرنیٹ تک تیز ترین رسائی رکھنے والا ملک ہے ۔ دنیا میں اوسط شرح دس فیصد ہے ۔ پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین میں اضافے کی شرح پینتیس فیصد ہے جبکہ دنیا میں اس کی اوسط شرح اکیس فیصد ہے ۔ اس سے پہلے دیہی علاقوں میں انتخابی مہم صرف پی ٹی وی کے ذریعے ہی ممکن تھی‘ لیکن سولا سولا گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے یہ بہت محدود آپشن تھا۔ لیکن آج سوشل میڈیااور سمارٹ فون اپیلی کیشنز نے ووٹر تک پیغام پہنچانا کہیں زیادہ آسان اور تیز رفتار بنادیا ہے ۔ 
تاہم سوشل میڈیا کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں جھوٹی اور سچی خبروں کے درمیان تمیز بہت مشکل ہوتی ہے ۔فوٹو شاپ پر اپنی مرضی سے تصاویر بنائی جاسکتی ہیں۔ ویڈیوز کو کاٹ کر اپنی مرضی کا مواد نکالا جاسکتا ہے ‘ جعلی اکائونٹس بنا کر لوگوں کو گمراہ کیا جاسکتا ہے ۔ کم تعلیم یافتہ معاشرے میں ایسے مواد پر مبنی سیاسی جماعتوں اور گروہوں کا پراپیگنڈا رائے دہندگان کو گمراہ کرسکتا ہے ۔ نعرہ بازی اور بھڑک دار بیانیے کی اس دنیا میں سچائی کی کھوج آسان نہیں۔ 
پاکستان جیسے ممالک میں جہاں الیکشن کمیشن بھی مکمل طور پر آزاد اور خودمختار نہیں ‘ حکومتیں شفافیت اور احتساب سے آزاد ہیں‘ انتخابی قوانین اور الیکشن افسران اتنے مستعد نہیں کہ نااہل امیدواروں کو چھانٹ کر انتخابی عمل سے الگ کرسکیں‘ وہاں سول سوسائٹی‘ میڈیا اور عوام کا کردار انتہائی اہم ہوجاتا ہے ۔ اگرچہ اب پرانے انتخابی فارم کو بحال کیا جاچکا ہے اور اس کے ذریعے مطلوبہ معلومات حاصل کی جارہی ہیں‘ لیکن یہ ابھی بھی بڑی حد تک ایک معمول کی فارم بھرنے کی کارروائی سے زیادہ کچھ نہیں۔ 
سیاسی جماعتوں اور میڈیا‘ خاص طور پر سوشل میڈیا کے جاندار کردار کا برملا اظہارفاروق بندیال کی پی ٹی آئی میں شمولیت سے ہوا۔ وہ ادکارہ شبنم گینگ ریپ کیس کا سزا یافتہ مجرم تھا۔ وہ انتہائی گھنائونا جرم تھا‘کیونکہ وہ ریپ شبنم کی فیملی کے سامنے کیا گیا تھا‘ اور فاروق بندیال کو تمام گینگ سمیت سزا سنائی گئی تھی ‘ لیکن بعد میں شبنم نے اُسے معاف کردیا۔ اس کی وجہ اس گینگ کی طرف سے اُس کے بیٹے کو جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ وہ گزشتہ بیس برس سے دیگر سیاسی جماعتوں کا رکن تھا‘ لیکن کسی نے اُس کے کردار کو نہیں اچھالا۔ لیکن جیسے ہی اس نے پی ٹی آئی کو جوائن کیا ‘ سوشل میڈیا نے دھماکہ خیز انداز میں اس کا ماضی نکال کر سامنے رکھ دیا۔ پی ٹی آئی کے ناقدین اور حامیوں‘ میڈیا تجزیہ کاروں اور مبصرین نے حقائق سامنے رکھتے ہوئے پی ٹی آئی پر دبائو ڈالا ‘ اور یوں فاروق بندیال کوپی ٹی آئی سے نکال دیا گیا۔ 
یہ ہے معلومات کی طاقت جو جماعتوں پر دبائو ڈال کر ایسے امیدواروں کا راستہ روک سکتی ہے ۔ اس سے دیگر رائے دہندگان کو بھی آگاہی ملتی ہے کہ وہ ایسے افراد کو منتخب نہ کریں۔ اسے نام لینے اور شرم دلانے کی مہم کا نام دیا جاتا ہے ۔ چند سال پہلے جنوبی کوریا میں شہریوں کی اہم ایسوسی ایشنز نے مل کر کام کرتے ہوئے ایسے تمام امیدواروں کی فہرست مرتب کی جن پر بدعنوانی کا الزام تھا۔ تقریباً 80 فیصد امیدوار ‘ جن کے کارنامے عوام کے سامنے لائے گئے تھے‘ الیکشن ہار گئے۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ ووٹر کے پاس معلومات تھیں‘ اور اُنھوںنے اپنے ووٹ کی طاقت سے امیدواروں کا احتساب کرڈالا۔ 
معلومات کی فراہمی کے ذریعے ووٹروں کو بااختیار کرنے کے لیے سہ جہتی پیش رفت درکار ہے ۔ پہلی یہ کہ سیاسی جماعتیں خود بھی امیدوار منتخب کرنے کا کوئی ضابطہ بنائیں‘ اور عوام کے ساتھ ان امیدواروں کی معلومات شیئر کریں جنہیں وہ ٹکٹ دے رہی ہیں۔ دوسری یہ کہ الیکشن کمیشن امیدواروں کی جانچ کا عمل سخت کرے اور کاغذات مسترد کرتے وقت پائے جانے والے تضادات اور غلط بیانیوں کی نشاندہی کرے ۔ تیسری یہ کہ سول سوسائٹی کی تنظیموں اوردیگر ایسی تنظیموں کو ٹکٹ ہولڈرز کا تجزیہ کرکے سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کے ساتھ شیئر کرنا چاہیے ‘ تاکہ لوگ خود فیصلہ کرلیں کہ وہ کسے ووٹ دینا چاہتے ہیں اور کسے نہیں۔ یقینا ایک باخبر‘بااختیار اور متحرک ووٹر ہی جمہوریت کی روح کا بہتر محافظ ہوتا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں