افسر شاہی نہ کہ عوامی

سرکاری افسران کا کام کو ر و کنے کو نرم الفاظ میں بیورو کریسی کہا جاتا ہے ۔ لفظ بیورو کریسی سنتے ہی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے‘ ایک نااہل اور کم کوش افسر اور سست اور جامد کلچر کی تصور ذہن میں ابھرنے لگتی ہے ۔ بیورو کریسی کے بارے میں پھیلا ہوا عالمی تاثر بھی اس تصور کی تصدیق کرتاہے ۔ دنیا کے بیشتر ممالک سے سرکاری دفاتر اور افسر شاہی کی سست روی اورسخت گیری کی باز گشت سنائی دیتی رہتی ہے‘ لیکن جب بات ہو پاکستان کی ‘تو یہاں سرکاری افسران سستی ‘ غفلت شعاری اور عوامی معاملات میں عدم توجہگی کے علاوہ اخلاقی گراوٹ میں بھی شہرت رکھتے ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ جو لوگ ‘سرکاری افسر بن جاتے ہیں‘ اُن پر ایک طے شدہ عمل کے ذریعے اہم ترین افراد کا لیبل نتھی کیا گیا ہوتا ہے۔ وہ اپنا عہدہ حاصل کرنے کیلئے جو امتحان پاس کرتے ہیں‘ وہ سی ایس ایس (سنٹرل سپیرئیر سروس)کہلاتا ہے ‘ اُن کے دفاتر ‘وزراء کے سیکریٹریٹ کہلاتے ہیں‘ سرکاری نظم و نسق چلانا اُن کی ذمہ داری ہوتی ہے؛ چنانچہ وہ خود کو عوام سے بالا ‘ ایک ارفع مخلوق سمجھتے ہیں۔ 
سپیرئیرسروس مشکوک طرز ِعمل‘ رویے اور کارکردگی کی علامت بن چکی ہے ۔ خاص طور پر عوام کیلئے اس سروس کی جھلک ہماری بیورو کریسی کی حالیہ تاریخ میں کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ انہیں پبلک سرونٹس کہہ لیں یا سول سرونٹس‘ یہی وہ افراد ہیں‘ جنہوں نے عوام کو سہولیات فراہم کرنے یا اس کے برعکس کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے ‘ جن عوام کو ان کے ساتھ کسی بھی سرکاری شعبے میں واسطہ پڑتا ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ سرکاری افسران کس طرح جان بوجھ کر سروس کی فراہمی معطل رکھتے ہیںاور ان کا رویہ عوام کے ساتھ کس طرح توہین آمیز ہوتا ہے ۔ ہمیشہ سے ایسا نہ تھا‘ لیکن پھر پاکستانی معاشرہ ‘ گورننس اور سماجی اقداربھی کچھ عرصہ پہلے تک ایسی نہ تھیں۔ کئی ایک سروسز ‘ جیسا کہ فارن سروس‘ میں افسران رول ماڈل کی حیثیت رکھتے تھے ۔ کردار کی مضبوطی اور پیشہ وارانہ اہلیت کی وجہ سے آغا شاہی اور صاحبزادہ یعقوب کا نام آج بھی عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے ‘تاہم کچھ عرصہ سے سیاسی معیشت میں سرائیت کرجانے والی اخلاقی گراوٹ اورملک کی سماجی اقدارکے کھوکھلے پن کی عکاسی سول سروس سے ہونے لگی ہے اور اس کی کارکردگی اور رویہ اُن خرابیوں کی نشاندہی کرتا ہے ‘جو گزشتہ چند عشروں سے پاکستان کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ یہ اخلاقی انحطاط کس قدر تعفن زدہ ہے‘ اس کا اظہار کچھ سینئر افسران سے متعلق چندشرمناک واقعات سے ہوتا ہے ۔ 
سول سروس اُس برطانوی راج کی باقیات ہے‘ جس میں افراد کی کارکردگی ایک نظام کے تابع کی جاتی ہے ۔ اس مشینری کو کنٹرول کرنے والے ہاتھوں میں حکومت کا کنٹرول آجاتا ہے ؛ چنانچہ شروع سے حکومت کرنے والوں‘ چاہے وہ آمر ہوں یا جمہوری حکمران‘ کی کوشش رہی ہے کہ وہ سرکاری افسران کو اپنے کنٹرول میں رکھیں۔ ایوب خان سے لے کر مشرف تک ہر آمر نے اپنی مرضی کے افسر لگا کر ایگزیکٹو کو کنٹرول کیا ۔ بعد میں آنے والے جمہوری رہنماؤں نے بھی یہی روش اپنائے رکھی۔ وہ ایسے افراد کا انتخاب کرتے ہیں‘ جو اُن کی منشا کو سمجھتے اور اُن کے عزائم کا ادارک رکھتے ہیں‘ ان کا باہم تال میل دونوں کو فائدہ پہنچاتا ہے ۔ ایسے افسران کو خلاف ِ قاعدہ ترقی اور لامحدود فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کا ٹھیکہ بھی انہی منظور ِ نظر افراد کو ملتا ہے ۔ یہ منصوبے حکمرانوں نے اپنے ذاتی فائدے کیلئے بنائے ہوتے ہیں۔ سرکاری افسران ایسے منصوبوں سے اپنی جیبیں بھرتے ہیں؛ چنانچہ اُن کی کوشش رہتی ہے کہ یہی حکومتیں بار بار قائم رہیں‘ تاکہ اُن کی چاندی ہوتی رہے ۔ 
اس ضمن ایک بیس سکیل کے افسر کا واقعہ میڈیا میں رپورٹ ہوا‘ جس نے کویتی وفد میں شامل کسی صاحب کا پرس چرالیا تھا‘ وہاں سی سی ٹی وی نے تمام منظر ریکارڈ کرلیا۔ اس کی ریکارڈنگ سامنے آنے پر کوئی بھی شخص‘ جس کے دل میں تھوڑی سی بھی عزت نفس ہوتی‘ شرم سے زمین میں گڑ جاتا ‘ لیکن خود احتسابی کے ساتھ عزت ِ نفس بھی ہمارے ہاں نایاب ہے ‘ بلکہ اخلاقی زوال کی انتہا یہ ہے کہ ہاتھ آئے مواقع گنوانا‘ اپنے عہدے اور اختیار سے فائدہ نہ اٹھانا اور دولت حاصل کرنے کیلئے شارٹ کٹ نہ لگانا‘ ہمارے ہاں کمزوری‘ بلکہ حماقت سمجھی جاتی ہے ۔ ہمارے ہاں کامیابی کا پیمانہ دولت کے انبار ہیں۔ ایمانداری کو بزدلی اور حماقت کا مترادف سمجھا جاتا ہے ۔ 
گزشتہ چند ایک برسوں سے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے ہر خرابی کو اجاگر کیا ہے ۔حکومت اور سرکاری افسران کی طرف سے آنے والی خبریں کسی طور خوش آئند نہیں۔ مشتاق رئیسانی کی گاڑی اور گھر سے برآمدہونے والی بھاری رقم نے عوام کے ہوش اُڑا دئیے ۔ سابق سیکرٹری فنانس بلوچستان کے گھر سے 730 ملین روپے برآمد ہوئے ‘ لیکن وہ بہت آرام سے پولیس کے ہمراہ چلتے دکھائی دئیے ‘ نہ اُن کے قدموں میں لرزش تھی‘ نہ چہرے پر ندامت کا کوئی تاثر ۔ ایسا لگتا تھا‘ جیسے یہ ایک معمول کی کارروائی ہو اور ایک دن گزر جائے گا۔ یہ رقم اُس صوبے کے ترقیاتی فنڈز سے چرائی گئی تھی‘ جو بدترین معاشی بحران کا شکار ہے اور جہاں انسانی وسائل کی ترقی کی حالت انتہائی افسوس ناک ہے ۔ صوبے کے دو اہم ترین افسران اور وفاقی دارالحکومت سے آنے والی کچھ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ سول سروس کس قدر آلودگی اور اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوچکی ہے ۔ 
احد چیمہ اور فواد حسن فواد نے اس سروس کی ساکھ کو بے حد نقصان پہنچایا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے افراد زیادہ تر سرکاری افسران کی نمائندگی نہیں کرتے۔ سروس میں ابھی بھی بہت سے اچھے افسران موجود ہیں‘ جن کا عوام کے ساتھ رویہ بہت بہتر ہوتا ہے ‘لیکن اُن کی صلاحیتیں اور خواہشات اُس کلچر کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں‘ جس میں اقربا پروری اوردوستوں کو نوازنا حکمرانوں کا وتیرہ بن چکا؛ چنانچہ اچھے افسران خاموشی کے ساتھ بمشکل اپنا بچائو کرتے ہوئے اپنے فرائض انجام دینے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ وہ عوام کی بہتری کیلئے کوئی تخلیقی کام کرنے کی بجائے اپنے بچائو کو غنیمت سمجھتے ہیں۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے اوراس میں اصلاحات لانے کی کوشش بھاری پتھر کے سامنے ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوتا ہے ۔ اب‘ جبکہ نئی حکومت سروس میں اصلاحات لانے کی کوشش کررہی ہے‘ تو اس کے سامنے حقیقی چیلنج محض سیاسی دبائو سے آزاد کرنا ہی نہیں‘ بلکہ انہیں آزادی سے کام کرنے کا موقع دینا اور انہیں یہ بات سمجھانا ہے کہ آزادی کے ساتھ احتساب کا میزان بھی موجود ہوگا۔ سول سروس کی روایتی ذہنیت عوام کے استحصال کو روا سمجھتی ہے ۔ اب وہ دیکھ رہے ہیں کہ نئی حکومت سروس کو سیاسی اثر سے پاک کرنے کی کوشش میں ہے ‘لیکن جب اُن میں سے کچھ سے ناقص کارکردگی پر سوال ہوگا تو وہ شور مچائیں گے کہ اُن سے سیاسی بنیادوں پر انتقام لیا جارہا ہے ۔
اس مرحلے پر حکومت کیلئے ضروری ہے کہ وہ اتنی مضبوط ہوکہ وہ ایسے افسران کے ہاتھ یرغمال نہ بنے ‘ بلکہ ان کا دبائو برداشت کرتے ہوئے ان کا احتساب کرے ۔ اس دوران سیاسی طبقے کی بھی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی‘ تاکہ وہ بیورو کریسی کو ذاتی فائدے کیلئے استعمال کرنے سے باز رہے ۔سول سروس اکیڈمیز میں دی جانے والی سخت تربیت کے دوران اس بات کا احساس دلایا جائے کہ حکومت ِ وقت کو تحفظ دینے کی کوشش میں سول سروس اپنا وقا ر کھوبیٹھی ہے ؛ چنانچہ اسے سیاسی دائو پیچ چھوڑ کر عوام کی خدمت کی طرف توجہ دینی ہوگی ؛ اگر یہ سب نہ کیا تو سنٹرل سپیرئیرسروس ابھرنے کی بجا ئے ایک سنٹر ل انفیر ئیر سروس کے طور پر ڈ و بتی جا ئے گی ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں