دیہی غربت… ایک تلخ حقیقت

پچھلے کئی عشرو ں سے مسلسل دُہرائے جانے والے کچھ بیانات اس طرح ہیں : ملک بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ معاشی شرح ِ نمو میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں اضافہ دنیا بھر میں تیز ترین ہے۔ اشیائے صرف کی مارکیٹ فروغ پذیر ہے ۔ ان بیانات سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوا چاہتا ہے‘ لیکن دیہی علاقوں میں بسنے والے عام افراد کی حالت ِ زار اس تاثر کی نفی کرتی ہے ۔ 
بلاشبہ دنیا کے بیشتر ممالک میں دیہی اور شہری علاقوں میں زندگی ایک سی نہیںہوتی ‘ تاہم اس فرق کو ناپنے کے بہت سے پیمانے ہوتے ہیں۔ ان علاقوں میں امیر اور غریب افراد کے معیار ِ زندگی میں فرق اور وہاں بسنے والی آبادی میں خوشحال افراد کا تناسب ان سیاسی بیانات کی حقیقت آشکار کرتا ہے ‘ اسی طرح دیہات سے شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی کی شرح سے بھی صورت ِحال کا اندازہ ہوتا ہے ۔ 
بلاشبہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران پاکستان کی معاشی شرح نموجی ڈی پی کے 2.5 فیصد سے بڑھ کر 5.8 فیصد ہوچکی‘ لیکن دوسری طرف امیر اور غریب میں بڑھتا ہوا فرق اس اضافے کی معکوسی سمت کو ظاہر کرتا ہے ۔ پاکستان کے دیہی علاقوں کی غربت پر عالمی بنک کا ایک تحقیقاتی مطالعہ ایک چونکا دینے والا انکشاف کرتا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عشرے کے دوران ان علاقوں کی غربت میں 80 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔یہ وہ عرصہ ہے‘ جب ملک میں خوشحالی کی ریل پیل ہونے کے دعوے کیے گئے ۔ یہ جائزہ 2004 ء سے لے کر 2014 ء تک کے عشرے کا ہے اور اس دوران ملک نے آمریت بھی دیکھی اور جمہوری دور بھی ۔ عالمی بینک کی رپورٹ ''پاکستان میں پانی کی فراہمی‘ صفائی اور غربت کی حالت‘‘ کے مطابق ؛بلوچستان کے دیہی علاقوں میں غربت کی شرح سب سے بلند ہے ۔ وہاں کی 62 فیصد سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے ۔ سندھ کی دیہی اور شہری آبادیوں کی غربت کے درمیان فرق 30 فیصد کے قریب ہے‘ جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں یہ فرق بالترتیب 13اور 15 فیصد ہے ۔ 
میکرو اکنامکس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں معاشی شرح نمو ہی حتمی مقصد قرار پاتا ہے۔ زیادہ تر ماہرین ِ معاشیات کے نزدیک اوپری سطح پر حاصل ہونیوالے فوائد بتدریج نچلی سطح تک آتے جائیں گے‘ وقت کے ساتھ ساتھ ۔وہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بالائی طبقے کی خوشحالی سے معیشت کا پہیہ چل نکلے اور روزگار مواقع پیدا ہوں گے‘ تو اس سے عوام کو معاشی اور سماجی فائدہ پہنچے گا‘ تاہم پاکستان کے کیس میں دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ یہاں شرح نمو میں ہو نیوالے اضافے نے امیروں کو زیادہ امیر ‘ اور غریبوں کو زیادہ غریب بنادیا ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ معاشی ترقی کے ثمرات بہت کم مقدار میںنچلی سطح تک پہنچتے ہیں اور پھر وہ ایسے ترقیاتی منصوبوں کی شکل میں ہوتے ہیں ‘جن کی عام افراد کو کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان سے چکاچوند انفراسٹرکچر بن جاتا ہے ‘لیکن علاقے میں حقیقی ترقی نہیں ہوپاتی ہے۔ 
دیہاتی علاقے ‘پاکستان کے کل رقبے کا 60 فیصد ہیں اوریہی وہ علاقے ہیں ‘جو ملک کے نظر انداز کردہ حصے ہیں۔ عام طور پر حکومتیں بڑے شہروں‘ خاص طور صوبائی دارالحکومتوں کے لیے ترقیاتی منصوبے بناتی رہی ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال لاہور ہے ‘جس پر پنجاب کا 58 فیصد بجٹ خرچ کیا گیا‘ جبکہ پنجاب کے دیگر 107 شہروں کے حصے باقی ماندہ 51 فیصد بجٹ آیا۔ راجن پور یا لیہ یا جنوبی پنجاب کے کسی بھی شہر کا لاہور کے ساتھ موازنہ ایسا ہی ہے‘ جیسے جدید دنیا کا تیسری دنیا کے ساتھ موازنہ کرنا۔ لاہور اور اسلام آباد میں دکھائی دینے والے ترقیاتی منصوبوں کا عشر عشیر بھی دیگر شہروں میں دکھائی نہیں دیتا ۔ دیہی علاقوں میں انسانی وسائل کی حالت اس سے بھی خستہ ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات اور ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یکے بعد دیگر ے قائم ہونے والی کئی ایک حکومتوں نے زراعت کے شعبے‘ جس پر دیہی علاقوں کی معیشت کا انحصار ہوتا ہے‘ کو سنبھالا دینے کی کوشش کی ہے یا کم از کم اس کا اعلان کیا ہے۔ بہت سے زرعی پیکیجز پیش کیے گئے‘ لیکن ان سے صورت ِحال میں برائے نام بہتری ہی آسکی۔ امدادی قیمتوں کے اعلانات زیادہ تر نعروں تک ہی محدود رہتے ہیں۔ دوسری طرف کسانوں کی مارکیٹ تک رسائی آسان نہیں ہوئی۔ اُن کیلئے مختص کیے گئے قرضوں کی رقوم شہری علاقوں میں بنائے گئے ترقیاتی منصوبوں ‘ یا بجٹ کے خسارے کی نذر ہوجاتی ہیں ‘ لیکن اگر دیہی علاقوں کو یہ تمام سہولیات مل جائیں تو بھی کسانوں کی زندگی میں اُس وقت تک تبدیلی نہیں آئے گی‘ جب تک دیہی علاقوں میں جامع اورمربوط ترقیاتی پروگرام متعارف نہیں کرائے جاتے ۔ 
دیہی علاقوں میں کمزور صحت اور ساقط جسمانی نشو ونما پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔صاف پانی کی عدم فراہمی اور صفائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے وہاں خاص طور پر بچوں کی صحت متاثر ہورہی ہے ۔ 2018 ء میںیونیسف کی جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ؛پاکستان کے دیہی علاقوں میں بچوںکے جاں بحق ہونے کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔ ورلڈ بینک کے 2018 ء کے جائزے کے مطابق ؛فضلہ جات کو ٹھکانے لگانے کے نظام میں سرمایہ کاری کی کمی اور ناقص معیار کے ٹوائلٹس کی وجہ سے پاکستان کمزور نشوونما کا شکار ہے۔ پنجاب کے دیہی علاقوں کے 42 فیصد‘ خیبرپختونخوا کے دیہی علاقوں کے 60 فیصد اور سندھ اور بلوچستان کے دیہی علاقوںکے 82 فیصد گھرانوں کو ڈرینج کی سہولت میسر نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وسائل کا تمام تر ارتکاز چند ایک بڑے شہروں تک ہے ۔ 
وسائل کی مربوط فراہمی کے علاوہ ضروری ہے کہ مالیاتی وسائل کو انسانی اور سماجی ترقیاتی اقدمات کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے‘ تاکہ دیہی علاقوں کی ترقی کیلئے ایک مربوط کاوش پیہم جاری رہے ۔ تعلیم کی فراہمی اور ہنر کی استعداد بڑھانا اس کاوش کا لازمی حصہ ہو۔ سماجی تحفظ کے پروگرامز ‘ جیسا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ دیہی علاقوں کو کچھ ریلیف فراہم کر د یتے ہیں‘ لیکن ان کی وجہ سے وہاںکی غربت میں خاطرخواہ کمی نہیں آتی۔ صرف نقد رقوم فراہم کرنے سے غربت کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ضروری ہے کہ کچھ شرائط کے ساتھ نقدرقوم فراہم کی جائیں اور ان کے ذریعے حاصل ہونے والے نتائج پرنظر رکھی جائے ۔ اسی طرح غریب افراد کوہیلتھ کارڈز کی فراہمی صحت کی سہولیات فراہم کرنے کا ایک اچھا ذریعہ ہے ‘ لیکن اس سے بھی ضروری ہے کہ صحت کے بارے میں آگاہی کے پروگرامز شروع جائیں‘ تا کہ بیماریوں کی روک تھام ہوسکے ۔ بہت سے ماہرین ِ معاشیات کا کہنا ہے کہ پاکستان کے شہری علاقوں کا حجم مزید بڑھایا جائے ‘ لیکن پاکستان میں اربن پلاننگ کے فقدان کی وجہ سے شہروں میں ترقیاتی منصوبے دبائو کا شکار ہیں۔ شہروں میں ملازمت کے مواقع کی کمی اور زندگی مہنگی ہوتی ہے ۔ جب دیہی علاقوںکے افراد شہروں میں سکونت اختیار کرتے ہیں ‘تو انہیں کام کرنے کے مواقع اور رہائش کے لیے جگہ نہیں ملتی؛ چنانچہ اُن میں سے کچھ مایوسی کے عالمی جرائم اور تشدد کی راہ اپنا سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کراچی اور لاہور میں جرائم کی شرح میں ڈرامائی انداز میں اضافہ ہوا ہے ۔ 
مربوط اور جامع دیہی ترقیاتی پروگرامز جن میں ز راعت ‘ تعلیم‘ پانی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے مؤثر پالیسی سازی اور گڈ گورننس ضروری ہے ۔ دیہی اور شہری علاقوں میں ترقیاتی مساوات کو یقینی بنانے کیلئے مقامی حکومتوں کو اختیارات سونپے جائیں۔ اس کیلئے اختیارات کی مرکزیت کو ختم کرکے دیہات کی سطح تک وسائل فراہم کیے جائیں۔ خیبر پختونخوا میں اس کا کامیاب تجربہ ہمارے سامنے ہے‘یعنی جب فیصلہ سازی اور اختیارات اُن افراد کو سونپے جائیں‘ جو مسائل کے قریب ترین ہیں‘ تو وہ بہتر طریقے سے انہیں حل کریں گے۔ الغرض حقیقی ترقی دیہی ترقی کے بنا ادھوری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں