ڈیجیٹل انقلاب

بدتری سے بہتری کی راہ نکلتی ہے۔ بحران امکانات کا پتادیتا ہے۔ انقطاع‘ اختراع کی بنیاد بنتے ہیں ۔ یہ رسمی ا صلاحات مستقبل کو بیان کرتی ہیں۔ وہ مستقبل جو معنویت کی حدود سے گزر کر حقیقت بن چکا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے سے ورچل رئیلیٹی (Virtual Reality) کی اصطلاح سنتے ہوئے اب تک دنیا کے بہت سے افراد‘ خاص طور پر وہ جو ترقی پذیر دنیا بالخصوص پاکستان میں رہتے ہیں‘ پر یہ بات آشکا ر ہوچکی کہ ورچل رئیلیٹی محض ایک تصور نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دانشور حلقوں اور تھنک ٹینکس میں 4.0 یا 5.0 کا ڈیجیٹل انقلاب ایک نیا موضوع ہو ‘لیکن انہیں استعمال کرنے والے ابھی تک ان کے بارے میں محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں‘ بلکہ وہ انہیں قبول کرنے یا عملی طور پر نافذکرنے میں تامل سے کام لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میںبہت سی صنعتیں یا تو غائب ہورہی ہیںیا اپنے بچائو کے لیے ہاتھ پائوں مارہی ہیں۔ایک کلک سروسز فراہم کرنے کی معیشت (Uberization) روایتی تجارت کے طریق ِ کارکے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ اس کے امکانات صرف ٹیکسی سروس فراہم کرنے تک محدود نہیں۔ سافٹ وئیر انسانی وسائل کی جگہ لے رہا ہے۔ اس سے بہت سے شعبے خطرے سے دوچار ہیں۔ تفریحی صنعت‘ فوڈ اور میڈیا انڈسٹریز ‘ سب سافٹ ویئر کے بڑھتے ہوئے امکانات کو دیکھ رہے ہیں۔ الجھن یہ ہے کہ اگر نت نئی تبدیلیو ں کے سامنے مزاحمت کی جاتی ہے یا انہیں نظر انداز کرنے کی پالیسی اپنائی جاتی تو صنعت کے منہدم ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ صنعتیں اپنی موجودہ شکل میں صرف اسی صورت باقی رہ سکتی ہیں جب صارفین کا رویہ بھی جوں کا توں رہے ‘ لیکن؛ چونکہ یہ ممکن نہیں‘ اس لیے تبدیلی ناگزیر ہے ۔ 
صارفین ‘ خاص طور پر اکیسویں صدی کی نوجوان نسل ماضی کی نسلوں سے بہت مختلف ہے۔ ان کے رویے میں جمود کا عنصرعنقا ہے۔ پاکستان کے کسی بھی گھرانے کو دیکھ لیں‘ آپ کو ہر جگہ تبدیلی دکھائی دے گی۔ ٹیلی وژن لگا ہوگا‘ والدین اسے اپنے معمول کے کام کاج کے دوران وقتاً فوقتاً دیکھتے ہوں گے ‘ بچے اپنے سمارٹ فونز ‘ آئی پیڈز یا کمپیوٹرز کے ساتھ چپکے گردوپیش سے بے خبر ہوں گے۔فون کی سکرین اُنہیں دیوار پر لگی بڑی سکرین سے بیگانہ کرچکی ہے ۔ نئی نسل آنکھ کھولتے ہی ڈیجیٹل دنیا سے آشناہوجاتی ہے۔ ایک سال کے بچے آئی پیڈز پر لوری سنتے ہیں۔ سستے سمارٹ فونز نے کم آمدنی والے طبقے کو بھی اسی صف میں لا کھڑا کیا ہے ۔وہ بھی وائرل ہونے والی ہر ویڈیو کو اپنی سکرین پر دیکھ لیتے ہیں۔ سب سے اہم‘ اُن کی بھی بہت سی ویڈیوز وائرل ہوجاتی ہیں۔ میڈیا انڈسٹری ڈیجیٹل اختراع کے پریشان کن اثرات کی گواہ ہے۔ Econsultancy اور Adobe کے مشترکہ سروے کے مطابق 97 فیصد میڈیا کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ٹرانس فارمیشن نے اُن کے شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس دوران صرف 44 فیصد ہی خود کو اس اختراع کا ایک حصہ سمجھتے ہوئے نئے امکانات کی طرف پیش قدمی کا دعویٰ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ 53فیصد میڈیا کمپنیاں اس تبدیل ہوتی ہوئی دنیا کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں۔ وہ اس ہنگامہ خیز تبدیلی میں لیڈ کرنے یا کم از کم اس کا ساتھ دینے کی بجائے خواہش کررہی ہیں کہ یہ ناکام ہوکر ختم ہوجائے۔ ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں اس تبدیلی کی رفتار قدرے سست ہو‘لیکن تبدیلی کے سامنے مزاحمت بہت زیادہ ہے ۔ 
پاکستان میں سوشل میڈیا کے رجحانات کا تجزیہ کرکے دیکھتے ہیں۔ اس وقت ملک میں انٹر نیٹ صارفین کی تعداد 47.5 ملین ہے ۔ موبائل فون پر انٹر نیٹ استعمال کرنے والے 44.6 ملین ہیں۔ موبائل کے کل صارفین کی تعداد 109.5 ملین ہے ۔ ان میں سے32 ملین اپنے موبائل فون پر سوشل میڈیا تک رسائی رکھتے ہیں۔71 فیصد صارفین سمارٹ فونز‘ جبکہ 8 فیصد کمپیوٹر کے ذریعے انٹر نیٹ تک رسائی رکھتے ہیں۔ 91 فیصد صارفین اپنے موبائل کے ذریعے فیس بک استعمال کرتے ہیں۔ فیس بک استعمال کرنے والوں میں 77 فیصد آدمی‘ جبکہ 23 فیصد خواتین ہیں۔ یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ صارفین کیادیکھ اور پڑھ رہے ہیں اور اُن کے ابلاغ کا ذریعہ کیا ہے ۔ آپ جتنے کم عمر ہوں گے‘ آپ کوئی کتاب پڑھنے کی بجائے اپنا زیادہ وقت فیس بک پرگزاریں گے ۔ آپ زیادہ تر خبریں بھی آن لائن حاصل کریں گے۔ یہی اعدادوشمار جہاں ایک چیلنج ہیں‘ وہاں مواقع بھی پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان میں ابھی بھی ٹی وی اشتہارات پر سب سے زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے ‘لیکن اب روایتی کمرشلز کا رجحان تبدیل ہورہا ہے ۔
ایک عشرے سے ٹی وی مباحثے کے پروگرامز ہنگامہ خیز تفریح کا سامان کرتے ہوئے پرکشش تشہیر کو دعوت دیتی رہے ۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ناظرین نے تفریحی پروگرامز کی جگہ مباحثے کے پروگرامز دیکھنا شروع کردئیے۔ ناظرین بڑے سیاسی نام دیکھتے ہیں اوراس پروگرام کو زیادہ اشتہارات ملتے ہیں‘ جہاں ہنگامہ خیزی زیادہ ہوتی ہے ۔ سرکاری اشتہارات کی اہمیت مسلّم‘ کیونکہ اس کے نرخ کمرشل اشتہارات کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس رجحان نے الیکٹرانک میڈیا کی صنعت میں سرمایہ کاری کو دعوت دی۔ یکے بعد دیگر درجنوں نیوز چینل کھلنے لگے۔ ایسا کرتے ہوئے بزنس کی حکمت عملی پر غور کرنے کی بھی زحمت نہ کی گئی ۔ بس کچھ بڑے نام والے میزبانوں کی خدمات حاصل کریں‘ فارمیٹ کاپی کرلیے‘ وہی مواد‘ وہی خبریں‘اور وہی ہنگامہ آرائی۔ یکسانیت کے نتیجے میں ناظرین کی تعداد نیوز چینلز میں تقسیم ہوئی اور بوریت کا شکار بھی ہونے لگی؛چونکہ حکومت کے اشتہارات کی صورت بھاری رقم آرہی تھی‘ اس لیے چینلز نے اختراع اور جدت کا راستہ نہ اپنانے کی مہلک غلطی کی۔ انہوںنے اس بات کو نظر انداز کردیا کہ یکسانیت سے ناظرین اکتا جائیں گے۔ سب سے اہم‘ بھاری بھرکم ناموں کو اہمیت دینے والے بھول گئے کہ اکیسویں صدی کی نسل پرنٹ میڈیا کی جگہ سکرین اور اب بڑی سکرین کی جگہ چھوٹی سکرین کی طرف راغب ہوچکی ہے ‘ لیکن طوفان کا ادراک ہونے سے پہلے سرکاری اشتہارات کی لوری نے اُنہیں سلائے رکھا۔ 
ڈیجیٹل اختراع کوئی بری خبر نہیں‘ یہ پرنٹ‘ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کیلئے ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ مل کر معلومات پر مبنی مواد تخلیق کریں۔ مارکیٹنگ کرنے والوں کو کبھی بھی سامعین اور ناظرین کی اتنی واضح تفصیل حاصل نہیں تھی۔ سوشل میڈیا تجزیہ کار بالکل درست رپورٹ فراہم کرسکتے ہیں کہ اُن کے اشتہارات اور ویڈیوز اور پروگرامز کو کتنے افراد دیکھ رہے ہیں یا کون سی خبر آبادی کا کون سا دھڑا دیکھتا یاپڑھتا ہے ‘ نیز کون کون سے دھڑے کتنا وقت سکرین کے سامنے بسر کرتے ہیںاور اُن کے تبصرے کیسے ہوتے ہیں۔ ایسی واضح تفصیل صارفین کی ڈیمانڈ کے مطابق مواد تخلیق کرنے کا راستہ دکھاتی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پرنٹ میڈیا مطبوعہ اخبار کے ساتھ آن لائن کاپی بھی شائع کررہا ہے ۔ ڈیجیٹل اختراع کی رفتار بہت تیز ہے ۔ آج کی دنیا انگلی کے ایک ٹچ پر سمٹتی چلی آرہی ہے ۔ لائف سائیکل کا جائزہ بتاتا ہے کہ اختراع جدید دنیا سے شروع ہوتی ہے اور پھر اس کا اثر بتدریج ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ دنیا تک پہنچتا ہے۔ سوشل میڈیا نے جغرافیائی فاصلوں کو غیر اہم بنا دیا ہے ۔ عالمی سطح پر معلومات کا پھیلائو ایک ٹچ کے فاصلے پر ہے ‘ جس طرح Uber نے روایتی ٹیکسی بزنس کو متاثر کیا ‘ اسی طرح بغیر ڈرائیور کے چلنے والی کاریں Uber کو متاثر کریں گی؛ اگر اس نے اس پیش رفت سے استعفادہ نہ کیا۔
رجائیت اور قنوطیت کے درمیان سوچ کا تخلیقی فرق حائل ہوتا ہے ۔ آپ گلاس کو نصف بھرا ہوا سمجھیں‘ نہ کہ نصف خالی۔ میڈیا کی طرح دیگر صنعتوں میں بھی جدت پذیری کے امکانات ہویدا ہیں۔ ان سے ڈرنے کی بجائے انہیں اپنانے اور مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ہر نئے امکان میں نئے بزنس کے مواقع موجود ہوتے ہیں۔ذہن نشین رہے کہ جدت کواپنانا ترقی اور گھبراناتنزلی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں