پارلیمنٹ کا مقصد

پارلیمنٹ ہر ادارے پر بالا دست ہو تی ہے ‘ ایسا ہی ہونا چاہیے‘ لیکن کیا ہمارے ہاں عملی طور پر ایساہے ؟ اس سوال پر لامتناہی بحث جاری رہتی ہے ۔ جواب کا دارومدارجواب دینے والے پر ہے ؟ پارلیمنٹ کے ممبران بہت سی قوتوں کو مورد ِالزام ٹھہراتے ہیں۔ حکومت سے تعلق رکھنے والے ارکان ِاپوزیشن پراور اپوزیشن کے ارکان‘ حکومت کے ساتھ ساتھ غیر جمہوری قوتوں پر پارلیمنٹ کو کمزور کرنے اور جمہوریت کا چہرہ مسخ کرنے کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔ عوام ان سب سے نالاں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ محض سیاسی اشرافیہ کے مل بیٹھنے کی جگہ بن چکی ہے‘ جہاں وہ ٹیکس دہندگان کی رقم پر عیش کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ الزام مختلف جماعتوں اور دھڑوں پر لگایا جائے‘ لیکن حتمی بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے تاحال وہ کارکردگی نہیں دکھائی ‘جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے ۔ 
منطقی سوال ؛ پارلیمنٹ کا اصل مقصد کیا ہے؟ پاکستان کا آئین اس کے کردار کا تعین کرتا ہے ۔ اس کے مطابق '' پاکستان کی قومی اسمبلی ملک کا مقتدر قانون ساز ادارہ ہے۔ یہ عوام کی خواہش کا عملی اظہار کرتی ہے کہ وہ کثیر جماعتی‘ وفاقی‘ پارلیمانی نظام حکومت چاہتے ہیں۔‘‘ یہاں الفاظ '' عوام کی خواہش کا عملی اظہار‘‘ قابل ِ غور ہیں۔ 
سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمنٹ عوامی خواہش کی نمائندگی کرتی ہے یا ارکان ِ کی ؟ توکیا ارکان ِ پارلیمنٹ کی خواہش عوامی خواہش کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ؟ تھیوری کے اعتبار سے ہونی چاہیے ‘ لیکن کیا عملی طور پر ایسا ہوتا ہے ؟ یہی وہ ابہام ہے‘ جو عوام کی نگاہ میں پارلیمنٹ کا کردار مشکوک بناتا ہے ۔ 
پلڈٹ وہ ادارہ ہے ‘جو پارلیمنٹ کی کارکردگی کا جائزہ لیتا اور تحقیقاتی رپورٹس شائع کرتارہتا ہے ۔ اس نے 2016ء میں گزشتہ حکومت کی چار سالہ کارکردگی اور تاثر کا سروے کیا ۔ نتائج پارلیمنٹ کے کئی ایک فعال حصوں کی تنزلی کو ظاہر کرتے ہیں۔ نیشنل اسمبلی کے سکور کارڈ کے مطابق ؛آنے والے برس اس کی کارکردگی میں 2015ء کے مقابلے میں بہتری کی بجائے گراوٹ آتی گئی ۔ کارکردگی کی جانچ کے چھے پیمانے رکھے گئے : خارجہ پالیسی‘ قانون سازی‘ احتساب‘ نگرانی‘ نمائندگی‘ شفافیت۔ ان میں نمائندگی کا تناسب سب سے بلند‘ 50 فیصداور احتساب کا سب سے کم‘ 32 فیصد تھا۔ یہ اعدادوشمار پارلیمنٹ کے منفی تاثر کاپتا دیتے ہیں۔ 
جیسا کہ میں نے کہا:کارکردگی کی جانچ کے کچھ پیمانے ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ اور اس کے کردار کو بھی اسی مؤثر میزانیے پر پرکھنے کی ضرورت ہے‘ جو دیگر پروفیشنل اداروں میں مستعمل ہے اورجہاں انہیںبنانے والوںکے طے کردہ اہداف ان کی کارکردگی کا تعین کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہم پارلیمنٹ کے کردار کا جائزہ لینے کے لیے بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے تصور کو پیمانہ مانتے ہیں۔ گیارہ اگست 1947ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں قائد ِاعظم نے پارلیمنٹ کی ترجیحات کو تین نکات میں بیان کیا: ''ایک حکومت کا پہلا فرض قانون کا نفاذ ہے‘ تاکہ شہریوں کی جان‘ مال اور عقیدے کا تحفظ کیا جاسکے۔ ‘‘قائد کے مطابق ؛دوسرا مسلۂ '' انڈیا کی سب سے بڑی خرابیوں میں سے ایک... میں یہ نہیں کہتا کہ دیگر ممالک اس سے پاک ہیں‘ لیکن میرے خیال میں ہمارے ہاں صورت حال کہیں زیادہ خراب ہے... رشوت اور بدعنوانی ہے ۔ ‘‘ تیسرا '' اقربا پروری اور سرکاری اختیار کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنا ہے ۔ اس خرابی کو سختی سے کچل دیا جائے۔‘‘ 
اس طرح محترم قائد نے قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں تین اہم ترین ترجیحات کو واضح الفاظ میں بیان کردیا:
(1 قانون کی حکمرانی اور شہریوںکے جان ‘ مال اور عقیدے کا تحفظ ۔ 
(2 رشوت‘ بدعنوانی۔ 
(3 اقرباپروری اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا خاتمہ۔ 
اگر ہم اپنی پارلیمنٹ کو ان اہداف کے پیمانے پر پرکھیں تو ہمیں مایوسی ہوگی۔ عوام کو تحفظ ‘ جیسا کہ صحت‘ خوراک‘ سکیورٹی‘ فراہم کرنے کے لیے درکار قانون سازی ترقی یافتہ جمہوری ریاستوں کے معیار سے بہت پیچھے ہے ‘ اسی طرح ٹیکس دہندگان کی رقم کے تحفظ کے لیے احتساب کا عمل بھی مستعد نہیں ۔ بدقسمتی سے قانون سازی اور شفافیت اورمیرٹ کو یقینی بنانے کے لیے نگرانی کاعمل بھی قومی اسمبلی کی ترجیح دکھائی نہیں دیتا۔ 
تو پارلیمنٹ کرتی کیا رہی ہے ؟ یقینا اس نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں۔ تمام تر تنقید کے باوجوداٹھارویں ترمیم نے صوبوں کو اختیارات منتقل کرنے میں مدد کی ۔ بچوں کے تحفظ‘ عوامی مقامات پر سگرٹ نوشی پر پابندی‘ بزنس میں سہولت کیلئے کچھ اچھے قوانین بنے ہیں‘ لیکن پارلیمنٹ کو ایک ''مقتدرادارہ ‘‘ بنانے کیلئے ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے‘ ایسا اُس وقت ہوگا جب پارلیمانی امور پر خرچ کیے جانے والے وسائل عوامی فلاح اورسماجی انصاف کی فراہمی کا باعث بنیں گے ۔ گزشتہ پندرہ سال کے دوران زیادہ تر قانون سازی عوام کی بجائے ارکان ِ پارلیمنٹ کے مفاد کے تحفظ کے لیے کی گئی ۔ 
اگر آپ پارلیمنٹ کے رکن ہیں تو آپ کو جیل سے نکال کر اجلاس میں شرکت کے لیے لایا جاتا ہے ۔ آپ کو وزرا کے انکلیو میں رہائش ملتی ہے ‘ جسے جیل قرار دے دیا جاتا ہے ۔ آپ کو پورا پروٹوکول اور مراعات ملتی ہیں‘ جن کا خرچہ ٹیکس دہندگان کو برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ جیل میں سزا بھگتنے والے ارکان کو سٹینڈنگ کمیٹیوںکا سربراہ بننے کی بھی اجازت ہوتی ہے ۔ انسان یہ دیکھ کر ششد ر رہ جاتا ہے کہ سٹینڈنگ کمیٹیوں کے پاس سوموٹو اختیار بھی ہوتاہے ‘جسے وہ اُن اداروںکے خلاف استعمال کرسکتی ہیں‘ جو ارکان ِ پارلیمنٹ کی بدعنوانی پکڑرہے ہیں۔ اس ضمن میں تازہ ترین مثال پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سربراہ ‘ جنہیں نیب میں تحقیقات کا سامنا ہے ‘ کانیب کو طلب کرکے بتانا ہے کہ وہ خود پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے جوابدہ ہے ۔ ہوسکتاہے کہ یہ غیر اخلاقی دکھائی دے‘ لیکن یہ قانون کے مطابق ہے ۔ اس کی وجہ انہی قانون سازیوں کے بنائے گئے قوانین ہیں ‘جو ان کی اپنی قانون شکنی کو تحفظ دیتے ہیں۔ 
نئی پارلیمنٹ کو 2019-2023ء کے جا مع منصوبے پر توجہ دینی چاہیے ۔ اس میں پارلیمنٹ کے مشن‘ مقصد ‘ اہداف اور اقدار کا تعین کیا جائے ۔ سکاٹ لینڈ کی جدید ترین پارلیمنٹ سے لے کر جنوبی افریقا کی نوخیز پارلیمنٹ تک‘ سب اسمبلیاں اہم امور میں اپنی اپنی سمتوں اور ترجیحات کا تعین کرتی ہیں۔ جنوبی افریقا کی پارلیمنٹ کا نصب العین ''فعال اور موثر پارلیمنٹ ہونے کے ناتے جنوبی افریقہ کے باشندوں کی زندگی میں بہتری لانا اور سماجی مساوات قائم کرنا‘‘ ہے ۔اُس نے اپنے سامنے چھے اقدار رکھی ہیں: دیانت داری‘ پیشہ ورانہ صلاحیت‘ ٹیم ورک‘ شفافیت‘ فعالیت اور احتساب۔ 
پاکستان میں سیاست کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پارلیمنٹ میں داخلے کو مراعات اور سہولیات کی جنت میں داخل ہونے کے مترادف سمجھا جاتا ہے ۔ قانون کی کتاب کا حوالہ صرف اس صورت دیا جاتا ہے‘ جب ارکان ِپارلیمنٹ اپنی کسی سہولت کو خطرے میں پاتے ہیں۔ اس کی مثال وزیراعظم ہائوس کو ایک تحقیقاتی یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کے منصوبے پر کی جانے والی تنقید ہے ۔ بہت سے ارکان پارلیمنٹ پریشان تھے کہ جب اُن کی پارٹی اقتدار میں آئے گی ‘تو اُن کے پاس وزیر ِاعظم ہائوس جیسی شاندار سہولت نہیں ہوگی۔ اُن میں سے بہت کم کو پاکستان کے پچیس لاکھ بچوں کی فکر تھی‘ جو سکول نہیں جاپاتے ہیںاور یہ آئین کے آرٹیکل 25-A ـکی خلاف ورزی ہے ۔ احتساب کے کسی منصوبے اور اس کے عملی نفاذ کے بغیر والٹر بیگہاٹ(Walter Bagehot) کی بات درست ہوگی :''پارلیمنٹ ان کاہل ا ور فار غ افراد کے مل بیٹھنے کی جگہ ہے ‘جو مل کر اپنے لیے فیصلے کرتے ہیں ۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں