اصل جنگ نفسیات کی ہے

جنگ ختم ہوگئی؟ نہیں۔ تنائو ضرور کم ہوگیا ہ‘ لیکن خطرہ ابھی ٹلا نہیں ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان فوجی تنائو میں تعطل کے دوران کچھ اس طرح کے تبصرے سننے کو مل رہے ہیں۔ حالات معمو ل پر آنے کے اشارے بہت کم سہی‘ لیکن ہیں؛ ضرور۔ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی میں کمی آچکی ‘ دونوں ممالک کے سفارت کار سرحد پار‘ اپنے اپنے سفارت خانوں میں واپس جاچکے اور انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد مودی کا جنگی جنون قدرے ماند پڑنے سے جغرافیائی جارحیت کا خطرہ کم ہوگیا ہے‘ تاہم سوچ کے میدان میں یلغار جاری رہے گی۔ پاکستان نے فوجی جارحیت کا معرکہ بہت شان سے جیت لیا ۔ اب ذہنی اور نفسیاتی جنگ کا مرحلہ درپیش ہے ۔ اس جنگ کی ایک اپنی تزویراتی جہت ہے‘ اسے لڑنے کے لیے کسی اور طرح کی حکمت ِعملی درکار ہوتی ہے ۔ 
ذہن کو متاثر اور کنٹرول کرنے کے لیے لڑی جانے والی جنگ کا مستعمل ہتھیار پراپیگنڈا‘ پراپیگنڈا ‘ اور پراپیگنڈا ہے ۔ بنیاد ی طور پر مختلف میڈیاکو استعمال کرتے ہوئے کسی طے شدہ ایجنڈے کے مطابق معلومات کو کنٹرول کرنا پراپیگنڈا کہلاتا ہے۔ گزشتہ صدی میں لڑی جانے والی دو عالمی جنگیں ‘اس ہتھیار کے استعمال کی مثالیں ہیں۔ ایڈولف ہٹلر کا خیال تھا کہ جرمنی کو پہلی جنگ ِعظیم میں شکست برطانوی پراپیگنڈے کی وجہ سے ہوئی تھی ؛ چنانچہ ہٹلر نے دوسری عالمی جنگ میں اس ہتھیار کو بہت موثر طریقے سے استعمال کیا۔ نازی جرمنی میں پراپیگنڈا کا منبع جوزف گوبلز کی قیادت میں فعال ''عوامی آگاہی اور پراپیگنڈے کی وزارت ‘‘ تھی۔ پہلی جنگ ِعظیم کے تجربات کے بعد دوسری عالمی جنگ میں پراپیگنڈا ایک موثر ہتھیار بن کر سامنے آیا۔ 
پراپیگنڈا کی بنیاد ہٹلر کا وہ استدلال تھا‘ جس کی وضاحت Mein Kampf نے اپنی کتاب میں کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں '' لوگ ہر چیز پر یقین کرلیں گے ؛ بشرطیکہ انہیں وہ بات مسلسل‘ پیہم اور پرزور طریقے سے بتائی جائے اور ناقدین اور مخالفین کو خاموش کرا دیا جائے یا بہتان اور الزامات کی بارش سے اُن کی ساکھ گرادی جائے ۔ ‘‘ اس استدلال کا پہلا حصہ آج بھی کام دے رہا ہے ‘ لیکن دوسرے حصے پر عمل کرنا ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کی دنیا میں میڈیا ریاست کے کنٹرول میں نہیں رہا۔ یہ وہ جن ہے‘ جو بوتل سے باہر آچکا ہے ۔ ناقدین کو نہ تو خاموش کرایا جاسکتا ہے اور نہ ہی الزامات کا طوفان یک طرفہ رہ سکتا ہے ۔ ایک ایسی دنیا‘ جہاں دیر تک زبان بندی ممکن نہ ہو‘ وہاں ذہنوں کو کنٹرول کرنے والی جنگ انتہائی عیاری‘ لیکن لطیف انداز میں لڑی جاتی ہے ۔ 
بہترین پراپیگنڈا وہ ہے‘ جو پراپیگنڈا دکھائی نہ دے‘ لیکن بیانیہ تشکیل پاجائے ۔ ذہن میں تصورات اتارنے کا فن بہت چالاکی سے آزمایا جاتا ہے ۔ براہ ِراست بھی‘ اور بلواسطہ بھی۔ دنیا میں بھارتی بیانیے کا توڑکرنے کے لیے پاکستان کو بیانیہ تبدیل کرنے کے مواقع اور مہارتوں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ موجودہ وقت اس کے لیے موزوں ہے ‘ کیونکہ بھارتی امیج کی چمک کے لیے کی گئی ملمع کاری پر کریک پڑنے شروع ہوگئے ہیں۔ روایتی طور پر پاکستان کی کاوش امریکی حکومت اور سٹیٹ ڈ یپارٹمنٹ تک رسائی کے لیے کسی لابنگ فرم کی خدمات حاصل کرنے تک ہی محدود رہی ہے۔ اس سے بڑھ کر بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ 
عالمی ابلاغ ایک فن‘بلکہ ایک سائنس بن چکا ۔ ضروری ہے کہ تاثر قائم کرنے ‘اور بیانیہ آگے بڑھانے کی مارکیٹ میں پیش قدمی کی جائے ۔ امریکہ کے علاوہ بہت سے یورپی ممالک میں بھی ایسے اہداف موجود ہیں ۔ مغربی دنیا میں برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس اور اٹلی عالمی امور‘ خاص طور پر دہشت گردی پربات کرتے ہیں‘رائے سازی کرتے ہیں اور دنیا انہیں سنتی ہے۔ مذہبی محاذ پرسعودی عرب‘ یواے ای‘ ایران‘ قطر ‘ جبکہ ایشیائی ممالک ہیں چین ‘ جاپان‘ جنوبی کوریا اور ملائیشیا علاقائی ابلاغ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ 
ہر ملک ایک خارجہ پالیسی رکھتا ہے‘ جو اس بیانیے کا تعین کرتی ہے‘ جس کی وہ ملک حمایت یا مخالفت کرتاہے ۔ یہاں سفارت خانوں کا کردار اہم ہوتا ہے کہ وہ پالیسی کا رجحان معلوم کرنے کے لیے اپنے ملک میں میڈیا کے اہم کھلاڑیوں کی شناخت کریں اور اُن سے رابطے میں رہیں۔ پاکستان کو بیرونی ممالک میں سفارت خانوںکے کردار کا از سرِ نو تعین کرنے کی ضرورت ہے ۔ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو سہولت فراہم کرنے اور غیر ملکی دوروں کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے اپنے علاقوں میں پاکستانی بیانیہ آگے بڑھانے کے لیے ابلاغ کرنا ہوگا ۔ میڈیا ہائوسز‘ اہم کالم نگاروں اور تھینک ٹینک کے ساتھ رابطہ بڑھا کربر صغیر کے حوالے سے پاکستان کے بیانیے کو پھیلانا ہے ۔ بیانیے کے رجحانات پر رپورٹ مرتب کرنی ہے۔ یہ رپورٹ بتائے گی کہ پاکستانی موقف کو میڈیا میں کتنی جگہ اور کیسی اہمیت دی جارہی ہے۔ 
جس دوران سفارت خانوں کو اپنے ممالک کے موجودہ سیاسی رجحانات سے آگے بڑھنے سے کی ضرورت ہے ‘ پاکستان کو بھی بیانیہ تشکیل دینے کے لیے ایک ہمہ وقت ڈویژن کی ضرورت ہے‘ جوپھیلائے جانے والے بیانیے کے جواب میں حکمت عملی تیار کرے ۔ اس ڈویژن کے پاس ایک نیٹ ورک ہو‘ جس کے عالمی میڈیا ‘ بلاگرز‘ ریسرچرز اوررائٹرز کے ساتھ اپنے روابط ہوں۔ ان کے ذریعے الزامات اور بے بنیاد پراپیگنڈے کا توڑ کیا جاسکتا ہے ۔ انڈیا ''برانڈانڈیا ‘‘ کی ترویج اور تشہیر کے لیے ایک خصوصی ڈویژن رکھتا ہے ۔ پاکستان کے ترکش میں ایسا کوئی تیر نہیں۔ 
پلوامہ حملہ افسوس ناک تھا‘ لیکن یہ پاکستان کے بیانیے کا نقطہ آغاز بھی ثابت ہوا۔ ضروری ہے کہ اس بیانیے کو فعال‘ متحرک اور مربوط انداز میں آگے بڑھایا جائے ۔ روایتی طور پر فوجی طاقت اور معاشی قوت پر انحصار کرنے والے بہت سے ممالک ‘ جنہیں جارح اور قابض قوتوں کے طور پر جانا جاتا تھا‘ نے بیانیے کو کنٹرول کرتے ہوئے بہت مہارت اپنے بارے میں پھیلا ہوا تاثر تبدیل کردیا ہے ۔ ایک طویل عرصے تک نوآبادیاتی نظام کے مرکزی کردار‘ برطانیہ نے رائے عامہ کو اس طرح اپنے حق میں کرلیا کہ اب وہ دنیا میں ایک امن پسند ملک کے طور پر جانا جاتا ہے ۔
پاکستان کو دنیا کاذہن تبدیل کرنے اور دل جیتنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لیے مختلف ہتھیاردرکار ہیں ۔ اس کا مطلب درست ٹولز استعمال کرتے ہوئے عوام تک اپنا پیغام پہنچانا ہے ۔ ڈیجیٹل کمیونی کیشن ‘درست ابلاغ اور درست انداز اور لہجے کا کردار بہت اہم ہے ۔ ایک چھوٹا سا‘ لیکن بے حد موثر قدم گوگل سرچ انجن کا استعمال ہے ۔ جب آپ اپنے ملک پاکستان کا نام گوگل کرتے ہیں تو آپ کو کیسا مواد دکھائی دیتا ہے ؟ یہ دہشت گردی پر لکھے گئے مضامین اور دیگر منفی خبریں ہوتی ہیں۔ دوسری طرف انڈیا کانام گوگل کرنے سے مثبت پہلو سامنے آتے ہیں۔ یہ سب کچھ اتفاقی نہیں ہے ۔ اس کے پیچھے کاوش ‘ محنت اور توجہ کی سرمایہ کاری کی گئی ہے ۔ 
منفی تاثر تبدیل کرنے کے لیے خود کو حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس کے لیے شعوری کوشش درکار ہے ۔ ہمیں ''ڈیفالٹ ‘‘ سے ''ڈیزائن موڈ ‘‘ پر شفٹ ہونا ہے ؛ اگر برانڈ پاکستان کو ایک پرامن اور ترقی پسند تاثر کا حامل بنانا ہے تو بیانیے کی جنگ کے لیے بہترین حکمت ِعملی وضع کرنی ہوگی۔ وزیراعظم اور وزیر ِخارجہ کی زیر نگرانی ایک ''مائنڈ شیئر سیل‘‘ بنانے کی ضرورت ہے‘ جو تعین کرے گا کہ کون سی خبریں پھیلانی ‘ اورکون سی روکنی ہیں۔اس سیل میں مختلف امور کے ماہرین شامل ہوں‘جو عالمی سامعین اور قارئین کوسامنے رکھ کر کسٹمائزڈ ورڈ ز (Customized words) اور ٹولز استعمال کریں گے ۔ پاکستانی کو اپنی تاریخ میں اپنا امیج بہتر بنانے کا اس سے بہتر موقع کبھی نہیں ملا‘ لیکن ملنے والے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے پلاننگ اور کاوش کی ضرورت ہے ۔
اصل معرکہ نفسیاتی جنگ کامعرکہ ہے اوریہ معرکہ جیتیں گے تو اصل جیت ہوگئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں