عالمی سفارت کاری کا نیا انداز

پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے ‘ جب نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو بہت سے ماہرین ملک کی معاشی صورت ِحال کو بیان کرنے کے لیے ''آئی سی یو ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے ۔ انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں داخل مریض کی جان بچانے کیلئے اُس کا ہنگامی طور پر علاج کیا جاتا ہے ۔ بعض اوقا ت وینٹی لیٹرمیں رکھا جاتا ہے‘ تا کہ سانسوں کی ڈورٹوٹنے نہ پائے‘ یومیہ چھے بلین روپے قرض ادا کرنے پر مجبور معیشت کو پیہم خسارے کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کا خطرہ درپیش تھا ۔ بچائو کا واحد راستہ پاکستان کے دوستوں اور آئی ایم ایف سے مزید قرض لینا تھا۔ چین‘ سعودی عرب اور یواے ای پاکستان کے دوست ہیں‘ جبکہ یہ بات قرض فراہم کرنے والے آئی ایم ایف کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی ۔ 
کئی عشروں سے ہمارے ہاں یہی معاشی نمونہ مستعمل تھا ۔ اس مرتبہ حکمت ِعملی مختلف دکھائی دی ۔ آئی ایم ایف کی طرف فوری طور پر رجوع کرنے سے گریز کیا گیا۔ دو دوست ممالک‘ جو گزشتہ کچھ برس سے پاکستان کے ساتھ سردمہری رکھتے تھے ‘ پاکستان کی امداد کیلئے آگے بڑھے ۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ۔ ان ممالک کو پاکستان کی خارجہ پالیسی پر کچھ تحفظات تھے ۔ پاکستان نے بھی ان کے تحفظات دور کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا تھا ۔ گزشتہ حکومت میں زیادہ عرصہ تک کوئی وزیر ِخارجہ تھا ہی نہیں۔ خارجہ پالیسی بہت حد تک ہنگامی اور جز وقتی اقدامات کی فضا میں پرتولتی رہی۔ 
اس پس ِ منظر میں پاکستان کو ان ممالک کی طرف سے مالی تعاون کی زیادہ توقع نہیں تھی۔حالیہ تاریخ اس کی تصدیق کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مبصرین ان دوروں کو باہمی تعلقات جوڑنے کے علامتی اقدامات سمجھ رہے تھے ۔ وہ کوئی سرمایہ کاری ہوتے نہیں دیکھ رہے تھے ۔ وزیراعظم عمران خان کے پہلے دورے کے بعد اس تاثر کو تقویت ملی تھی ‘ تاہم خارجہ پالیسی صرف سیاسی تعلقات کا کھیل نہیں ہوتااور نہ ہی اس کا دائرہ مالی عطیات تک محدود ہوتا ہے ۔اس پلٹ فارم میں اُوپر سے نیچے تک تعلقات کا سلسلہ جوڑ ا جاتا ہے ۔ یہ تعلقات وزارت ِخارجہ کے علاوہ بھی طے پاتے ہیں۔ مشرق ِوسطیٰ سے پاکستان کیلئے آنے والے خوشگورہوا کے پہلے جھونکے کی بات کرلیتے ہیں۔ جب بہت دیر تک تعلقات کا طیارہ آٹو پائلٹ پر تھا‘ تو پھر جذبات میں سرد مہری آنا فطری امر تھا۔ اب ان کی طرف شعوری توجہ دی جارہی تھی۔ 
وزیر اعظم عمران خان کو سعودی عرب میں ہونے والی فیوچر انویسٹمنٹ انشی ایٹو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ وہاں اُنہوں نے سرمایہ کاروں کو پاکستان کے اچھے مستقبل کی جھلک دکھائی۔ اس سے دوطرفہ دوروں اور حمایت کا راستہ کھل گیا۔ پھر ہم نے ادائیگیوں کی مد میں تین بلین ڈالر ‘ اور ادھار تیل کی سہولت دیکھی۔ یواے ای سے بھی ایسا ہی تعاون ملا۔ وہاں ورلڈ گورنمنٹ سمٹ میں وزیراعظم کی تقریر اہمیت کی حامل تھی ۔ سیاسی سفارت کاری کے نتیجے میں یواے ای سے تین بلین ڈالر کا تعاون ملا ۔سفارت کاری دو قسم کی ہوتی ہے؛ سخت (Hard Power) جیسے (ڈو مور ) اور نرم (Soft Power) جیسے آپ کی ثقافت نرم سفارت کاری کے ذریعے عالمی تعلقات میں بہت دور تک راستے بنائے جاسکتے ہیں۔ 
1۔ معاشی سفارت کاری: معاشی شراکت دار بننے سے بہتر باہمی تعلقات کا کوئی طریقہ نہیں۔ یورپی یونین معاشی سفارت کاری کی بہترین مثال ہے ۔ برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی جیسے ممالک ‘ جو دوسری جنگ ِعظیم میں ایک دوسرے کے دشمن تھے‘ گزشتہ پانچ دہائیوں سے سنگل مارکیٹ معاہدے میں شریک ہیں۔ وہ تجارتی روابط سے بڑھ کر ایک مارکیٹ بن کر ایسا بلاک تشکیل دے چکے ہیں‘ جہاں جغرافیائی سرحدیں بے معانی ہوچکی ہیں۔اُن کی ایک مشترکہ کرنسی‘ یورو ہے۔ یورپی پارلیمنٹ ہے‘ جس کی قیادت ہر سال یونین میں موجود کوئی ملک کرتا ہے ۔ اس بندوبست کی وجہ سے نا صرف ان ممالک میں تجارت اور سیاحت آسان ہوچکی ہے ‘ بلکہ تین سوملین صارفین کا حجم رکھنے والی یورپی مارکیٹ کمپنیوں کیلئے بہت پرکشش ہے ۔ وہاں وہ سرمایہ کاری ‘اور کام کرنے کے مواقع پیدا کرتی ہیں۔ معاشی سفارت کاری ختم ہونے کی مثال بریگزٹ کی صورت سامنے آئے گی۔ یہ پیش رفت برطانیہ کیلئے نقصان دہ ہوگی ا وروہ بہت سے معاشی امکانات سے محروم ہوجائے گا۔ پہلے ہی بہت سے ممالک اور کمپنیاں برطانیہ کے ساتھ اپنے تعلقات اور معاہدوں پر نظر ِثانی کرنے کیلئے پرتول رہی ہیں‘ کیونکہ ستائیس ممالک کی بجائے ایک ملک کے ساتھ کاروبار کرنا مہنگا ہوتا ہے ۔ 
2۔ ثقافتی سفارت کاری: ثقافتی سفارت کاری کا مطلب فن‘ ثقافت‘ موسیقی‘ کھیل کوداور فلموں کا تبادلہ کرناہے۔ اس کی مثال ہمارا ہمسایہ بھارت ہے ‘جو بالی وڈ فلموں کے ذریعے اپنا کلچر اور نرم تاثر پھیلاتا ہے ۔ سیاحتی سفارت کاری بھی تعلقات قائم کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے ۔ سیاحت میں مذہبی سیاحت ملکوں کو بہت زیادہ قریب لانے کا باعث بنتی ہے‘ سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ‘ اٹلی میں ویٹی کن اور چرچ اس کی بہترین مثالیں ہیں کہ کس طرح دنیا بھر کے پیروکار ان مقدس مقامات کی طرف کشش رکھتے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے حالیہ دنوں کرتار پور کا بارڈر کھولنے کے اعلان کا سکھ برادری نے خیر مقدم کیا۔ 
3۔ ذاتی سفارت کاری : رہنمائوں کے درمیان ذاتی مراسم بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کے ذریعے سنگین سیاسی مسائل پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے ۔بل کلنٹن اور نیلسن منڈیلا کے ذاتی مراسم اس کی بہترین مثال ہے ۔ اُن کے درمیان رسمی‘ اور غیر رسمی‘ دنوں طرح کے روابط موجود تھے ۔ وہ ایک دوسرے کو تواتر سے ٹیلی فون کرتے رہتے تھے ۔ بعض اوقات جو چیز کئی سال کی کوشش سے نہیں ہوسکتی‘ وہ ایک فون کال پرہوجاتی ہے ۔ لوکربیری (Lockerbie) طیارہ تباہی کیس (جب سکاٹ لینڈ کے اس قصبے میں پین امریکن کی فلائیٹ 103 کا ملبہ گرا تھا)میں منڈیلا نے قذافی کی حمایت حاصل کرتے ہوئے امریکہ کی مدد کی ۔ اس پر امریکی بھی خوش تھے اور لیبیا بھی ‘ جوکہ سفارتی تنہائی سے نکل آیا تھا۔ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کی گاڑی خود چلائی اور غیر رسمی بات چیت کی۔ اس اپنائیت کے ذریعے وزیر ِاعظم پاکستان سعودی جیلوں میں قید بہت سے پاکستانیوں کو رہا کرانے میں کامیاب رہے ۔ 
4۔پبلک سفارت کاری : اس میں افسران کی کوشش شامل ہے ‘جو غیر ملکی رائے سازوں کی توجہ حاصل کرتے ہوئے حکومت کے تزویراتی مقاصد پر عالمی برداری کی حمایت حاصل کرتے ہیں۔ حقیقی کھیل بیرونی دنیا میں اہم افراد کی توجہ حاصل کرنا اور اپنے تزویراتی مقاصد کی لابنگ کرنا ہے ۔ ہم ہمیشہ حیران ہوتے ہیں کہ انڈیا جیسا ملک جو کشمیر سمیت سی انسانی حقوق کی خلاف وزریاں کرتاہے ‘کس طرح امریکہ اور یورپی یونین کی حمایت رکھتا ہے ؟ اس کی وجہ یہ کہ وہ اہم حلقوں میں بھاری بھرکم لابنگ کرتا ہے ۔ وہ لوگ فکری سفارت کاری (Intellectual Diplomacy) کے ماہرہوتے ہیں۔ اہم تھینک ٹینک‘ جیسا کہ ووڈروولسن اور بروکنگز کے پینلز میں بھارتیوں کی موجودگی بہت نمایاں ہے ۔ 
الغرض سفارت کاری کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔ اس میں کئی طرح کے ماہرانہ کھیل کھیلے جاتے ہیں‘ چالیں چلی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ‘ یہ ایک حساس معاملہ بھی ہے۔ آج کے پیچیدہ سیاسی ماحول میں سخت اور جارحانہ سفارت کاری دیر پااثرات مرتب نہیں کرتی۔ اپنے سخت جان حریفوں کو مات دینے کیلئے آپ کو نرم سفارت کاری اورانواع اقسام کے تخلیقی اقدامات اٹھانا پڑتے ہیں۔ جارحانہ سفارت کاری زبردستی پرمبنی ہے ‘ جس کے نتا ئج ا لٹے بھی پڑ سکتے ہیں‘ جبکہ نرم سفارت کاری دل و دماغ پرچھاتی ہے ‘ جس سے خودبخود ممالک اور لوگ آپ کی راے کو اپناتے ہیں۔ 
زمانے کے اندازبدلے گئے‘ تو سفارت کاری کابدلنا بھی ناگزیر ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں