دنیا:فوری اورابھی !

دنیا تیز ہے ۔پہلے روشنی کی رفتار کی مثال دی جاتی تھی‘ اب سوچ کی رفتار کا فارمولہ مستعمل ہے۔ ہر کوئی فوری طور پر‘ جوشیلے انداز میں ‘ جتنی جلد ممکن ہو‘ نتائج چاہتا ہے ۔ زندگی جنونی سرگرمی کا مبہم سراپا بن چکی۔ ممالک بہت کم وقت میں ترقی یافتہ بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ کمپنیاں کم لاگت میں زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں ہیں۔ افراد چاہتے ہیں کہ بہت کم کوشش سے وہ بہت کچھ حاصل کرلیں۔ کم لگا کر زیادہ حاصل کرنے کی اس دوڑ میں مستقل مزاجی کا تصور خطرے میں پڑ گیا ہے ۔ ہمیں معیشت فوری طور پر درست کرنی ہے؛ اپنی پیداواری صلاحیت فوری طور پربڑھانی ہے ؛ فوری تبدیلی لانی ہے ؛ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ کم لگائیں‘ زیادہ بنائیں۔ 
دنیا بھر میں معیشتیں تبدیل ہورہی ہیں۔برق رفتار تبدیلی کی جدید دنیا کے لیے روایتی بزنس ماڈلز بہت سست ہیں۔ کمپنیاں اپنے صارفین کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اب گاہکوں کو فوری طور پر معلومات میسر ہیں۔ چاہے ‘وہ درست ہو یا غلط۔ کبھی چوبیس گھنٹوں کے بعد کہیں ایک اخبار شائع ہوتا تھا‘ اب ہر چوبیس سیکنڈز کے بعد ہیڈلائنز سکرین پر موجو د ہوتی ہیں۔ کہیں بھی کیا گیا ‘تبصرہ ہر جگہ ارتعاش پیدا کرتاہے ۔ 
جس دوران یہ رفتار غیر معمولی اختراع‘ رابطہ اور معلومات پر مبنی معیشت تخلیق کررہی ہے ‘ اس کی وجہ سے سماجی الجھن بھی پیدا ہورہی ہے کہ آخر ہم کتنی تیز رفتاری کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جسے کبھی تیز رفتار سمجھا جاتا تھا‘ وہ سست ہے۔ فوری سرگرمی اب معمول کی بات ہے ۔ ''فوربز میگزین ‘‘ کی اس رپورٹ پر غور کریں؛ اگر صارف کا رویہ اُن کی خواہش کا اظہار ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں اور یہی اُن کی فوری ضرورت ہے‘ تو 2017ء میں اوسطاً ہر ساٹھ سیکنڈ ز میں ہونے والے ڈیجیٹل روابط کو دیکھیں۔ گوگل پر ساٹھ سیکنڈز میں 3.8 ملین ریسرچ ریکوسٹ بھیجی گئیں‘ یوٹیوب پر چار سو گھنٹوں سے زیادہ کی ویڈیوز اپ لوڈ کی گئیں‘ صارفین نے Netflix, پر87,000 گھنٹوں کی ویڈیوز دیکھیں‘ انسٹاگرام پر65,000 فوٹوز اپ لوڈ کی گئیں۔ یہ سب کچھ ایک منٹ میں ہوا۔ 
یہ رفتار صارف کا رویہ مشکل اور اُس کی وابستگی غیر یقینی بنا دیتی ہے ۔ وہ دن گئے‘ جب متبادل چیزیں خریدنے کی نوبت کوئی مہینے بعد آتی تھی‘ جب مارکیٹس میں گھوم پھر کر دیکھنا پڑتا تھا اورایک صارف کی تمام شاپنگ سنٹرز تک رسائی ہوبھی نہیں سکتی تھی؛ چنانچہ اُس کے پاس خریداری کے آپشنز محدود تھے‘ لیکن آج صارفین کے سامنے امکانات ایک سیلاب سا ہے ۔ وہ عین موقع پر ‘ خریداری سے پہلے‘ اپنا ذہن تبدیل کرسکتے ہیں۔ فوری ادائیگی کی سہولت فراہم کرنے والی صنعت میں بھی ایک انقلاب سا آگیا ہے ۔ کاغذ سے بنے ہوئے نوٹ اور کرارے نوٹوں سے بھر ا ہوا چمڑے کا بٹوہ‘ ماضی کی نشانیاں ہیں۔ اب کریڈٹ کارڈ نے پلاسٹک منی اور ڈیجیٹل ویلٹ نے غیر مرئی دولت معارف کرادی ہے ‘جوانگلی کے معمولی ٹچ کے ساتھ بینکوں‘ کمپنیوں‘ ایکس چینج اور ممالک کا سفر کرتی ہے ۔
ڈیجیٹل ویلٹ ایک الیکٹرانک ڈیوائس ‘ یا آن لائن سروس ہے‘ جو صارف کو الیکٹرانک ٹرانزیکشن کی سہولت دیتی ہے ۔ اس میں کمپیوٹر یا سمارٹ فون کے ذریعے آن لائن خریداری یا کسی سٹور سے خریداری کرنا بھی شامل ہوسکتا ہے ۔ کسی شخص کا بینک اکائونٹ بھی ڈیجیٹل ویلٹ سے منسلک ہوسکتا ہے ؛چنانچہ سوچ کے مطابق ہر چیز حاصل کرنا اب ممکن ہوچکا ۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ٹیلی پیتھی کو مصنوعی ذہانت سے جوڑ کر ذہن پڑھنے اور کام کرنے کے قابل بنا دیا گیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں خواب دیکھنا اور اسے اسی وقت حقیقت میں تبدیل کرنا ممکن ہوجائے ۔ اس میں خطرہ بھی ہے ؛ اگر ذہن کو پڑھنے والے سنسرز غیر فعال ہوجائیں توقابل سنسر مواد غیر سنسر شدہ ہی باہر آجائے گا۔ اس وقت سیاست بھی فوری نتائج چاہتی ہے ۔ ہم ٹویٹ پیغامات کی طاقت دیکھ چکے ہیں‘ جو قوم کا حوصلہ بڑھا بھی سکتے ہیںاور اس کی کمر بھی توڑ سکتے ہیں۔ فوری ٹویٹ کی پالیسی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک طمانیت بخشی ہے کہ وہ فوری ہی‘ کوئی وقت ضائع کیے بغیر ‘ اپنے مخالین کے ساتھ حساب کتاب برابر کرلیتے ہیں۔ الغرض افراتفری سے لبریز ‘اس دنیا کا سب سے بڑ ا رجحان انسانوں کو طمانیت بخشنا ہے ۔ اچھی چیز کی طلب‘ اور اسے فوری حاصل کرنے کی خواہش انسانی فطرت میں شامل ہے ۔ ہر انسان خوشی حاصل کرنا‘ اور تکلیف سے بچنا چاہتا ہے ۔ اس رجحان کو ''لطف کا اصول‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس اصطلاح کو سب سے پہلے سگمنڈ فرائیڈ نے ''ایڈ ‘‘(id) کی وضاحت کرتے ہوئے استعمال کیاتھا۔ سگمنڈ فرائیڈ کے مطابق ؛سلفی جبلت لاشعور کو متاثر کر کے شخصیت کی تعمیر کرتی ہے ۔ 
لطف اٹھانے کی اس فوری خواہش کو مارکیٹنگ کی دنیا نے تقویت دی ہے ۔ تیس سال پہلے تصاویر اتارنا اور البم تیار کرنا ایک ہفتے پر محیط صبر آزما کام تھا۔ اس میںپولارائیڈ کیمرے نے تبدیلی برپا کردی۔ یہ کیمرہ تصویر کو اُسی وقت پرنٹ کردیتا تھا۔ آج ڈیجیٹل کیمرے سے نا صرف تصویر مفت میں بن جاتی ہے ‘ بلکہ یہ عمل انتہائی سہل اور سبک رفتار ہے ۔ فیس بک پر تصاویر اپ لوڈ کرنا زندگی کے دیگر امور میں شامل ہوچکا۔ ہر واقعے کے وقت ''فوٹو گرافر‘‘ موجود ہوتے ہیں۔ صبح اُٹھنے سے لے کر ائیرپورٹ پر فلائیٹ کا انتظار کرنے تک ہر موقع کی تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔ اس تصویری خبط کا سب سے زیادہ اظہار شاید انسٹاگرام پر ہوتا ہے ۔ اس نے زندگی کو نا صرف دلچسپ بنایا ہے‘ بلکہ اس کی وجہ سے ہم ''سیلفی ‘‘ کے دور میں جی رہے ہیں۔ فوری نتائج کی دنیا میںشاید‘ ایچ آئی وی سے بھی زیادہ خطرناک وائرس ایس آئی وی(Selfie Invasive Virus) ہے۔ 
تمام تحقیقات‘ مطالعے ‘ تربیت ‘ کوچنگ اور مشاورت سے پتا چلتا ہے کہ قیادت اور نمو کیلئے جذباتی اور سماجی ذہانت اہم ہیں۔ دوسروں کو سمجھنا‘ اُن کے جذبات اور احساسات کو محسوس کرنا اُسی وقت ممکن ہے‘ جب انسان اپنے جذبات کے خول سے نکل کر دوسروں کے احساسات کا خیال رکھے؛ اگرچہ مغرب کے پاپ کلچر نے دنیا کو بہت زیادہ لطف دیا اور اس کی فوری تفریح کا سامان کیا ‘ لیکن اس نے دنیا کو کھوکھلا اور مادہ پرست بھی بنا دیا ہے ۔ اب یہی پاپ کلچر ذاتی‘ کاروباری اور سیاسی میدانوں میں داخل ہوچکا۔ ویڈیوز‘ تصاویر‘ خریداری‘ تفریح‘ شادی‘ طلاق‘ رجسٹریشن‘ سفارت کاری‘ عالمی تعلقات‘ سرحد پار پرواز اور بہت سے دیگر لامحدود امکانات اب ایک کلک کے فاصلے پر ہیں۔ زندگی پر سلف اور سلفی کا غلبہ ہے ۔ 
جب ہر چیز کا ہونا فوری طور پر ممکن ہو تو پھر غلط فیصلے بھی خارج از امکان نہیں۔نئی نسل ناخوش ہے ۔ اسے طاقت اور اختیار میں شراکت چاہیے۔ معلومات کے تیز رفتار بہائو کی وجہ سے سیاست دان بھی شدید دبائو میں ہیں۔ وہ تجزیے اور جائزے کی بجائے ٹوئیٹر رجحانات کو دیکھتے ہوئے اپنے فیصلے کرنے ‘ یا بدلنے پر مجبور ہیں۔ تاخیر سے ملنے والی طمانیت کو سستی‘ حماقت اور بے وقوفی کے مترادف سمجھا جاتا ہے ۔ مزید کی خواہش اور آگے بڑھنے کی لگن اچھی بات ہے ‘لیکن یہ دوڑ کہیں عقل اور ہوش سے بیگانہ کرتے ہوئے خطرناک راہوں کی طرف نہ لے جائے اورہم موجودہ دور میں انسان کم اور مشین زیادہ ہوجاتے ہیں‘ جو بے حس اور بے جان ہوتی ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں