قانونِ ا نسا نیت کے بر خلاف؟

جب ''قانون اندھا ہے‘‘ کا لفظی مطلب لیا جائے‘ تو ایک مشکل کھڑی ہوجاتی ہے۔ قوانین کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایسے قواعد وضوابط پر مشتمل ہیں‘ جو ریاست کسی معاشرے میں امن اور سلامتی قائم کرنے کیلئے وضع کرتی ہے۔ قدیم دور میں فردِ و ا حد حکمران قوانین بناتے‘ اور عدالتیں یا پولیس قانون شکنی کرنے والوں کو سزائیں دیتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ فرد ِواحد کی حکومت پربحث ہونے لگی اور قوانین کو عوامی مفاد اور نمائندگی کے مطابق بنانے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ 
جمہوریت کا تقاضا تھا کہ قانون کسی مخصوص شخص کیلئے نہیں‘ بلکہ سب کیلئے ہو‘ اس کیلئے عوامی نمائندگی رکھنے والی پارلیمنٹ کی ضرورت تھی‘ جس میں قوانین پر بحث کی جاسکے اورقانون سازی کیلئے آئین تشکیل دیا جاسکے ‘لیکن اگر پارلیمنٹ میں عوام کی بجائے کسی مخصو ص دھڑے کی نمائندگی ہو تو قانون سازی کے عمل میں اکثریت کی بجائے چند مخصوص افراد کی اجارہ داری ہوگی۔قانون سازی میں ایک اور چیلنج مقبول عوامی جذبات کا ادراک ہے۔
میڈیا پراپیگنڈا غیر تعلیم یافتہ اور ادھوری یا کم معلومات رکھنے والے عوام سے ایسی قانون سازی کراسکتے ہیں‘ جو ممکن ہے کہ اُن کے طویل المدت مفاد کے منافی ہو۔ جمہوریت عوامی مفاد کی عکاسی کرتی ہے۔ عوامی جذبات حکومتیں منتخب کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ارکان ِ پارلیمنٹ عوامی مطالبات پورے کرتے یا کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے انتخابات جیتتے ہیں۔ ایک مرتبہ جب وہ حکومت میں آجاتے ہیں تو بھی رائے عامہ اُن کیلئے اہمیت رکھتی ہے ۔ سوشل میڈیا کے متعارف ہونے کے بعد اب غیر ترقی یافتہ علاقوں میں بھی رائے عامہ ایک کلک میں متحرک ہوجاتی ہے ۔ یہ جہت رائے عامہ ‘ پالیسی اور قانون کے تعلق پر روشنی ڈالتی ہے ۔ 
فزکس میں طاقت مومینٹم پیدا کرتی ہے ‘ جسے پریشر کہا جاتا ہے ۔ رائے عامہ بھی اسی طرح قانون سازی کیلئے دبائو پیدا کرتی ہے ۔ یہ ایک نادیدہ قوت ہے‘ جو پس ِ منظر میں کارفرماہوتی ہے ؛ چونکہ قانون سازی عوام براہ ِراست نہیں کرتے‘ بلکہ اُن کے منتخب نمائندے کرتے ہیں‘ اس لیے عوام اس دبائو کے ذریعے قانون سازوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ فزکس کا مذکورہ قانون کسی ملک کی قانون سازی پر بھی صادر ہوتا ہے ‘ لیکن بعض اوقا ت قانون سازی عوامی دبائو کے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہے او ر ہوسکتا ہے کہ وہ اس دبائو کی وجہ سے انصاف کے تقاضے پورے نہ کرسکے۔ دنیااور پاکستان میں کم عمری کی شادی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ رائے عامہ کے نزدیک یہ ایک متنازع ایشو ہے ۔ انٹر نیشنل سنٹر فار سٹڈی آن وومین (آئی سی آر ڈبلیو) کے مطابق‘ آنے والے عشرے میں اٹھارہ سال سے کم ایک سوملین لڑکیوں کی شادی ہوگی۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق زیریں صحارا ممالک‘ نیپال‘ انڈیا ‘ پاکستان اور بنگلہ دیش سے ہوگا۔ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق؛ 2011ء سے 2020ء تک ایک سو چالیس ملین کم عمر لڑکیوں کی ہوگی۔ اس رپورٹ ‘ جس کا عنوان '' پاکستان میں چائلڈ میرج کے ڈیموگرافکس‘‘ہے ‘ کے مطابق ؛پاکستان میں کم عمری کی شادی ایک تشویش ناک مسئلہ رہا ہے ۔ یہاں 21 فیصد لڑکیوں کی 18 سال سے کم عمری میں شادی ہوجاتی ہے ۔25 فیصد لڑکے بھی اس ناانصافی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ علاوہ ازیںمجموعی طور پر قبائلی علاقوں میں چائلڈ میرج کے سب سے زیادہ کیسز ریکارڈ ہوئے ۔
بچوں کو اُن کے بچپن اور معمول کی نشو ونما کے حق سے محروم رکھنے کے بہت سے نقصانات ہیں۔ پہلا یہ کہ کم عمری کی شادی جان کیلئے خطرناک ہوسکتی ہے ۔ درحقیقت دنیا بھر میں پندرہ سے19 سال کی لڑکیوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ دوران ِحمل ہونے والی پیچیدگیاں ہیں‘ جو لڑکیاں پندرہ سال سے کم عمر میں حاملہ ہوجاتی ہیں‘ ان کے زچگی کے دوران جاں بحق ہونے کے خدشات بیس سال سے بڑی لڑکیوں سے پانچ گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں دوران ِ زچگی جاںبحق ہونے کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔ اوسطاً ہر بیس منٹ بعد کوئی عورت زچگی کے دوران جاں بحق ہوجاتی ہے ؛ اگر وہ بچ جائے‘ تو بھی اُس کی صحت خطرے کی زد میں ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر دنیا بھر میں بیس لاکھ کے قریب خواتین زچگی کے دوران پیچیدگی(obstetric fistula) کا شکار ہوتی ہیں‘ ان میں اکثریت کم عمر لڑکیوں کی ہی ہوتی ہے۔ 
جذباتی اور نفسیاتی صدمات جسمانی مسائل سے کہیں بڑھ کے ہوتے ہیں۔ ایک غیر تعلیم یافتہ اور غیر تربیت یافتہ بچی نے ایک اور بچے کو جنم دینا اور سنبھالنا ہوتا ہے ۔ اُس کی فکری نوبلوغت اس عظیم ذمہ داری کے لیے تیار نہیں ہوتی ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ذہنی پسماندگی کی وجہ سے ازدواجی ذمہ داری‘ سسرال‘ بچے کی پیدائش اور اس کی نگہداشت کے مسائل سے نبردآزما ہونے کی کٹھن جدوجہد کا شکار رہتی ہے ۔ زیادہ تر غریب اور ان پڑھ بچیاں ہی اس قانونی‘ لیکن سماجی طور پر سفاک ابتلا کا شکار جاتی ہیں۔اس کی وجہ سے تما م خاندان غیر صحت مند رویے کا شکار ہوجاتا ہے ۔ 
شادی کیلئے سولہ سے لے کر اٹھارہ سال کی عمر مقرر کرنے کے خلاف اہم اعتراض یہ ہے کہ اسلام نے شادی کی عمر طے کردی ہے ۔ اب یہ استدلال کہ قرآن بلوغت کے بعدشادی کی اجازت دیتا ہے ‘ کی تشریح مختلف انداز کی گئی ہے ۔ بہت سے اسلامی سکالرز نے اس کی تشریح پر بحث کی ہے ۔ بیس اپریل کو ایک مضمون ''کیا چائلڈ میرج کی قرآن میں اجازت ہے؟‘‘ '' Islam and the Quran‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس قرآنی ریسرچ کے مطابق ؛بچوں اور نو عمر افراد کی شادی نہیں کی جاسکتی۔ استدلال یہ ہے کہ شادی کے لیے محض جسمانی بلوغت کافی نہیں‘ بلکہ ذہنی اور فکری بلوغت کی ضرورت ہے ۔ اس مضمون میں سورۃ النسا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ جب یتیم بچے بلوغت کی عمر کو پہنچ جائیں تو اُن کی شادی کردو‘ پھر؛ اگر تم انہیں شعور کی عمر تک پہنچتا ہوا پائو‘ تو اُن کی جائیداد اُن کے حوالے کردو۔ 
بلوغت کا تصور بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔ 1400 سال پہلے اوسط زندگی کا دورانیہ بمشکل 45 سال تھا۔ اس حوالے سے سولہ سال زندگی کا تیسرا حصہ بنتا ہے۔ آج بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں اوسط زندگی 85 سال ‘ جبکہ ترقی پذیر ممالک میں 65 سے 70 سال ہے ۔ منطق سے بات کریں تو بلوغت کی عمر کا معیاری پیمانہ بنانا بہت مشکل ہے ۔ اصول اٹل ہیں‘ لیکن انہیں عملی طور پر نافذ کرنے کیلئے کچھ معمولی سے تبدیلی کرنی پڑتی ہے ؛ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام شعور کو بلوغت کہتا ہے اور اس عمر میں شادی کا تقاضا کرتاہے‘ جب کوئی اتنا باشعور ہوجائے کہ وہ اپنی جائیداد کی حفاظت کرسکے ۔ 
ہر مذہب‘ قانون اور آئین کی بنیاد انسانیت ہے ۔ جب تشریحات کے ضمن میں قانون سازوں‘ دانشوروں ‘ مذہبی رہنمائوں اور معاشرے کے درمیان تنازع پیدا ہوجائے ‘تو ضروری ہے کہ اس موضوع پر معقول اور سنجیدہ انداز میں بحث کر لی جائے ‘تاکہ قانون کی حقیقی روح تک پہنچا جاسکے ۔ چائلڈ میرج پر بحث کا شروع ہونا اچھی بات ہے ۔ ا س سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس پر رائے کتنی بٹی ہوئی ہے؟ بحث اور مقالمہ معقول قانون سازی کیلئے دبائو فراہم کرے گا۔
اس لیے ضروری ہے کہ میڈیا‘ پالیسی ساز‘ سوشل میڈیا صارفین اور سول سوسائٹی کے کارکن دینی علماء اور دیگر سوچ رکھنے والے افراد کے ساتھ شائستہ انداز میں مقالمہ کرتے ہوئے کوئی مستحسن راہ تلاش کریں‘تاکہ آنے والے نسلوں کو ایسے سماجی صدمات سے بچایا جاسکے ۔ لیڈیا ماریا چائلڈ کا کہنا ہے ''قانون‘ قانون نہیں؛ اگر وہ انصاف کے آفاقی اصولوں کو پامال کرتا ہو۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں