پاکستان ،تاثر اور حقیقت

قدیم چینی مفکرلاؤزی کا کہنا ہے : ایک ہزار میل طویل سفر کا آغاز ایک قدم اٹھانے سے ہوتا ہے ۔لوگوں کے بارے قائم تا ثر آسانی سے زائل نہیں ہوتا ‘ ممالک کا تاثر زائل کرنا اور بھی دشوار ہوتا ہے ‘تاہم ایورسٹ سر کرنی ہوتو بھی آغاز درست سمت میں قدم اٹھانے سے ہی ہوگا۔ عالمی ساکھ حاصل کرنے کی کوشش میں پاکستان کے سامنے اصل مسئلہ غیر ملکی رائے سازوں کو قائل کرنا ہے کہ قائم ہونے والا تاثر حقیقت سے کس قدر مختلف ہے۔ملک کا نام گوگل کریںتو آپ کو منفی تصاویر دکھائی دیں گے۔ اس کے بعد انڈیا‘ حتیٰ کہ بنگلہ دیش کے نام پر کلک کریں تو تصاویر اس سے مختلف ہوں گی ۔ ان تصاویر سے ذہن میں ایک تاثر ابھرتا ہے اور جب وہ پاکستان کے بارے میں بات کرتے ‘ لکھتے یا یہاں سرمایہ کاری کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس تاثر سے باہر نہیں نکل پاتے ۔
حال ہی میں پاکستان کا تاثر تبدیل کرنے کے لیے برطانیہ میں رکنِ پارلیمنٹ فیصل ر ا شد نے ایک چھوٹا سا قدم اٹھایا۔ وہ برطانوی پارلیمنٹ میں ''اے پی پی جی ‘‘ (All Party Parliamentary Group for BRI and CPEC) کے صدر ہیں۔ انہوں نے ایک ویڈیو ‘ جس کا عنوان '' پاکستان کا تاثر تبدیل کرنا‘‘ تھا‘ کی عوامی سطح پر نمائش کی ۔ پاکستان نژا د برطانوی نوجوان نے اس ویڈیو کو تخلیق کیا ہے ۔ وہ بلاگرز کی ٹیم کو پاکستان کے مختلف مقامات پر لے کر گئے اور فلم بندی کی۔ یہ اس سیریزکی دوسری ویڈیو ہے ۔ نمائش کے موقع پر صحافی‘ ٹریول ایجنٹس اور بزنس کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد موجود تھے ۔ مجموعی تاثر بہت حوصلہ افزا تھا۔ اس سے پتہ چلتا تھا کہ دنیا جاننا چاہتی ہے کہ کیا پاکستان واقعی ایسا ہے جیسامیڈیا پر دکھایا جاتا ہے ؟
ایسے مواقع پر دو چیزیں اجاگر ہوتی ہیں‘ پہلی ملک کی مخفی خوبیا ں سامنے آتی ہیںاور دوسری یہ کہ اگر اچھے امکانات کو فعال حکمت ِعملی اور منصوبہ بندی کے ذریعے دنیاکے سامنے نہ لایا جائے تو اُن کی کوئی وقعت نہیں۔ پراڈکٹ کی خوبیاں اپنی جگہ لیکن برانڈ کا تاثر ایک سوچ پیدا کرتا ہے ۔ جیسا کہ مارکیٹنگ کی دنیا میں کہا جاتا ہے ‘ اچھی تشہیر سے ایک خراب پراڈکٹ بھی بک جاتی ہے ۔ دوسری طر ف خراب تشہیر ایک اچھی پراڈکٹ سے گاہکوں کو متنفر کردیتی ہے ۔ پاکستان کو بطور ایک ملک اور پراڈکٹ نائن الیون کے بعد پیش آنے والے واقعات نے سخت نقصان پہنچایا۔ جب سیاح کسی ملک میں جانے کا ارادہ کرتے ہیں تواُن کی سب سے پہلی ترجیح سکیورٹی ہوتی ہے ۔ 2000ء کی دہائی میں دہشت گردی کے واقعات نے پاکستان میں سرمایہ کاری‘ سیاحت اور دیگر معاشی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ۔ اس عدم تحفظ کا فائدہ انڈیا اور ہمارے ہمسایہ ممالک نے اٹھایا‘ اور ہر واقعے کا الزام پاکستان پر لگانا شروع کردیا۔
کسی بھی پراڈکٹ کا سکینڈل بن جائے تو لوگ اس سے گریز کرتے ہیں۔ بدقسمی سے پاکستان اسی کی زد میں تھا ‘ تاہم گزشتہ پانچ برسوں سے پاکستان کی صورت ِحال تبدیل ہوئی ‘ فوج اور حکومت کی کوششوں سے سکیورٹی اور امن وامان میں بہتری آئی گویا پراڈکٹ بہتر ہوگئی ‘ لیکن برانڈ کا تاثر بہتر بنانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرناباقی ہے ۔ مذکورہ ویڈیو ''پاکستان کا تاثر تبدیل کرنا‘‘ کی نمائش کے موقع پر موجود ہر بلاگر کا کہنا تھا کہ جب انہوںنے اپنے اہل ِخانہ کو بتایا کہ وہ پاکستان جارہے ہیں تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ اتنے غیر محفوظ اور خطرناک ملک میں نہ جائیں۔ لیکن پاکستان کی سیر کے بعد ہر بلاگر کا کہنا تھا کہ انہوں نے اتنا محفوظ‘ خوبصورت اور مہمان نواز ملک دنیا میں کہیں نہیں دیکھا۔ یہ تاثرکی تبدیلی پاکستان کی سیر کے بعد آئی ۔ لیکن بہت کم لوگ پاکستان آتے ہیں۔ زبانی کہی ہوئی باتیں متاثر کن نہیں ہوتیں‘ نہ ہی ان سے فوری طور پر تاثر تبدیل ہوتا ہے۔ اس کے لیے پاکستان کے برانڈاور پراڈکٹ کی سوشل میڈیا اور دوسرے غیر روایتی ذرائع ابلاغ پرمؤثر تشہیر کی ضرورت ہے ۔ ضروری ہے کہ پہلے پراڈکٹ (پاکستان ) کی سکیورٹی اجاگر کی جائے تاکہ اس کے بارے میں بہتر تاثر جائے۔
ملک کے بارے میں مثبت تاثر قائم کرنے کے لیے تین اہم فیچرز کا چرچا ضروری ہے۔ پہلا یہ کہ پاکستان ایک محفوظ ملک ہے ‘ اور وہ جو پاکستان چھوڑ گئے تھے‘ اب واپس آگئے ہیں۔ یہ سچ ہے لیکن یہ سچائی انہیں دکھانی ہوگی جو عالمی سطح پر رائے ساز ہیں‘ اور جن کی بات دنیا سنتی اور سمجھتی ہے ۔ حال ہی میں اقوام ِ متحدہ نے پاکستان کو ''فیملی سٹیشن ‘‘ قرار دیا ‘ برٹش ایئرویز نے پروازیں شروع کردیں‘ پرتگال نے پاکستان کے لیے سفری پابندیاں ختم کردیں۔ان سے پاکستان کی عالمی سطح پر بہتر ہوتی ساکھ کا پتہ چلتا ہے ۔ پراڈکٹ میں بہتری کے لیے عام طور پر حقائق او ر اعدادوشمار سے کام لیا جاتا ہے۔ دہشت گردی پر قابو پانا پاکستان کی ایک بہت بڑی پیش رفت ہے ۔سائوتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق 2009ء جب پاکستان میں دہشت گردی اپنے عروج پر تھی‘ سے لے کر 2017 ء تک اس میں 89 فیصد کمی آئی ہے ۔ دنیا کو سنانے کیلئے یہ بذات ِخود ایک متاثر کن کہانی ہے لیکن محض پورٹل پر موجود ہونے یا ہمارے سوچنے سے دنیا میں اچھا تاثر نہیں جائے گا تاوقتیکہ بیرونی دنیا سے پاکستان کی سیر کے لیے آنے والے تصدیق کریں کہ یہ ایک محفوظ ملک ہے ۔ اچھا ہونا ایک بات‘ اچھا تاثر قائم کرنااور بات ہے ۔
پاکستان کے اچھے تاثر کو اہم دھڑوں تک پہنچانا ضروری ہے ۔ عالمی حلقوں میں اسے دُہراتے رہنے کی ضرورت ہے کہ یہ کتنی بڑی کامیابی ہے ۔ امریکہ میں گن فائرنگ سے اس سے کہیں زیادہ شہری جاںبحق ہوجاتے ہیں جتنے تشدد کی کسی بھی اور شکل سے ۔ ایسے واقعات کم وبیش ہر ماہ پیش آتے ہیں‘ لیکن کوئی بھی واقعہ ‘ چاہے کتنی ہی جانیں کیوں نہ ضائع ہوئی ہوں‘ چند روز سے زیادہ خبروں میں نہیں رہتا۔ پاکستان کو دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے کس طرح دوسروں سے زیادہ اچھے طریقے سے امن قائم کیا ہے ۔ حالیہ انڈکس کے مطابق انڈیا کا شمار عورتوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے جبکہ پاکستان کی پوزیشن اس انڈکس پر بہت بہتر ہے ۔ یہ بات بھی دنیا کو بتانے والی ہے ‘ لیکن کسی کو خبر ہی نہیں۔
دوسرا یہ کہ مین مارکیٹ میں پراڈکٹ کا تاثر اچھا ہو۔ امریکہ کے بعد برطانیہ تصورات کی ایک بااثر مارکیٹ ہے ۔ پاکستانی نژاد برطانوی ارکان پارلیمنٹ ہماری آوازہیں‘ اور اس آواز کو تاثر تبدیل کرنے کی کوششوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان ممالک میں ہمارے ہائی کمشنرز رابطے کے پل کا کام دے سکتے ہیں۔ ان کے ذریعے سیاسی آوازوں‘ تھنک ٹینکس اور میڈیا کی اہم شخصیات کے روابط قائم کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے لیے لابنگ‘ ذاتی تعلقات اور سیاسی مکالمے کو استعمال کیا جائے ۔ تیسرا ‘ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک بہتر رسائی کے لیے سرچ انجن سٹریٹجی اپنانا ضروری ہے ۔ اس کے لیے سرچ انجن کی کھوج میں مثبت تصاویر اور مثبت امیج سامنے لائے جائیں۔ جب کوئی صارف پاکستان پر کلک کرے تو اس کے سامنے مثبت اور خوشگوار مواد آئے ۔ گوگل اور اہم سائٹس پر ملک کے بارے میں اچھا تاثر دینے والا مواد ڈالنا ضروری ہے تاکہ بیرونی دنیاکو باور کرایا جاسکے کہ پاکستان ایک محفوظ اور سیاحت کے لیے بہترین ملک ہے ۔ اس کے لیے ملک کے بارے میں لکھے گئے مثبت آرٹیکلز‘ ویڈیوز اور غیر سیاسی مشہور شخصیات کی گواہی ضروری ہے ۔ ان میں سے کچھ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں‘ لیکن ایسے ہزاروں اقدامات کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنے کے لیے عالمی آوازو ں کااستعمال ضروری ہے تاکہ باا ثر آوازیں مل کرکہیں '' پاکستان نہیں دیکھا تو کچھ نہیں دیکھا ‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں