وائٹ ہاؤس کی جانب

وزیراعظم عمران خان نے انہونی کردکھائی۔ وائٹ ہائوس سے کیپٹل ہل تک ہرجگہ امریکی اُن کا گرم جوشی اور احترام کے ساتھ خیر مقدم کرتے دکھائی دئیے۔ دونوں ممالک کی ملاقاتوں میں دو الفاظ ‘ جو امریکی طرزِ عمل کی پہچان بن چکے تھے ‘ سننے میں نہ آئے۔ پاک امریکہ تعلقات کا گراف سرد مہری‘ اور کھولتی ہوئی دشمنی کے درمیان نشیب و فراز سے گزرتا رہا ہے۔ بدنام ِزمانہ ''ڈو مور‘‘ کی بجائے اب ''ہم پاکستان کے لیے مزیدکیا کرسکتے ہیں‘‘ سے لے کر صدر ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر حل کروانے کیلئے پاکستان اور انڈیا کے درمیان ثالثی کی پیش کش تک کئی ایک مراحل ہوگئے۔اگر ‘ماضی کی مثال لیں جب تیکھے اور نوکیلے میڈیا انٹرویوز اور تھنک ٹینکس کی سلگتی ہوئی گفتگو ہمارے لیڈروں کو چکرا کررکھ دیتی تھی ‘ تو کہنا پڑے گا کہ پاکستان کے لیے یہ سہ روزہ دور ہ ا یک آزما ئش تھی ۔
اس مرتبہ یہ سب کچھ کیوں تبدیل ہوگیا؟ ایک تو ہوم ورک اچھے طریقے سے کیا گیا تھااور وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے کی گئی امن کی حقیقی پیش کش کو واحد حل قرار دے کر قبول کیا گیا اور دوسرا شخصیت کا عامل اپنی جگہ پر موجود تھا۔ درحقیقت یہ دونوں عوامل کا شاندار ادغام دیکھنے میں آیا۔ تجزے سے پتا چلتا ہے کہ وائٹ ہائوس میں پاکستانی رسائی کو اہم بنانے کے لیے تین مختلف رویے اختیار کیے گئے :
1۔ امریکہ میں طاقت کا مظاہرہ۔ اگرچہ صدر ٹرمپ سے ملاقات سے پہلے کیپٹل ارینا واشنگٹن ڈی سی میںپی ٹی آئی ورکر ز کے جوشیلے اجتماع پر بہت تنقید کی گئی‘لیکن اس کا فائدہ ہوا۔ اس کا مقصد صرف پاکستانی کمیونٹی کو جوش دلانا نہیں تھا‘ بلکہ ڈی سی میں رہنے والے پاکستانیوں کی تعداد اور اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔ اگلے سال ٹرمپ انتخابات میں جارہے ہیں اور واشنگٹن '' ٹرمپ مخالف حلقہ ‘‘ سمجھاجاتا ہے ۔ اس اجتماع نے ٹرمپ کو سوچنے ‘ اور وزیراعظم پاکستان اور پاکستان نژاد امریکیوں کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور کردیا۔ انہوں نے تبصرہ کیا ''ایک عظیم اتھلیٹ۔۔۔ عظیم ترین اتھلیٹ ‘ بلکہ پاکستان کے انتہائی مقبول وزیراعظم سے ملاقات میرے لیے باعث فخر ہے‘‘۔ یہ بیان کیپٹل ون ایرینا میں بھرپور جلسے سے لیا گیا‘ واضح تاثر تھا۔ مائیک پومپیو نے وزیراعظم سے ملاقات کی ‘اور اُن کا پہلا جملہ ہی یہ تھا: ''وزیراعظم‘ آپ کا کل کیپٹل ارینا میں ایک راک سٹار کی طرح خیرمقدم کیا گیا‘‘۔ یہ اجتماع 2014 ء میں مودی کے جلسے سے کہیں بڑاتھا۔ اگر‘ انڈین تارکین وطن کی تعداد‘ جو پاکستانیوں سے کئی گنا زیادہ ہے ‘کو مد نظررکھیں ‘تو عمران خان کے ایسے خیر مقدم نے امریکی حکومت کو بہت کچھ سوچنے پر مجبورکردیا ہوگا۔
2۔ امداد نہیں ‘ تجارت۔ دوسرا اہم ترین عامل‘ جس کی وجہ سے یہ ملاقات سابقہ ملاقاتوں سے مختلف تھی‘ دونوں رہنمائوں کے درمیان امداد کے موضوع پر گفتگو کانہ ہونا تھا۔ درحقیقت جب میڈیا انٹرویو ز کے دوران وزیراعظم سے امداد کا پوچھاگیا تو اُن کاکہنا تھا کہ امدادلینے نہیں آئے ۔ صدر ٹرمپ نے کھل کر کہا کہ '' ماضی کی حکومتوںنے امریکی امداد کو غلط استعمال کیا ‘ہم کئی برسوں سے1.3 بلین امداد دے رہے تھے ‘ لیکن پاکستان... وزیر اعظم‘ آپ سے پہلے ایسا ہوتا رہا... نے امریکہ کے لیے کچھ نہ کیا۔ ‘‘
صدرٹرمپ نے امداد کی بحالی کا عندیہ تو دیا‘ لیکن وزیراعظم نے واضح کردیا کہ پاکستان یہاں امداد نہیں‘ تجارت پر بات کرنے آیا ہے۔ وزیر اعظم اور اُن کے ساتھ جانے والی ٹیم نے امریکی سرمایہ کاروں اور کاروباری افراد کے علاوہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سے ملاقات کی ‘ اور اُن کے ساتھ کافی وقت گزارااور پاکستان میں کسی مشکل اور پریشانی کے بغیر سرمایہ کاری کے مواقع اور امکانات پر بات کی۔ USIP(یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ فار پیس )سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بہت واضح انداز میں کہا کہ وہ امداد کو ایک لعنت سمجھتے ہیں‘ جس سے پاکستان کو باہر آنے اور باہمی تجارت اور سرمایہ کاری پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
3۔ امن کا برانڈ ۔ امریکہ تک رسائی حاصل کرنے والی سابق حکومتوںکو امریکہ نے ''کرائے کی بندوق‘‘ کے طور پر خطے میں لڑی جانے والی جنگوں میں استعمال کیا یا امدادی رقوم ضائع کرنے کا الزام لگاتے ہوئے ''ڈومور ‘‘ کا مطالبہ کیا۔ تاریخی طور پر پاکستان پردہشت گردی کو پالنے اور دیگر ممالک تک پھیلانے کا الزام لگایا جاتا رہاہے۔ موجودہ دورے کے دوران وزیراعظم نے پاکستان کا ''امن کے سفیر ‘‘ کا تاثر ابھارا‘جو چیز اس دورے کے دوران نمایاں اہمیت اختیار کرگئی‘ وہ یہ نہیں کہ امریکی صدر کو افغانستان میں امن کی ضرورت ہے ‘ بلکہ یہ کہ وزیراعظم پاکستان تاریخی طور پر یہی بات کہتے رہے ہیں کہ امریکہ طالبان سے بات کرے‘ جنگ مسلے کا حل نہیں ۔ امریکہ یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ جب تمام دنیا افغان جنگ پر تلی ہوئی تھی‘ اکیلے عمران خان امن کی بات کررہے تھے ۔ مزید برأں حالیہ دنوں پاک بھارت جنگی ماحول ٹالنے اور گرفتار شدہ بھارتی پائلٹ کو واپس کرنے کے اقدام کو عالمی میڈیا میں کافی سراہا گیا؛ چنانچہ جب وہ افغان امن میں عملی کردار ادا کرنے کی با ت کرتے ہیں تو انہیں سنجیدگی سے لیا جاتا ہے ۔
امریکی دورے کے بعد کچھ امور پر خاص کام کرناضروری ہے :
1۔ درست حلقوں میں لابنگ کرنا۔ ما ضی میں پاکستان نے امریکہ میں اپنے موقف کو تواتر سے آگے بڑھانے کے لیے کسی پیشہ ور لابنگ فرم کی خدمات حاصل نہیں کیں۔ایسا کافی عرصے سے ہوتا رہا ہے ۔ انڈیا اور کچھ دیگر ممالک منظم لابنگ کے ذریعے رائے سازوں ‘ سینٹ اور کانگرس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ پاکستان نے حال ہی میں ایک لابنگ فرم کی خدمات حاصل کی ہیں۔ضروری ہے کہ دورے کے بعد پیدا ہونے والے حالات کومزید ساز گار بنانے کے لیے اس فرم کے ساتھ مل کر پلان بنایا جائے کہ اب کن حلقوں تک رسائی ضروری ہے اور اس اچھے تاثر کو اب کس طرح برقرار رکھتے ہوئے دوستی کے رشتے میں ڈھالا جاسکتا ہے ۔ سینیٹر لنڈسے گراہم ‘ جو ٹرمپ کے اہم آدمی ہیں‘ نے یہ ملاقات طے کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا‘ سے مشورہ کرکے رپبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹیوں میں دیگر سٹیک ہولڈرز تک رسائی حاصل کی جائے‘ تاکہ سینٹ میں ایوان ِ نمائندگان میں پاکستان کے لیے حمایت حاصل کی جاسکے ۔
2۔ افغان امن مذاکرات کی طرف واضح پیش قدمی۔ اب امریکی افغان امن بات چیت‘ اور مسئلے کے جلد حل کے لیے پاکستان کی طرف دیکھیںگے ۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ کو طالبان کو گفتگو میں شریک کرنے اور کوئی متفقہ حل تلاش کرنے کے لیے ایک جامع پلان بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے وائٹ ہائوس کے درست حلقوں تک بات پہنچانے کے لیے بہت احتیاط سے پیش رفت کی جائے۔
3۔ میٹنگ پلان کا فالو اپ وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔ ضروری ہے کہ صدر ٹرمپ سے ایک اور ملاقات طے کی جائے۔ دونوں رہنما ممکنہ طور پر ستمبر میں یواین جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران مل سکتے ہیں۔ اگر‘ ایسا ہوجائے تو اس ملاقات کا پلان طے کیا جانا چاہیے۔ مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کے لیے ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہوگی ۔
اس ملاقات کا مقصد اعتماد اور افہام وتفہیم کی فضا قائم کرنا تھا‘ تاہم اس پیش رفت کا فائدہ اٹھا کر واضح اور بامقصد سہولت کاری‘ تجارت میں فروغ اور سکیورٹی تعاون کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ ایک دروازہ کھل چکا ‘ لیکن اب ‘امریکی طاقت کے ایوان میں داخل ہونے کے لیے مزید اقدامات درکار ہیں۔ پیچیدہ اور تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے عالمی تعلقات او رخارجہ پالیسی کے میدان میں آگے بڑھ کرتبدیلیوں کو ملکی مفاد میںڈھا لنا یہی حقیقی آزمائش ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں