مودیٹلر

چارلس ڈیگال نے بالکل درست کہا ''حب الوطنی یہ ہے ‘جب آپ اپنی قوم کی محبت کو ہر چیز پر ترجیح دیں۔ قوم پرستی یہ ہے‘ جب آپ دوسری اقوام سے نفرت کو ہر جذبے پر مقدم سمجھیں ‘‘۔ محبت کی نسبت نفرت کے جذبات بھڑکانا آسان ہوتا ہے ؛ اگرچہ ہٹلر اور مودی کے بارے میںبہت کچھ لکھا جاچکا ‘ لیکن ابھی بھی اس فلسفے پر بہت کچھ کہنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے بہت سے حصوں میں خاموشی سے پرورش پانے والی اس سوچ کو مودی عملی شکل دے رہا ہے ۔ اس قسم کی قیادت کا ابھرنا دنیا کے لیے خطرناک تھا ؛ چنانچہ اس پر مزید بحث‘ مکالمے اور آگاہی کی ضرورت ہے‘ تاکہ دنیا جان سکے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں عالمی جنگوں کے دوران کیا ہوا۔ 
قیادت کا اندازدنیا بھر میں دلچسپی کا باعث رہا ہے ۔ مشہور رہنمائوں کے طرزِعمل کا مطالعہ کرنے کے لیے تھیوریز وضع کی گئی ہیں۔ حکومت اور بزنس کے شعبوں میں ''سچویشنل لیڈرشپ‘‘ سے لے کر'' لیڈرشپ گرڈ ‘‘تک 9 اقسام کے رہنمائوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ کامیاب قیادت کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے ‘ اور نتائج دینے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اس قسم کا پیمانہ ہٹلر یا مودی جیسے افراد کے بارے میں بحث چھیڑ دیتا ہے کہ پھر تو ان کا شمار بھی کامیاب رہنمائوں میں ہوگا ‘کیونکہ وہ اپنے طے شدہ اہدف حاصل کرنے اور نتائج دینے میں کامیاب رہے۔ 
یہاں سے بحث آگے بڑھتی ہے ۔ جو رہنما اپنے اہداف حاصل نہ کرپائے ‘ کیا وہ سچے رہنما نہیں سمجھے تھے؟ اس کا جواب لفظ ''سچے‘‘ میں پنہاں ہے ۔ اس سے تیسرا سوال اٹھتا ہے ۔ سچی قیادت کی کیا اہمیت ہے‘ اگر کسی اور قسم کی قیادت بھی نتائج دے سکے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو قیادت عالمگیر سچائیوں اور اصولوں پر مبنی نہ ہو‘ وہ جز وقتی نتائج اور محدود اثرات کی حامل ہوگی؛ جبکہ عالمگیر سچائیوںپر بنیاد رکھنے والی قیادت کا اثر اُن کے وقت کے بعد بھی رہے گا۔ اس تصور کو چیلنج کرنے والا یہ سوال سامنے آتا ہے کہ ہٹلر کی وراثت بھی اُس کے بعد زندہ ہے ؟ اس کا جواب وقت خود دیتا ہے ۔ ایسی قیادت کی یاد دیر پا ‘ لیکن اثر محدود وقت کے لیے ہوتا ہے ۔ سچے لیڈر وہ ہوتے ہیں‘ جن کی پیروی صرف محدود زمان ومکان میں ہی نہیں کی جاتی‘ بلکہ اُس وقت بھی جب وہ جسمانی طور پر دنیا میں موجود نہیں ہوتے ۔ ایک طرف ہمارے سامنے ہٹلر ہے‘ جس کی جارحیت نے ایک وقت میں دنیا پر سکتہ طاری کردیا تھا‘ لیکن پھر اسی ہٹلر کو عوام کے ہاتھوں تشدد سے بچنے کیلئے خود کشی کرنی پڑی تھی ۔ دوسری طرف نیلسن مینڈیلا ہیں‘ جنہوں نے 27 برس جیل میں گزارے۔ پر تشدد راستہ اختیار کیے بغیر‘ محض اپنے کردار‘ برداشت اور استقامت کے ذریعے دنیا کی نظروں میں لافانی شہرت پاگئے ۔ محدود مدت کے ہنگامی اقدامات کے لیے اصولوں کو روند دینا اور طویل عرصے تک مصائب کے طوفانوں کے تھپیڑے برداشت کرتے ہوئے ثابت قدم رہنا‘ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کیا آپ سب کچھ خاکستر کردینے والی چنگاری ہیں یا تاریکی دور کرنے والی روشنی۔ خطے کی بدقسمتی سے مودی ہٹلر کا حقیقی وارث ہے۔ ہٹلر کی پیروی کرنے والے وہ تھے‘ جو خود سے مختلف افراد سے نفرت کرتے تھے ۔ قطبیت پر مبنی یہ تصور اُن رہنمائوں سے مختلف ہے ‘جن کا ہر دور میں احترام کیا جاتا ہے ۔ ہٹلر اور مودی کا موازنہ اس طرح ہے:
1۔ سوشلزم اورسیکولرازم: ہٹلر اور مودی‘ دونوں نے سیاسی نظریات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کی حمایت حاصل کی اور پھر اقتدار میں آنے کے بعد ان نظریات کو اپنے معانی دے دئیے ۔ ہٹلر ایک قوم پرست اور آمر تھا‘ جس نے سوشلزم کو اپنی مرضی کے معانی پہنائے۔ 28جولائی 1922 ء کو ایک تقریر میں ہٹلر نے کہا تھا : ''سوشلسٹ وہ ہے ‘جو قومی مقصد کو اس حد تک اپنا ذاتی مقصد بنا لے کہ اُس کے سامنے قوم کی بہتری سے بالا تر کوئی تصور نہ ہو اور جو ہمار ا قومی ترانہ سمجھ چکا ہو‘ جس کامطلب ہے کہ دنیا میں جرمنی‘ اس کے عوام اور اس کی سرزمین سے بہتر اور کچھ نہیں‘‘۔ اسی طرح مودی نے بھی سیکولرازم کی اپنی سی تعریف گھڑ لی ۔ اپنی انتخابی ریلی میںمودی کا کہنا تھا: ''وہ چاہتے ہیں کہ میں سیکولرازم پر اپنے تصورات بیان کروں‘ لیکن سیکولرازم کی تعریف کیا ہے ؟ میرے نزدیک اس کا مطلب ہے ؛سب سے پہلے انڈیا۔ یہی میرا سیکولرازم ہے ۔‘‘
2۔ سفاک نسل پرست: مودی اور ہٹلر کی ایک مشترکہ خوبی ہر اخلاقی تصور کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی بھی قیمت پر اپنے اہداف حاصل کرنا ہے ۔نسل پرستی کے انتہائی جذبات میں ڈوبا ہوا ہٹلر ہولو کاسٹ (یہودیوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام)میں ملوث ہوا‘ جبکہ مودی نے گجرات میں مسلمانوں کا ہولو کاسٹ کیا۔ انڈیا میں پر تشدد ہجوم‘ اور کشمیر میں پیلٹ گن اور کلسٹر بموں کا استعمال‘ اور جبری شادیوں کے ذریعے مسلمانوں کی نسلی کشی فسطائی ذہنیت کا واضح ثبوت ہے ۔ دنیا نے یہی دیوانگی ‘اُس وقت بھی دیکھی تھی ‘جب ہٹلر پر یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا جنون سوار تھا۔ 
3۔سچ دکھائی دینے والے جھوٹ گھڑنا: جھوٹ گھڑنے میں ہٹلر کا کوئی ثانی نہ تھا۔ Grobe Lüge ایک پروپیگنڈا ٹیکنک ہے‘ جو ہٹلر نے اپنی کتاب ''Mein Kempf‘‘ میں 1925 ء میں وضع کی تھی ۔اس ٹیکنک کے مطابق ‘اتنا جھوٹ بولیں کہ سچ لگنے لگے ۔ روس کے خلاف جنگ میں 1941-42 ء میں ابتدائی فتح حاصل کرنے کے بعد جنرل پالس کی قیادت میں جرمنی کی سکستھ آرمی کو سٹالن گراڈ کی جنگ میں شکست ہوگئی ‘ لیکن ہٹلر اپنے ہم وطنوں کو مسلسل بتاتا رہا کہ وہ پسپائی دراصل تزویراتی فتح تھی اور زیادہ تر جرمن ہٹلر پر یقین کرنے لگے تھے۔ 
اسی طرح پلوامہ کے بعد مودی اور اُس کی حکومت نے دعویٰ کیا۔ اُنہوں نے پاکستان میں 300دہشت گردوں پر بمباری کی ہے ؛ اگرچہ تمام عالمی جائزے اور تجزیے ثابت کررہے تھے کہ ایک شخص بھی ہلاک نہیں ہوا اور یہ کہ انڈین طیاروں نے بوکھلاہٹ میں ویرانے میں پے لوڈ گرادیا تھا‘اسی طرح جب پاکستان نے انڈین جنگی جہاز مارگرایا اور اُن کے پائلٹ کو اپنی سرزمین سے گرفتا ر کرلیا تو بھی انڈین فوج دعویٰ کرتی رہی کہ اُن کے پائلٹ نے پاکستانی طیارہ گرایا تھا۔ اُنہوں نے پائلٹ‘ ابھینندن کو اپنا اعلیٰ ترین اعزاز دے کر ایک ہیرو بنا ڈالا۔ باقی دنیا اُن کے من گھڑت دعوؤں کا مذاق اُڑا رہی تھی ‘ لیکن مودی نے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھارتیوں کو قائل کرلیا کہ یہ ایک نیشنل سکیورٹی کی کامیابی تھی ‘ اوریہ دعویٰ اُنہیں بھاری انتخابی فتح دلاگیا۔ 
طاقت کی رعونت ایک نشہ ہے ۔ یہ رعونت ہے ‘جو بہت سے رہنمائوں کی بربادی کا باعث بنتی ہے ۔ طاقت کے نشے میں سرشار‘وہ سوچتے ہیں کہ وہ قتل کرکے ‘ جھوٹ بول کر‘ دھوکہ دے کر بچ نکلیں گے ۔ ہٹلر‘ توہین آمیز انجام سے دوچار ہوا۔ زیادہ تر لو گ سوچتے ہیں کہ انڈیا کی وسیع مارکیٹ اور سرمایہ کاری کے مواقع کی وجہ سے کشمیریوں کی آزادی سلب کرنے ‘اور کشمیر کو ایک قید خانے میں تبدیل کرنے کے باوجود مودی بچ نکلے گا ۔ ممکن ہے ‘کچھ دیر کے لیے ۔ اپنی طاقت کے نشے میں وہ اسے ایک فتح سمجھ رہا ہے ‘ لیکن اس نے جلدبازی میں بہت بڑا قدم اٹھا لیا ہے ۔ 
اب ‘پاکستان کے پاس اس ایشو کو عالمی سطح پر اٹھانے کا موقع ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری کے ذریعے مودی پر اتنا دبائو ڈالا جائے کہ وہ میز پر بیٹھ کر فیصلہ کرنے کے لیے تیار ہوجائے کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا موقع ملنا چاہیے ۔ یہ سچ ہے کہ فاصلہ طویل ہے‘ مگر ہدف بھی تو بہت بڑا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں