امن کی سیاست

متوقع کام ہوکر رہتا ہے ۔ امریکہ اور طالبان کے امن مذاکرات سے جو توقعات وابستہ تھیں‘ پوری ہوکر رہیں۔ امن کی بات کرتے کرتے بدامنی پر اترآئے‘ جہاں تک کہ بات چیت کا سلسلہ موقوف ہوگیا۔ بلند بانگ دعوے ارزاں کیے جارہے تھے‘ توقعات کا شیش محل سجایا جارہا تھا‘ لیکن پھر صدر ٹرمپ کے ٹویٹ نے پتھر کا کام کیا: ''زیادہ تر لوگوں کے علم میں نہیں تھا کہ طالبان کے اہم رہنما اور افغان صدر نے اتوار کو مجھ سے کیمپ ڈیوڈ میں الگ الگ ملاقاتیں کرنا تھیں۔ وہ آج رات امریکہ آرہے تھے۔ بدقسمتی سے اپنی ڈیل کی طاقت بڑھانے کے لیے اُنہوں نے کابل پر حملہ کیا‘ جس میں گیارہ افراد کے علاوہ ہمارابھی ایک فوجی جاں بحق ہوا۔ اس پر میں نے فوری طور پر ملاقات منسوخ اور امن مذاکرات معطل کردئیے ۔ یہ کس قسم کے لوگ ہیں‘ جو مذاکرات کی میز پر اپنا وزن بڑھانے کے لیے لوگوں کی جان لیتے ہیں؟‘‘۔
کیمپ ڈیوڈ میں خفیہ ملاقات نظروں سے اوجھل حقائق‘ تلخ اور خطرناک سازشوں اور دہرے اثرات رکھنے والے دعووں اور مکر و فریب کے پردوں پر ملفوف تعلقات کا ایک باب دکھائی دیتی ہے ۔ ناکام امن مذاکرات میں شروع سے ہی اعتماد کا فقدان غالب تھا‘ جس دوران امن ڈیل کے قواعد حتمی شکل اختیار کررہے تھے ؛ بداعتمادی کا گراف بھی بلند ہورہاتھا۔ ابھی بھی ابہام کی فضا اتنی گہری ہے کہ طرفین نے مذاکرات ختم کرنے کا کوئی اعلان نہیں کیا‘ بلکہ مائیک پومپیو کاکہنا ہے کہ حالات بہتر ہونے پر بات چیت کا آغاز ہوسکتا ہے ۔ گویا تعلقات کے ہنڈولے کی گردش اب مستقبل میں کبھی سازگار ہوگی۔ ان مذاکرات کی راہ میں بہت سے مسائل نوکیلے پتھروں کی طرح حائل ہیں۔ جب تک اُنہیں نہیں ہٹایا جاتا‘ کوئی ڈیل طے ہوسکتی ہے اور نہ نافذ۔ مذاکرات کے سامنے اہم چیلنجز یہ ہیں:
1۔ سٹیک ہولڈرز کا اتفاق ِرائے: ڈیل کا سب سے مشکل مرحلہ اس پر دستخط کرنا نہیں‘ بلکہ اس کا نفاذ ہے ‘ اور نفاذ کے لیے سٹیک ہولڈرز کا اتفاق ِرائے ضروری ہوگا۔ مذاکرات میں افغان حکومت شامل نہ تھی‘ جو بھی ہو‘ وہ سٹیک ہولڈرہے‘ اور اگر وہ اس کا حصہ نہیں ‘ تو وہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ یہ معاہدہ ناکام ہوجائے ‘تاکہ وہ خود کو درست ثابت کرسکیں۔ اور پھر طالبان کے اندر بھی ایسے دھڑے موجود ہیں‘ جو اس ڈیل کے حق میں بھی ہیں اور خلاف بھی ۔دیگر جنگجو گروہ اسے ناکام بنانے کے عزائم رکھتے ہیں۔ایک امریکی رپورٹ کے مطابق ‘افغانستان میں 20 کے قریب جنگجو گروہ فعال ہیں۔ ان میں داعش‘ تحریک ِ طالبان پاکستان‘ القاعدہ‘ اسلامک امارات ہائی کونسل اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان شامل ہیں؛ چنانچہ اس بات کا تعین کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ان حملوں کا ذمہ دار کون ہے ؟ 
2۔ انخلا کے بعد کی صورت ِحال: ڈیل ہوجائے گی‘ گو اس میں کئی سال بھی لگ سکتے ہیں‘ لیکن یہ اس عمل کا آسان ترین حصہ ہوگی ۔ اس کا نفاذ وہ بھاری پتھر ہے‘ جسے اٹھانے کی کوئی بات نہیں کررہا۔ پہلے افغان جہاد کے بعد جب سوویت فورسز پسپا ہوگئیں اور امریکہ بھی افغانستان کو چھوڑ کرچلا گیاتو اُس کے بعد پیدا ہونے والی صورت ِحال کے مضمرات آج بھی باقی ہیں۔ امریکی فورسز کے انخلا کے بعد کی صورت ِحال سے نمٹنے کے لیے افغان فورسز کی سکت پر سوالیہ نشان موجود ہے ۔ اس دوران امریکہ اپنی فورسز کی تعداد میں مسلسل کمی کرتا رہا ہے ۔ موجودہ تعداد 8600 ہے ۔ افغان حکومت پہلے ہی پیش گوئی کررہی تھی کہ یہ مذاکرات افغانستان کے لیے تباہ کن ہوں گے ۔ افغان حکومت کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے اور بھارت ہر گز نہیں چاہتا کہ پاکستان کے ذریعے ہونے والے مذاکرات کسی صورت کامیاب ہوں اور افغانستان میں اس کا کردار بڑھ جائے ۔ اور یہ کردار بھارت کی پاکستان کو تنہائی سے دوچار کرنے‘ اور انڈیا اور کشمیر میں ہونے والے ہر حملے کی ذمے داری پاکستان پر ڈالنے کی پالیسی کو ناکام بنانے کے مترادف ہوگا۔ 
3۔ عوامی حمایت : افغانستان کے عوام بہت کچھ دیکھ چکے ہیں۔ اُنہوں نے کم وبیش ہر سٹیک ہولڈر کے ہاتھوں زک اٹھائی ہے ۔ وہ غیر ملکی فورسزاور طالبان کے حملوں کا سامنا کررہے ہیں‘ جبکہ اُن کی حکومت کے پاس کسی جنگجو دھڑے کا مقابلہ کرنے کی نہ صلاحیت ہے اور نہ حوصلہ ۔ اس کی وجہ سے افغانستان سب طالع آزمائوں کے لیے ایک میدان جنگ ہے ‘جہاں وہ سیاسی افراتفری کا فائدہ اٹھا کر اپنے عزائم آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی اور دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے لڑی جانے والی جنگ نے دھشت گردوں یا مسلح فورسز سے زیادہ عام شہریوں کو نقصان پہنچایا ہے ۔ رواں سال اقوام ِ متحدہ کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق‘ 2018 ء میں افغانستان میں کسی بھی سال کی نسبت عام شہریوں کی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ افغان عوام بمباری اور باردودی سرنگوں کی وجہ سے ہلاکتیں برداشت کررہے ہیں تو دوسری طرف حکومت کی عملداری اور ترقیاتی منصوبے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ 
کیا امن مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے ؟ اس کا جواب اثبات میں ہے ۔ امریکیوں کی بے چینی‘ طالبان کے غیر یقینی رویے‘ افغان حکومت کے عدم تعاون اور بھارت‘ جس کی علاقائی سیاست کو امن کی بجائے تشدد کی ضرورت ہے‘ کے منفی ہتھکنڈوں کے باوجود یہ مذاکرات شروع ہوں گے ۔امریکی حکومت کے قول وفعل بھی مذاکرات کے دوبارہ شروع ہونے کا اشارہ کرتے ہیں۔ مائیکل بولٹن کو نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا‘کیونکہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے خلاف تھے۔ مائیک پومپیو نے بھی امن مذکرات کے بارے میں نرم رویہ اپنایا ہے ۔ ٹرمپ کو اگلے صدارتی انتخابات جیتنے کے لیے یہ ڈیل کامیاب بنانی ہے ۔ 
لیکن یہ ڈیل معاملے کا اختتام نہیں‘ بلکہ صرف آغاز ہے ۔ اس وقت امن کو سہ جہتی نفاذ کی ضرورت ہے ۔ پہلا یہ کہ افغان حکومت اور دیگر مخالف گروہوں کو اس عمل میں شریک کیا جائے ۔ امریکہ کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ دوسرا ‘ افغان سکیورٹی فورسز کی استعداد کو دفاعی صلاحیتیں رکھنے والے ہمسایوں‘ جیسا کہ پاکستان ‘ کے تعاون سے بڑھایا جائے ۔ تیسرا‘ انسانی ترقی اور تعلیم پر توجہ دی جائے ‘ تاکہ افغان عوام کے ذہن میں طویل جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی رجعت پسندی کا خاتمہ ہوسکے ۔ 
امن مذاکرات کا آغاز ہونا ہے‘ بات چیت ہونی ہے ‘تاکہ کشمکش کا حل نکالا جائے اور جنگ بند ہو۔ گزشتہ پانچ برسوں سے 45,000 سے زائد افغان فوجی دستے اور پولیس کے جوان جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اقوام ِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ‘رواں سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران 3,812 شہری بھی ہلاک یا زخمی ہوچکے ہیں۔ان میں 1,207 بچے شامل ہیں۔یہ بھی امکان ہے کہ جنگ جاری رہنے سے منشیات کی پیداوار میں اضافہ ہوسکتا ہے‘ جبکہ مزید افغانی دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوجائیں گے ۔ 
امریکیوں کے لیے اس میں ہر حوالے سے ہار ہوگی ۔ 2001 ء میں‘ جب سے یہ جنگ شروع ہوئی‘ 2,400 سے زیادہ امریکی جاں بحق ‘ جبکہ 20,000 کے قریب زخمی ہوچکے ۔ نیٹو کے ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد 1,100 ہے ۔ اس جنگ پر امریکہ اب تک 975 بلین ڈالر جھونک چکا ۔ سب سے بڑھ کر‘ اگلے چالیس برسوں تک اس جنگ میں زخمی یا معذور ہونے والوں کو ادا کی جانے والی رقم کا حجم ایک ٹریلین ڈالر سے تجاوز کرجائے گا۔ الغرض دہشت گردی کیخلاف جنگ ‘ ہی دہشت گردی کی وجہ بن گئی ہے ‘ لہٰذا دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے جنگ بندی ضروری ہے ؛ چنانچہ بات چیت کا آغاز ہونا چاہیے ‘ کیونکہ اس خطے کے لاکھوں افراد ‘ اور باقی دنیا کے لیے امن کا واحد راستہ یہی ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں